Monday, November 18, 2013

 

کتے کی موت اور آخرت کے فیصلے



نومبرسترہ،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چونسٹھ

کتے کی موت اور آخرت کے فیصلے


بات شروع ہوءی کتے کی موت سے اور پہنچی اپنے منطقی انجام تک، یعنی اس بات تک کہ جب دو مسلمانوں کا آپس میں جھگڑا ہو اور اس جھگڑے میں ایک ہلاک ہوجاءے تو کیا ہلاک ہونے والا شہید کہلاءے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا بیان تھا بھی اس قدر اشتعال انگیز کہ اس پہ ہونے والا واویلا عین مناسب تھا۔ منور حسن نے فرمایا کہ جو پاکستانی فوجی، طالبان سے لڑاءی میں ہلاک ہورہے ہیں وہ شہید نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ منور حسن سے یہ پوچھنا عین مناسب تھا کہ صاحب آپ کو کس نے شہادت کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا حق دیا ہے؟ مگر منور حسن کی بات شہادت کی اہلیت سے زیادہ گہری تھی۔ ان کا پیغام دراصل ان پاکستانی فوجیوں کے لیے تھا جو اس وقت طالبان سے برسرپیکار ہیں۔ منور حسن نے اپنے بیان کے ذریعے آج طالبان سے لڑنے والے پاکستانی فوجیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ طالبان سے نہ لڑیں، طالبان کو اپنی من مانی کرنے دیں، کیونکہ طالبان سے لڑکر یہ فوجی ہرگز شہادت کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ منور حسن کے اس بیان پہ پاکستانی حکومت کے وکیل ان پہ بغاوت کا مقدمہ داءر کرتے مگر ایسا نہ ہوا۔ صرف فوج نے تڑپ کر منور حسن کے خلاف ایک بیان دیا۔ فوج کے اس بیان کے جواب میں جماعت اسلامی کی ثانوی درجے کی قیادت نے یہ موقف اختیار کیا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب کوءی جماعت اسلامی سے پوچھے کہ شہادت کی اہلیت کا معاملہ سیاسی کہاں سے ہوگیا؟ آپ فوجیوں کو بغاوت پہ اکساءیں اور چاہیں کہ فوج اس معاملے میں خاموش رہے، یہ کیسے ممکن ہے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان کی مسلمان سے لڑاءی میں شہادت کی اہلیت کی بحث قطعی غیرصحتمند ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ سارے معاملات جن کا فیصلہ روز جزا کے روز ہونا ہے، ان کے متعلق بحث کرنا واقعی فضول ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے ان حالات میں یہ بحث لوگوں کا شعور بیدار کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ پاکستان کو کس قسم کے حالات کا سامنا ہے؟ حالات یہ ہیں کہ ایک عسکری گروہ، یعنی طالبان، یہ دعوی کررہا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت پہ قبضہ کر کے 'شریعت محمدی' نافذ کرنا چاہتا ہے۔ ملک کی اکثریت مسلمان ہے اور اس کے لیے 'اسلام' کا نام ہی کافی ہے چاہے اس نام کے پیچھے کتنا  ہی جھوٹ بولا جارہا ہو۔ راءے عامہ کی اس صورتحال میں، عوام کی طالبان سے اس طرح کی ہمدردی میں پاکستانی فوج کس طرح اس گروہ سے موثر جنگ کرسکتی ہے؟ چنانچہ ضرورت ہے اس بات کی کہ شہادت کی اہلیت جیسی باتیں کھل کر ہوں۔ یہ بات کھل کر ہو کہ کس قرآنی حکم سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک گروہ ڈنڈے کے زور پہ سب کو بتاءے کہ 'صحیح اسلام' کیا ہے۔ اس بارے میں بات ہو کہ کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون کس قدر اچھا مسلمان ہے۔ اس بارے میں بات ہو کہ خود کش حملوں کی مذہبی حیثیت کیا ہے۔ اس بارے میں بات ہو کہ 'نظام مصطفی' کیا ہے اور کس کو یہ اختیار دیا جاءے کہ وہ اس نظام کا چیمپءن بن کر سب کو بتاءے کہ اس نظام میں کیا کچھ ہونا چاہیے۔ اور یہ بات ہو کہ مسلمانوں میں آج کءی فرقے ہیں؛ وہ سب ایک قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآنی احکامات سے متعلق ایک دوسرے سے جدا فہم رکھتے ہیں، تو کون فیصلہ کرے گا کہ کس کا اسلام بالکل ٹھیک اسلام ہے اور باقی گروہوں کا غلط؟
  


Labels: , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?