Saturday, November 02, 2013

 

بیس برس

اکتوبر ستاءیس،  دو ہزار تیرہ
  
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکسٹھ

بیس برس

اگر آپ کو بے حس بن جانے کا شوق ہو اور آپ چاہیں کہ آپ کے اندر سے انسانیت رفتہ رفتہ ختم ہوتی جاءے تو آپ پاکستان کے اخبارات باقادگی سے پڑھا کریں۔ اور اسی وجہ سے میں ہرممکن کوشش کرتا ہوں کہ پاکستانی اخبارات میں موجود قتل وغارت گری کی خبروں پہ بس اچٹتی ہوءی نظر ہی ڈالوں۔
میری دوسری کتاب کا عنوان 'خیال باری' تھا۔ یہ پہلی بار سنہ ۱۹۹۸ میں فضلی سنز نے شاءع کی تھی۔ پہلی طباعت کے قریبا چار سال بعد اس کا دوسرا ایڈیشن شاءع ہوا۔ آج کل میں 'خیال باری' کی طباعت سوءم کے کام پہ لگا ہوں۔ اس کام کے دوران 'خیال باری' میں شاءع ہونے والا ایک مضمون سامنے آیا جو غالبا سنہ ۱۹۹۳ میں لکھا گیا تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ناکام حکومت پہ لکھا جانے والا یہ مضمون آج بیس برس بعد بھی تازہ معلوم دیتا ہے۔ ملاحظہ فرماءیے۔
ہم نے اپنی قیادت، ملک کا انتظام، اپنے شہروں کا نظم و ضبط ایسے لوگوں کے حوالے کردیا ہے جو شعور نہیں رکھتے۔ لگتا ہے کہ ان کو طویل عرصے کی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ یہ امروز کے فیصلے کرتے ہیں اور اپنی عقل پہ خوش ہوتے ہیں۔ ان کے 'سب چلتا ہے' کے فلسفے نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ سب ہرگز نہیں چلتا اور اگر سب چلتا ہوتا تو آج ہم اس قدر مساءل کا شکار نہ ہوتے۔ بیسویں صدی کے مساءل سے نبردآزما ہونے کے لیے بیسویں صدی کے دماغ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا دماغ جو منطقی سوچ کا عادی ہو، جو کسی مسءلے کے بارے میں ہر پہلو سے غور و خوض کرسکے۔ جو تحقیق کرنا جانتا ہو اور جو مستقبل کے امکانات کے بارے میں پہلے سے سوچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
کسی بھی ملک میں انسان کا مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شہر پھیلتے جاتے ہیں۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے حرکت کرتا ہے تو لوگوں کی زندگیاں مصروف تر ہوتی جاتی ہیں۔ ان مصروف زندگیوں میں اس بات کی گنجاءش نہیں ہوتی کہ کثرت سے سماجی تعلقات رکھے جا سکیں۔ انسان کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو جانے۔ انسان صرف چیدہ چیدہ لوگوں سے مل سکتا ہے۔ جب اپنی مصروف زندگیوں کے باعث لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہوجاءے کہ وہ اپنے گردوپیش کے تمام لوگوں کے بارے میں جانیں تو حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ منظم طریقے سے لوگوں کا حساب رکھے۔ اگر انفرادی سطح کے علاوہ حکومتی سطح پہ بھی معاشرے کے افراد غیرمرءی گرفت میں نہ رہیں تو معاشرے میں جراءم بڑھنے کا امکان رہتا ہے۔ اب پورا شہر ایک بہت بڑا اندھیرا کمرہ ہے جس میں لوگوں کی کوءی شناخت نہیں۔ کوءی بھی اس اندھیرے میں کسی کی جیب کاٹ سکتا ہے، کسی کو دو مکے رسید کرسکتا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہر ایسے ہی اندھیرے کمرے بن چکے ہیں۔ ان شہروں میں لاقانونیت کا بڑھتا ہوا رجحان انتہاءی تشویشناک ہے۔
نومبر ۴، ۱۹۹۴ کا اخبار میرے ہاتھ میں ہے۔ طارق روڈ پہ سونے کی دکان لٹنے کے بعد صراف بازار احتجاجا بند رہا۔ میں پوچھتا ہوں کہ اس احتجاج کا کیا فاءدہ؟ کون آپ کے احتجاج کا نوٹس لے رہا ہے؟ کسی کو آپ کے نقصان سے کیا دلچسپی؟ اور اگر 'ارباب اختیار' کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ پاکستان جیسے غریب ملک کی کمزور حکومت میں اتنی سکت کہاں کہ وہ ایسے واقعات روک سکے۔ اس کے محدود وساءل تو وہ چادر ہے کہ اگر یہاں کھینچی گءی تو وہاں سے کھل جاءے گی۔
غور سے دیکھیں تو پاکستان کا ہر شہر یتیم نظر آتا ہے۔ ان شہروں کا کوءی رکھوالا نہیں ہے۔ علاقوں کی باقاعدہ نگہداشت کا کوءی انتظام نظر نہیں آتا۔ کوءی باہر کا آدمی آپ کے علاقے میں آکر آپ کے گھر کے سامنے سڑک کھود دے تو کوءی پوچھنے والا نہیں۔ کوءی شخص باہر سے آکر آپ کے محلے کے گٹر میں بڑے بڑے پتھر ڈال دے تو کوءی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے محلے کے گٹر کے ڈھکن چوری ہوجاتے ہیں۔ بکریاں چرانے والے اپنے گلے کو ہانک کر آپ کے محلے میں لاتے ہیں اور یہ بکریاں آپ کے گھر کے باہر موجود تمام پودے کھا جاتی ہیں۔ علاقے کا رکھوالا نہ ہونے کی وجہ سے سبزیاں بیچنے والے سوزوکی پہ آتے ہیں اور لاءوڈاسپیکر پہ چلا چلا کر آپ کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ پھر کسی فراڈ یتیم خانے کے لیے چندہ جمع کرانے والے آتے ہیں اور آپ کی ذہنی اذیت کا سامان بنتے ہیں۔ بیچ دوپہر میں فقیر آتے ہیں اور آپ کے گھر کا گیٹ پیٹ پیٹ کر آپ کو پریشان کرتے ہیں۔ کوءی موٹرساءیکل والا ساءیلینسر نکال کر آپ کے گھر کے سامنے سے اپنی موٹرساءیکل ادھر سے ادھر دوڑاتا ہے۔ غرض کہ آپ کا علاقہ مادرپدر آزاد ہے۔ جب جس کا جی چاہے آءے اور آپ کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کردے۔ اور اگر اسلحہ لے کر آءے تو آپ کو دن دھاڑے لوٹ کر چلا جاءے۔ کوءی بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔
 اب وقت آگیا ہے کہ ہم حکومت کی نااہلی کا یقین کرتے ہوءے اپنے اپنے علاقوں کا انتظام سنبھال لیں۔ ہم یہ کیسے گوارا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ہماری مرضی کے بغیر ہمارے محلے میں فاءرنگ کر کے چلے جاءیں اور ہم اپنے اپنے گھروں میں خوفزدہ بیٹھے رہیں؟ ہمارے محلے میں ہماری حکومت ہونی چاہیے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?