Monday, April 22, 2013

 

ذکر پرویز مشرف کی بے حساب دولت کا


اپریل بیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چونتیس


ذکر پرویز مشرف کی بے حساب دولت کا


پاکستان کے لوگ بہت غصے میں ہیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے حکومتوں کی مسلسل ناکامی دیکھی ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت چاہے فوجی آءے یا جمہوری، ان کی پریشانیوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی کے بے مہار اضافے اور اسلحے کی فراوانی نے نت نءے مساءل کو جنم دیا ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ مواصلات کے انقلاب نے یہ آسان بنا دیا ہے کہ آپ اپنے خراب حالات میں بھی ٹی وی پہ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں دوسری جگہوں پہ لوگ کیسے سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس طرح کے مشاہدات سے پاکستانیوں کا اپنے حالات پہ عدم اطمینان اور اضطراب اور بڑھ رہا ہے۔ پھر ایسے میں پرویز مشرف جو قریبا پانچ سال پہلے صدارت کی کرسی سے ہٹے تھے، واپس پاکستان پہنچ گءے۔ لوگوں کو اپنا غم و غصہ نکالنے کے لیے ایک آسان ہدف مل گیا۔ مشرف پہ مقدمات کی بوچھاڑ کر دی گءی ہے۔ اب پرویز مشرف ہی پاکستان کی ہر خرابی کے ذمہ دار ٹہراءے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں کم لوگ ہیں جو ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ پرویز مشرف پہ چلاءے جانے والے مقدمات میں انتقامی جذبات کا کتنا بڑا دخل ہے۔
جہاں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو پرویز مشرف سے کسی نہ کسی بات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں وہیں دوسری طرف میڈیا میں ایسے افراد ہیں جو عوامی جذبات کو بھڑکا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں اور حقاءق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ اخبارات میں پرویز مشرف کے اثاثوں کی جعلی فہرستیں شاءع کی جار ہی ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف ارب پتی ہیں۔ اس سلسلے میں زرد صحافت کے ان بدکار نماءندوں سے کوءی ثبوت بھی نہیں طلب کر رہا۔ اسی طرح چک شہزاد میں پرویز مشرف کے پانچ ایکڑ کے فارم کو کہیں تین ہزار ایکڑ اور کہیں پانچ ہزار ایکڑ کی زمین بتایا جا رہا ہے۔ ہوا کچھ ایسی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف ہر بات بلا تصدیق قبول کی جارہی ہے۔ مشرف کی بے حساب دولت کے ان دعووں کے تناظر میں ذرا غور کیجیے تو نظر آءے گا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف پہ تو مالی بے قاعدگیوں کے درجنوں مقدمات رہے ہیں، مگر حیرت انگیز طور پہ پرویز مشرف پہ لوٹ مار کا ایسا کوءی مقدمہ موجود نہیں ہے۔
ان حالات میں ان لوگوں کی گواہی کی ضرورت ہے جو پرویز مشرف اور ان کے خاندان کو قریب سے جانتے ہوں۔
پرویز مشرف کے خاندان کے کچھ لوگوں کے کیلی فورنیا منتقل ہونے پہ مجھے ان لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے گھروں میں روپے پیسے کی وہ ریل پیل نظر نہیں آتی جو بھٹو خاندان یا نواز شریف کے خانوادے میں نظر آتی ہے۔ جن پاکستانی حکمرانوں نے اپنے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کے گول گپے بچے یا تو لندن میں ان جاءیدادوں کے حساب کتاب میں مصروف رہتے ہیں جو اس لوٹے ہوءے پیسے سے بناءی گءی ہیں، یا پاکستان اور دبءی کے درمیان آرام سے گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔  ایسے حکمرانوں کے بچے کیلی فورنیا میں نوکری کر کے اپنا پیٹ نہیں پالتے۔  ایسے حکمرانوں کے بچے سینٹا کلارا کے ایک موٹرمیکینک کی دکان پہ اپنی دس سالہ پرانی گاڑی کی مرمت کرواتے نظر نہیں آتے۔
پھر پرویز مشرف کے 'اربوں ڈالر' کہاں ہیں؟ شاءد یہ دولت محض مشرف کے دشمنوں کے ذہنوں میں ہے جہاں نفرت بھری ہر سانس کے دم سے یہ خیالی اثاثے دن بہ دن پھولتے جا رہے ہیں۔  
پرویز مشرف پہ داءر مقدمات کے سلسلے میں بہت سے معصوم لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت مشرف کے ساتھ انصاف کرے گی۔  لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستانی عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ جواب واضح ہے۔ ہماری عدلیہ بیرونی دباءو سے یقینا آزاد ہے مگر اپنے تعصبات سے آزاد نہیں ہے۔ عدلیہ 'آزاد' ہے مگر آزاد خیال نہیں ہے۔
پرویز مشرف پہ نومبر سات کی ایمرجنسی لگانے کا مقدمہ بالکل جاءز ہے مگر ایک بغاوت کا مقدمہ چلانا اور دوسری بغاوت کو بھول جانا کیونکہ اس بغاوت میں موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی برابر کے شریک تھے، انصاف کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔
پرویز مشرف پہ داءر مقدمات کے سلسلے میں مشرف کے وکلا کا موقف واضح ہونا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وکلا 'عدالتی انصاف' کے جس جھانسے میں آگءے تھے، پرویز مشرف کے وکلا کو اس جھانسے میں مشرف کو پھنسانے سے انکار کرنا چاہیے۔ مشرف کے وکلا کا واضح موقف ہونا چاہیے کہ جب تک افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس کے عہدے پہ براجمان ہیں اور پاکستان کے عدالتی نظام میں ان ججوں کی اکثریت ہے جو سنہ دو ہزار سات کی ایمرجنسی سے چوٹ کھاءی بیٹھی ہے اس وقت تک پرویز مشرف کو پاکستانی عدالتوں سے انتقام تو مل سکتا ہے، انصاف نہیں۔




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?