Monday, April 08, 2013
وہ داغ داغ اجالا
اپریل آٹھ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو بتیس
وہ داغ داغ اجالا
میں پاکستان بننے کے بہت بعد پیدا
ہوا۔ جیسے جیسے میں نے ہوش سنبھالا مجھے ادھر ادھر سے معلوم ہوا کہ سنہ سینتالیس
کے فسادات میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوءے تھے۔ پھر میں نے کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ میں
نے 'علی پور کا ایلی' پڑھی اور 'شہاب نامہ' پڑھا۔ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب
کے ساتھ ساتھ میں نے عبداللہ حسین کا ناول 'اداس نسلیں' پڑھا اور منٹو کے وہ
افسانے پڑھے جو 'صبح آزادی' کے وحشت ناک دنوں سے متعلق ہیں۔ اسی طرح میں نے
انگریزی میں لکھی جانے والی وہ کتابیں بھی پڑھیں جو جنوبی ایشیا کی انگریز سامراج سے
آزادی کے متعلق تھیں مثلا لیری کولنس اور ڈومینیک لاپءیغ کی 'فریڈم ایٹ مڈناءٹ'،
بپسی سدھوا کی 'آءس کینڈی مین' وغیرہ۔ مگر یہ سارا مواد پڑھنے کے باوجود سنہ
سینتالیس کے فسادات سے متعلق تجسس برقرار رہا۔ فسادات کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟ وہ
علاقے جو اس وقت پاکستان میں ہیں وہاں کن کن قصبوں اور دیہاتوں میں ہندو اور سکھ
اکثریت میں تھے؟ وہ کون فسادی تھے جنہوں نے زمین کے ان قدیم باسیوں کو مارا اور
ہجرت پہ مجبور کیا؟ اسی طرح وہ قصبے اور دیہات جو اس وقت ہندوستان کا حصہ ہیں وہاں
کن جگہوں پہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اور فسادات نے کس طرح وہاں کے مسلمانوں کو نقل
مکانی پہ مجبور کیا؟ یہ سارے سوالات مستقل میرے تحت الشعور میں رہے۔ سنہ سینتالیس
کے فسادات ہماری حالیہ تاریخ کا ایک دردناک اور اہم باب ہے مگر تاریخ کی کتاب کے
اس خونی باب سے متعلق عام آدمی کی کہانیاں کسی نے نہیں جمع کی ہیں۔ میری طرح یقینا
اور لوگ بھی اس متعلق تشنگی محسوس کرتے ہوں گے لیکن ایک جوان لڑکی جس کا نام گنیتا
سنگھ بھلا ہے اس نے تشنگی محسوس کرنے پہ اکتفا نہ کی۔ سنہ سینتالیس کے فسادات میں
بلواءیوں نے گنیتا کے دادا کو اپنے آباءی شہر لاہور سے ہجرت پہ مجبور کیا تھا۔
گنیتا نے ان فسادات کی کہانیاں اپنے بچپن میں سنی تھیں۔ جاپان میں ایٹم بم کی
تباہی سے متعلق یادگار دیکھ کر گنیتا نے یہ بیڑا اٹھایا کہ وہ سنہ سینتالیس کے
فسادات سے متعلق عام لوگوں کی کہانیاں جمع کرے گی۔ اور اس طرح '۱۹۴۷ پارٹیشن
آرکاءیو' نامی منصوبے کا آغاز ہوا۔ جو لوگ سنہ سینتالیس میں عاقل و بالغ تھے اور
فسادات میں بچ گءے، ان میں سے زیادہ تر لوگ دنیا سے گزر چکے ہیں۔ جو بچے ہیں اس
وقت اسی یا اس سے اوپر عمر کے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تاریخی دور کا مشاہدہ
کرنے والے وہ لوگ جو اب بھی زندہ ہیں ان کا جلد از جلد انٹرویو کیا جاءے اور ان کی
کہانی ریکارڈ کر لی جاءے۔ گنیتا سنگھ بھلا کا ادارہ بالکل یہی کام کر رہا ہے۔ اس
ادارے کے کارکنان ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش میں ان لوگوں کا انٹرویو کر
رہے ہیں جنہوں نے سنہ سینتالیس کے فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر کام بہت
بڑا ہے اور رضاکاروں کی نفری تھوڑی ہے۔ پچھلے سنیچر کے روز پارٹیشن آرکاءیو نے ایک
فنڈ ریزر کا اہتمام کیا۔ برکلی میں منعقد ہونے والی اس تقریب کی مہمان خصوصی بپسی
سدھوا صاحبہ تھیں۔ تقریب کے ایک حصے میں دو ایسے لوگوں کی کہانیاں سنی گءیں جو سنہ
سینتالیس میں ہوش سنبھالنے کی عمر میں داخل ہوءے تھے۔ ان کہانیوں میں علی شان صاحب
کی کہانی ایسی غمناک تھی کہ اس کہانی کو سننے والا کوءی شخص ایسا نہ تھا جس کی
آنکھوں سے آنسو نہ رواں ہوگءے ہوں۔
اور اب اس کالم کے پڑھنے والوں سے
ہاتھ جوڑ کر ایک درخواست۔
اگر آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں
جس نے سنہ سینتالیس کے فسادات خود دیکھے ہوں تو آپ سے درخواست ہے کہ آپ پہلی فرصت
میں ایک ویڈیو کیمرہ لے کر اس شخص کا انٹرویو کر لیں۔ اس انٹرویو میں اس شخص کی
پوری کہانی سنیں اور خاص دھیان تاریخ، مقامات، اور ناموں پہ دیں۔ مثلا اگرایک
مسلمان فسادات کی وجہ سے جالندھر سے اکھڑ کر موجودہ پاکستان میں آیا تو اس کی پوری
کہانی کے ساتھ یہ معلومات اہم ہے کہ وہ جالندھر میں کہاں رہتا تھا [محلے کا نام،
گھر کا پتہ]، کس تاریخ کو وہاں سے نقل مکانی پہ مجبور ہوا، اور وہ دوسرے مذہب کے
کن لوگوں کو جانتا تھا اور ان سے میل ملاپ رکھتا تھا۔ اس انٹرویو کو پارٹیشن
آرکاءیو کی ویب ساءٹ پہ ڈالا جا سکتا ہے۔ مگر انٹرویو کو شاءع کرنے کی بات ثانوی
ہے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وقت ضاءع کیے بغیر ان بوڑھے لوگوں کا انٹرویو کر
لیا جاءے جو سنہ سینتالیس کے فسادات سے متعلق معلومات رکھتے ہیں اور آپ کے آس پاس
موجود ہیں۔ اگر اس طرح کی معلومات رکھنے والا شخص اپنی بات ریکارڈ کیے بغیر اس
دنیا سے رخصت ہوگیا تو ہماری تاریخ کے اس اہم حصے سے متعلق ہماری معلومات ادھوری
رہ جاءے گی۔