Monday, April 01, 2013

 

شرم



اپریل ایک، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اکتیس



شرم



اس وقت اس عورت کی عمرتیس سال سے کچھ اوپر ہوگی۔ پچھلے ہفتے میں نے اسے اپنے گھر بلایا۔ وہ اپنی دو لڑکیوں کے ساتھ میرے گھر آءی، ایک کتاب کی صورت میں۔ میں اس جوان عورت کی کہانی سننا چاہتا تھا؛ یہ جانتے ہوءے بھی کہ اس کی آپ بیتی دردناک ہے اور یہ کہانی مجھے شدید نفسیاتی گھاءو لگاءے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس عورت کی کہانی سن کر میں اندر سے ٹوٹ گیا۔ یہ داستان سن کر مستقل اپنے آپ سے یہ سوال کرتا رہا کہ آخر یہ ظلم اس عورت کے ساتھ کیوں ہوا۔ جب میں کسی کی کہانی سنتا ہوں اور اس کہانی میں کوءی تاریخ بتاءی جاتی ہے تو میں یہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس دن میں خود کیا کررہا تھا۔ اس طرح اس تاریخ پہ اپنی زندگی کو دیکھتے ہوءے مجھے احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں بیک وقت کیا کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ ہم اپنی اپنی زندگیوں میں یوں غرق ہوتے ہیں کہ جیسے دنیا بھر میں اس سے زیادہ اہم بات تو کوءی ہو ہی نہیں رہی۔ میں جون سنہ اکیانوے میں کہاں تھا؟ میں جنوبی کیلی فورنیا میں تھا اور ایک اہم امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ بے فکری کا زمانہ تھے۔ باقاعدہ تعلیم ختم ہوچکی تھی اور نوکری سے اچھے پیسے مل جاتے تھے۔ میں امتحان کی تیاری کر رہا تھا اور ساتھ ہی ایک لمبے سفر کے لیے رقم جمع کر رہا تھا۔ اس وقت اس جوان عورت کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ یہ ساءوتھ لیک ٹاہو میں اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے ساتھ رہ رہی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی تھیں اور وہ گیارہ سالہ لڑکی ان چھٹیوں میں مصروفیت کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ ان ہی باتوں کو سوچتے ایک دن وہ گھر سے نکل کر سڑک کے اس کنارے تک جا رہی تھی جہاں اسکول بس رکتی تھی کہ اچانک ایک گاڑی اس کے پاس آکر رکی۔ بچی سے پتہ پوچھنے کے بہانے اسے گاڑی کے قریب بلایا گیا اور پھر جانوروں کو بجلی کا جھٹکا دینے والی اسٹن گن سے اس بچی پہ وار کیا گیا۔ یہ بچی بجلی کا جھٹکا کھاکر ادھر ہی فٹ پاتھ پہ گر پڑی۔ گاڑی چلانے والے آدمی نے ذرا سی دیر میں بچی کو اٹھا کر پچھلی سیٹ کے سامنے فرش پہ ڈال دیا۔ بچی پہ کمبل ڈال دیا گیا۔ یہ آدمی لڑکی کو لے کر اطمینان سے فرار ہوگیا اور گاڑی چلاتا ہوا ایک سو ساٹھ میل دور اینٹیوک میں اسے اپنے گھر لے آیا۔ اس عورت کی بقیہ کہانی اٹھارہ سالوں پہ محیط ہے۔ ایک گیارہ سالہ بچی جو جنسی تشدد کا نشانہ بنی، اسی قید میں بلوغت تک پہنچی، اور پھر ماں بنی۔  ایک گیارہ سالہ بچی کو کوءی کچھ بھی بتا سکتا ہے؛ وہ اپنی معصومیت میں اس بات کا یقین کرجاءے گی۔ اس بچی کو یہ سمجھا دیا گیا کہ جو کچھ بھی خفیہ طور سے اینٹیوک کے اس گھر میں ہورہا تھا وہ بہت شرم کی بات تھی اور بہتر یہی ہے کہ وہ ان باتوں کو راز رکھے۔ اس بچی نے اٹھارہ سال تک اس بات کو راز رکھا۔ وہ اپنے اغواکنندہ کو بچا کر رکھتی رہی۔ وہ لڑکی اس شخص سے اتنی مانوس ہوگءی کہ جب اسے آزادی سے گھر میں گھومنے پھرنے کی آزادی ملی بھی تو وہاں سے فرار نہیں ہوءی۔ ایک خیال تو اس لڑکی کے ذہن میں یہ تھا کہ اس کے اغوا کی بات پرانی ہوگءی ہے، اب بھلا کون اس کو تلاش کررہا ہوگا؛ وہ فرار ہوکر کہاں جاءے گی۔  وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ، اتنے مانوس صیاد سے ہو گءے، اب رہاءی ملے گی تو مر جاءیں گے۔ اور پھر دوسرا خیال یہ تھا کہ اس کی کہانی ایک شرمناک راز ہے جو کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ مگر ایک دن یہ راز فاش ہو گیا۔ پھر خیرخواہوں کو ایک وقت لگا اس لڑکی کو یہ بات سمجھانے میں کہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں لڑکی کے لیے کوءی شرم کی بات نہیں ہے۔ شرم تو اس شخص کو آنی چاہیے جس نے اس درندگی کا مظاہرہ کیا۔  اس عورت کی کہانی ختم ہوچکی ہے مگر میں اپنے ذہن سے اس کہانی کو نکالنے سے قاصر ہوں۔ اس کہانی کے مختلف باب مستقل میرے ذہن میں دوڑتے رہتے ہیں۔ میں ملک شام میں ہونے والی جنگ کے بارے میں پڑھوں تو مجھے ان چھوٹی چھوٹی بچیوں کا خیال آتا ہے جو اس طواءف الملوکی میں بے سہارا ہوگءی ہوں گی اور موقع غنیمت جان کر درندے انہیں لے اڑے ہوں گے۔ میں بنگلہ دیش میں دلاور حسین سیدی کی حراست کے بارے میں پڑھوں تو مجھے سنہ ستر اکہتر کی شورش کا خیال آتا ہے۔ افراتفری کے ان دنوں بھی نہ جانے چھوٹے چھوٹے بچوں پہ کیا ظلم و ستم ہوا ہوگا۔ اور پھر سنہ سینتالیس کی غدربود کی طرف بھی ذہن جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی عورت کا حال پڑھا تھا جو سنہ سینتالیس میں ایک سکھ گھرانے میں چھوٹی سی بچی تھی۔ اب وہ عورت ایک مسلمان گھر میں دادی اور نانی بنی ہوءی ہے۔ سنہ سینتالیس کی افراتفری میں سکھ گھر کی ایک بچی کسی مسلمان گھر کیسے پہنچی ، اس بارے میں آپ بھی میری طرح قیاس آراءی کر سکتے ہیں۔ اور اسی ضمن میں جماعت اسلامی کے امیر منورحسن صاحب کا ایک انٹرویو بھی غور طلب ہے۔ اس انٹرویو میں منورحسن صاحب کا فرمانا تھا کہ زنا ایک شرمناک جرم ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس جرم کو مشتہر نہ کیا جاءے اور اگر کوءی ایسی بات ہو بھی جاءے تو اسے چھپا لیا جاءے۔ شکر ہے کہ منورحسن صاحب کا انٹرویو کرنے والا شخص ایک مرد تھا اور منورحسن کے سامنے مختاراں ماءی نہ تھی۔ مجھے تعجب نہ ہوتا کہ اگر مختاراں ماءی منورحسن کو گریبان سے پکڑ لیتی اور کہتی کہ تمھارے جیسے دو ٹکے کے راہ نما یہ چاہتے ہیں کہ مرد جو چاہے زیادتی کرتا رہے اور عورت 'شرم' کی اوٹ میں مرد کے جراءم پہ پردے ڈالتی رہے۔  عورتوں پہ ہونے والے ظلم کے شرم کو وہاں پہنچانا ضروری ہے جہاں اس شرم کا اصل مقام ہے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?