Monday, May 13, 2013
انتخابات کے بعد
مءی تیرہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو سینتیس
انتخابات کے بعد
گیارہ مءی کو گزرے آج دوسرا روز
ہے۔ گیارہ مءی کی رات جہاں ایک طرف انتخابات کے نتاءج سامنے آءے وہیں دوسری طرف سوشل
میڈیا پہ دھاندلی کی ویڈیو بھی آنا شروع ہوگءیں۔ ان ویڈیو میں لوگوں کو بیلٹ پیپر
کے تھدے بیلٹ باکس میں ٹھونستے دکھایا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ بیلٹ پیپر کے ان
تھدوں پہ کس کو ووٹ دیا گیا ہے۔ کءی انتخابی حلقوں سے یہ شکایت سننے میں آءی ہے کہ
ایک شخص جب شام کو ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کے نام سے تو
ووٹ پہلے ہی پڑ چکا ہے۔
یقینا ہر دفعہ انتخابات میں اس قسم
کی دھاندلی ہوتی ہوگی مگر اب فرق یہ ہے کہ ہر شخص کے ہاتھ میں ایک فون ہے جس سے
تصویر لی جا سکتی ہے یا ویڈیو بناءی جا سکتی ہے چنانچہ اب صرف دھاندلی کا الزام ہی
سننے میں نہیں آتا بلکہ ساتھ ہی اس کی ویڈیو بھی دکھاءی جاتی ہے۔
دھاندلی کے سلسلے میں ایم کیو ایم
پہ الزام ہے کہ اس نے کراچی میں خوب دھاندلی کی؛ پنجاب میں دھاندلی کی ایسی ہی
شکایات مسلم لیگ نواز شریف سے ہیں۔ دھاندلی کا الزام لگانے والوں میں تحریک انصاف
اور جماعت اسلامی آگے آگے ہیں۔ مگر صرف دھاندلی کا الزام لگانا کافی نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں ٹھوس شواہد اکٹھے کیے جاءیں۔ سب سے موثر شواہد
ان ووٹروں کے سلسلے میں ہو سکتے ہیں جو انتخابات کے وقت ملک میں موجود نہیں تھے۔
اگر کسی بھی حلقے میں سو، دو سو ایسے لوگوں کی فہرست بناءی جا سکے جو مءی گیارہ کو
پاکستان میں موجود نہیں تھے مگر اس کے باوجود ان کے نام سے ووٹ ڈالے گءے ہیں تو یہ
شواہد دھاندلی کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کو قاءل کرنے کے لیے موثر ثابت ہو سکتے
ہیں۔
عمران خان ایک عرصے سے اپنے چاہنے
والوں کو ایسی سونامی کی نوید سنا رہے تھے جو شمال سے جنوب تک پورے ملک کو بہا کر
لے جاءے گی۔ اکثر مبصرین کو عمران خان کی اس پیش گوءی سے اختلاف تھا۔ انتخابات کے
نتاءج نے ثابت کیا کہ عمران خان غلط تھے اور مبصرین صحیح تھے۔ سونامی اوپر سے بہہ
کر نیچے تک نہیں آءی مگر خیبر پختوان خواہ میں ضرور آگءی۔ اگر دوسری جماعتیں خیبر
پختوان خواہ کے نو منتخب شدہ آزاد اراکین اسمبلی کو خریدنے میں ناکام رہیں تو
تحریک انصاف اس صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاءے گی۔ اور اس صورت میں عمران
خان کا اصل امتحان شروع ہوگا۔ ان پہ زور ہوگا کہ وہ امریکہ کی جنگ سے فوری طور پہ
علیحدگی اختیار کریں۔ یوں تو نواز شریف جن لوگوں کو ساتھ ملا کر انتخابات جیتے ہیں
ان کی طرف سے مسلم لیگ پر بھی ایسا ہی زور ہوگا مگر کیونکہ جنگ خیبر پختون خواہ
میں لڑی جا رہی ہے اس لیے اس جنگ کو رکوانے کے سلسلے میں عمران خان پہ زیادہ زور
ہوگا۔ ایسی صورت میں محاذ آراءی کی ایک کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جس میں ایک صوبہ وفاق
سے یا پاکستانی فوج سے متصادم ہوگا۔ ایسی محاذ آراءی میں تحریک انصاف کو سیاسی
فاءدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہی بتاءے گا کہ آیا تحریک انصاف محاذ آراءی کی
سیاست کرے گی یا خیبر پختوان خواہ کی معاشی حالت بہتر کر کے اپنی کارکردگی پورے
ملک کو جتلاءے گی۔