Monday, April 21, 2014
ملاءیشیاءی جہاز کی گمشدگی سے متعلق چند خیالات
اپریل چھ، دو ہزارچودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو تراسی
ملاءیشیاءی
جہاز کی گمشدگی سے متعلق چند خیالات
ملاءیشءین
اءیرلاءنز کی پرواز تین سو ستر کو مارچ آٹھ صبح ساڑھے چھ بجے بیجنگ پہنچنا تھا۔ جب
یہ جہاز اپنی متوقع آمد کے ایک گھنٹے بعد بھی اپنی منزل پہ نہ پہنچا تو ملاءیشیا
نے اعلان کردیا کہ اس کا ایک جہاز غاءب ہے۔ اب اس بات کو ایک مہینہ ہونے کو آرہا
ہے اور غاءب ہونے والے جہاز کی تلاش ہنوز جاری ہے۔ آج صبح کی خبر تھی کہ تلاش کرنے
والے جہازوں کو ایسے سگنل ملے ہیں جو غالبا سمندر کی تہہ میں پڑے بلیک باکس سے
آرہے ہیں۔ مگر ان سطور کی تحریر تک بلیک باکس کی بازیابی نہیں ہوسکی ہے۔ اس قیمتی
آلے کے ملنے پہ ہی ساری بات کھل کر سامنے آسکے گی کہ مذکورہ جہاز کو کن مساءل کا
سامنا تھا جن کی وجہ سے جہاز تباہ ہوگیا—اگر وہ واقعی تباہ ہوا ہے تو۔
اور آج ہی
ملاءیشیا کے وزیر دفاع حشام الدین حسین کا بیان ہے کہ ملاءیشیا پرواز تین سو ستر
کی تلاش جاری رکھے گا۔ حشام الدین حسین کا یہ بیان پڑھ کر ملاءیشیا پہ ترس آیا۔
ایک طرف اتنا بڑا اور گہرا سمندر، اور دوسری طرف بیچارہ ننھا منھا ملاءیشیا۔ واضح رہے کہ بحر ہند میں جو ممالک جہاز کی تلاش
میں مصروف ہیں ان میں ملاءیشیا شامل نہیں ہے۔ بحر ہند کے اس حصے میں طاقتور ممالک
اپنی ٹیکنالوجی کے جلوے دکھانے کے لیے بیتاب ہیں۔ مگر اتنی طویل مدت گزرنے کے
باوجود جہاز کی تلاش میں ناکامی سے ان ممالک کی ٹیکنالوجی کا رعب و دبدبہ بھی ختم
ہوتا جارہا ہے۔ ہم تو یہ سن کر مرعوب ہوتے رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس
ایسے سیٹیلاءٹ ہیں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی گاڑی کی نمبر پلیٹ تک پڑھ
سکتے ہیں۔ آج اس افسانوی سیٹیلاءٹ ٹیکنالوجی کی دھوتی ہمارے سامنے اتر چکی ہے۔
ہمیں سیٹیلاءٹ سے حاصل ہونے والی دھندلی تصاویردکھا کر بتایا جارہا ہے کہ ان
تصاویر میں سطح سمندر پہ تیرنے والا، تباہ شدہ جہاز کا ملبہ صاف نظر آرہا ہے۔ ہم
نے تجربہ گاہوں میں کام کیا ہے۔ غیرفوکس شدہ ماءکرواسکوپ سے کسی ماءع کی سطح پہ
تیرنے والے چھوٹے بڑے ذرات بھی اسی طرح کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ واضح ہوگیا ہے
کہ ترقی یافتہ ممالک کی ساری ٹیکنالوجی کا زور دنیا کے کمزور لوگوں پہ چلتا ہے۔ جو
کام یہ پھرتی سے کرسکتے ہیں وہ ہے فون پہ ہونے والی گفتگو ریکارڈ کرنے کا، ہمارے
آپ کے بھیجے برقی پیغامات کو اپنے پاس محفوظ کرنے کا، یا ترقی پزیر ممالک میں
لوگوں کو ڈرون حملوں میں مارنے کا۔
پرواز تین سو
ستر کے مسافروں میں سب سے بڑی تعداد چینی مسافروں کی تھی؛ دوسرے نمبر پہ ملاءیشیا
کے مسافر تھے۔ اپنے پیاروں کو کھو دینے کا غم بڑا ہوتا ہے، اس لیے گمشدہ جہاز کے
مسافروں کے لواحقین کا غم و غصہ سمجھ میں آتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی
ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو زندگی کی ثباتی سے متعلق غیر
حقیقی خیالات رکھتے ہیں؛ ان لوگوں کے نزدیک موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا صرف
عمر رسیدہ لوگوں کو کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھول گءے ہیں کہ موت تو ہروقت آپ کے بالکل
قریب ہے۔ یہ جب چاہے کسی نہ کسی بہانے سے آپ کو دبوچ سکتی ہے۔
جہاں ایک طرف
گمشدہ جہاز کے مسافروں کے ایسے لواحقین ہیں جنہیں اب تک یقین نہیں آرہا کہ وہ اب
اپنے پیاروں سے کبھی نہ ملیں گے، وہیں دوسری طرف ایسے اعزا بھی ہیں جن کا کہنا ہے
کہ اگر جہاز غاءب ہوگیا تو یہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اور جہاز کے ملبے کو
ڈھونڈنا فضول ہے۔ جو لوگ جہاز کے ملبے کو اور بالخصوص اس کے بلیک باکس کو ڈھونڈ
رہے ہیں وہ ایسا ایک خاص مقصد کے تحت کررہے ہیں۔ یہ معلوم کرنا تو ثانوی حیثیت
رکھتا ہے کہ مذکورہ جہاز کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ وہ اپنا رخ بدل کر کہیں سے کہیں
نکل گیا۔ اصل مقصد مستقبل کے لیے فضاءی سفر کو محفوظ بنانا ہے۔ اصل مقصد یہ معلوم
کرنا ہے کہ مستقبل میں جہازوں میں کس طرح کی ترمیمات کی جاءیں کہ جہازوں کو ایسا
حادثہ نہ ہو جیسا پرواز تین سو ستر کو ہوا۔ اور یہ جستجو کرنے کے پیچھے یہ سوچ ہے
کہ ہم تقدیر کے چنگل میں پھنسے بے بس لوگ نہیں ہیں، بلکہ بہت کچھ ہمارے اختیار ہے
جسے استعمال کرتے ہوءے ہم اپنی تقدیر بہت حد تک خود لکھ سکتے ہیں۔
Labels: Black Box, Death is all around us, Malaysian Airlines MH370, Satellite technology and the claims to be able to read car registration plates