Tuesday, April 29, 2014

 

حامد میر اور آءی ایس آءی در آءی ایس آءی


اپریل ستاءیس،  دو ہزار چودہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھیاسی

حامد میر اور آءی ایس آءی در آءی ایس آءی

دگرگوں معیشت، بڑھتی ہوءی بے روزگاری، ناکام ریاست، غیرقانونی اسلحے کی فراوانی۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں کراءے کے قاتل باآسانی دستیاب ہیں اور ہر کراءے کا قاتل کءی قتل کرنے کے باوجود آزادی سے دندناتا پھرتا ہے اور تازہ کاروبار کی تلاش میں رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں آج کل کراءے کے قاتل ستر ہزار روپے پہ دستیاب ہیں۔ یہ آپ سے رقم لے کر آپ کے بتاءے ہوءے شخص کو قتل کردیں گے۔ اگر کسی شخص کو آپ سے عناد ہے تو وہ کراءے کے قاتل کو ستر ہزار روپے دے اور آپ کا نام و پتہ لکھا دے۔ کراءے کا قاتل بتاءے ہوءے پتے پہ پہنچے گا، نام کی تصدیق کرے گا، آپ کی حرکات و سکنات کا جاءزہ لے گا، اور پھر ایک دن تیاری سے آکر آپ کو گولی مار دے گا۔ اسے اس بات سے کوءی سروکار نہیں کہ آپ کون ہیں، کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کراءے کے قاتل کو قتل کی رقم دی گءی ہے [شاید کچھ پیشگی اور بقیہ کامیابی سے قتل کی واردات مکمل کرنے پہ]؛ بس اتنا کافی ہے۔ حامد میر پہ قاتلانہ حملے کے متعلق میری راءے ہے کہ یہ واردات کرنے والا شخص کراءے کا قاتل تھا اور بہت زیادہ تجربہ کار نہ تھا۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کراءے کے قاتل عموما بہت سادہ نوعیت کی وارداتیں کرتے ہیں۔ مثلا انہیں ایک شیعہ ڈاکٹر یا پروفیسر کو مارنے کی رقم دی جاءے تو وہ متعلقہ شخص کے متعلق اتنی تحقیق کریں گے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کس راستے سے آتا جاتا ہے۔ پھر اس راستے میں اس شخص کو مارنا جہاں سب سے زیادہ آسان ہو، کراءے کے قاتل وہاں قتل کی واردات مکمل کرتے ہیں۔ حامد میر پہ کراچی میں ہونے والا قاتلانہ حملہ کسی قدر پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہاں کافی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے یہ معلوم کرنا تھا کہ حامد میر کس پرواز سے کراچی پہنچ رہے ہیں۔ پھر کراچی پہنچنے پہ ہواءی اڈے پہ حامد میر کی شناخت کرنی تھی اور ان کا پیچھا کر کے معلوم کرنا تھا کہ وہ کس گاڑی سے ہواءی اڈے سے روانہ ہورہے ہیں۔ پھر شاید احتیاطا حامد میر والی گاڑی کا پیچھا بھی کیا گیا ہو تاکہ گاڑی ادھر ادھر نہ ہوجاءے [مثلا کسی وجہ سے ڈراءیور کا یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ہواءی اڈے سے نکل کر فورا سیدھے ہاتھ پہ مڑجایا جاءے اور پھر اسٹار گیٹ سے شاہراہ فیصل پہ آیا جاءے]۔ اور اس درمیان مستقل ان دو لوگوں سے فون پہ رابطہ رکھنا تھا جو شاہراہ فیصل پہ حامد میر کے انتظار میں کھڑَے تھے۔ اتنی زبردست منصوبہ بندی اور اتنے انتظامات کے اخراجات کراءے کے قتل کی عام واردات کے نرخ سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور اس ساری منصوبہ بندی میں سب سے پیچیدہ معاملہ یہ معلوم کرنا تھا کہ حامد میر کس پرواز سے کراچی پہنچ رہے ہیں۔ یہ خبر وہی شخص یا گروہ حاصل کرسکتا تھا جو یہ تو اندر کا شخص ہو یا جس کے پاس اس قدر وساءل ہوں کہ جہاز سے سفر کرنے والے تمام مسافروں کے ناموں پہ نظر رکھ سکے۔
یہ بات پہلے بھی لکھی جا چکی ہے کہ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے جراءم پیشہ افراد وارداتیں کرتے ہیں، اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان افراد کو پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ حامد میر کے واقعے میں کراءے کے قاتل کے مستقل فون پہ باتیں کرنے کے بارے میں غور کیجیے۔ وہ حملہ آور یقینا کسی ایسے شخص سے فون پہ بات کررہا تھا جو پل پل کی رپورٹ اسے دے رہا تھا کہ حامد میر کی گاڑی اس وقت کہاں ہے۔ حملہ آور جس شخص سے بات کررہا تھا، ممکن ہے وہ شخص گاڑی یا موٹرساءیکل پہ حامد میر کی گاڑی کا پیچھا کررہا ہو اور حملہ آور کو صرف یہ دیکھنا پڑا ہو کہ اس کے ساتھی کی گاڑی یا موٹرساءیکل سے آگے کونسی گاڑی تھی جس کا رنگ اور ماڈل نمبر وغیرہ حملہ آور کا ساتھی اس کو فراہم کرچکا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ موباءل فون سے کی جانے والی ہر کال جب قریب ترین ٹاور پہ جاتی ہے، اور وہاں سے آگے بڑھتی ہے تو ٹاور کی معلومات اس کال سے منسلک ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کسی ایک جگہ سے کسی خاص وقت ملاءی جانے والی کال کے اصل فون تک پہنچنا بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اور اسی طرح ہواءی اڈے پہ لگے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے ان افراد کا تعین کرنا بھی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے جو حامد میر کو ان کی کراچی آمد پہ نظر میں رکھے ہوءے تھے اور شاید ان کا پیچھا کرتے ہوءے اس گاڑی تک آءے جس گاڑی میں حامد میر سوار ہوءے۔
حامد میر پہ قاتلانہ حملے کے واقعے میں بہت سے لوگوں کو جیو چینل کے رویے پہ اعتراض ہے کہ جیو نے اس واقعے میں آءی ایس آءی پہ کیوں الزام لگایا اور ظہیرالاسلام کی تصویر گھنٹوں ٹی پہ کیوں دکھاءی گءی۔ میں اس اعتراض کوسمجھنے سے قاصر ہوں۔ کسی بھی خبررساں ادارے کا کام تازہ خبر کو نشر کرنا ہوتا ہے۔ جس روز حامد میر پہ حملہ ہوا اس روز یہ خبر ملک کی سب سے بڑی خبر تھی۔ اگر جیو اس خبر کو نہ دکھاتا تو کیا کرتا؟ اور پھر اس خبر سے متعلق جو بھی نءی بات آرہی تھی اس کو بھی لوگوں تک پہنچانا ضروری تھا۔  قاتلانہ حملے کے فورا بعد حامد میر کے بھاءی جیو کے پاس یہ بتانے کے لیے پہنچ گءے کہ ان کے بھاءی [حامد میر] نے کہا تھا کہ اگر کبھی ان کے قتل کی کوشش کی جاءے تو اس واردات کی ذمہ دار آءی ایس آءی اور بالخصوص آءی ایس آءی کے ڈاءیریکٹر ظہیر الاسلام ہوں گے۔ اب جیو کیا کرتا؟ حامد میر کے بھاءی کو گھر روانہ کردیتا کہ ہم اس شخص کے ریکارڈ کردہ بیان کو ہرگز گھاس نہیں ڈالیں گے جس پہ ابھی ابھی قاتلانہ حملہ ہوا ہے؟ پھر چند معتضرین کا کہنا ہے کہ جیو نے ظہیر الاسلام کی تصویرکیوں دکھاءی؟ ارے، اللہ کے بندوں، یہ میڈیا گرافکس پہ چلتا ہے۔ اگر خبر میں ظہیرالاسلام کا نام آرہا تھا تو جیو ان کی تصویر نہ دکھاتا تو کیا کرتا؟ کیا یوں ہونا چاہیے تھا کہ خبر میں نام تو ظہیرالاسلام کا آتا مگر اسکرین پہ مسجد نبوی دکھاءی جاتی؟
آج [اپریل ستاءیس] حامد میر نے قاتلانہ حملے کے بعد اپنا پہلا انٹرویو دیا ہے اور یہ بات واضح ہوگءی ہے کہ حامد میر ہرگز آءی ایس آءی کے پورے ادارے کو مورد الزام نہیں ٹہرا رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق آءی ایس آءی کے اندر موجود ایک آءی ایس آءی سے ہے۔ عام فہم زبان میں بات کچھ یوں سمجھ میں آتی ہے کہ آءی ایس آءی ایک بڑا ادارہ ہے جس میں بہت سے خفیہ اہلکار کام کررہے ہیں۔ اس بڑے ادارے میں خفیہ اہلکاروں کا ایک ایسا گروہ ہے جس کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے جو شاید پورے ادارے کے ایجنڈے سے مختلف ہے۔ شاید حامد میر کا ظہیر الاسلام پہ یہ الزام ہے کہ وہ پورے ادارے کے ڈاءریکٹر ہونے کے ناتے آءی ایس آءی میں موجود اس چھوٹے مادر پدر آزاد گروہ پہ کیوں قابو نہیں پاتے۔ یہاں کوءی بھی شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ جس طرح آءی ایس آءی کے اندر ایک آءی ایس آءی کا ہونا ممکن ہے اسی طرح جیو کے اندر بھی ایک اور جیو کا ہونا بھی تو ممکن ہے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?