Sunday, October 17, 2010

 

صاف رنگ کے لوگ، آپ کے چندے کے صحیح حقدار




آج کل یوایس اردو نیوز کے لیے ہفتہ واری کالم لکھ رہا ہوں۔ یہ کالم دو ہفتے قبل لکھا گیا تھا۔

پچھلے ہفتے کے کالم میں فلاحی کام کرنے والوں کی ستاءش کے معاملے میں دنیا والوں کی نسل پرستی کا حال بیان کیا تھا؛ اس دفعہ امریکی فلاحی میدان کے ایک اور گھناءونے رخ کو کھول کر بیان کرنا چاہوں گا۔
ذرا غور کیجیے تو آپ کو نظر آءے گا کہ فلاح میں ان غریبوں کی مدد کو ترجیح دی جاتی ہے جو مغربی دنیا کے راءج خوب صورتی کے معیار کے مطابق قبول صورت ہوں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ میں چندہ جمع کرتے وقت کالے غریب لوگوں کے مقابلے میں گورے غریب لوگ آپ کی ہمدردی کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ غریبوں، محتاجوں کے لیے عطیات جمع کرتے ہوءے قبول صورت غریب لوگوں کی تصاویر دکھاءی جاتی ہیں۔ دنیا والوں کو ایسے غریب بچوں پہ ترس آتا ہے جن کے گال سرخ و سفید ہوں۔ کالے کلوٹے بچوں سے بھلا کون ہمدردی کرے گا؟ حالیہ پاکستانی سیلاب میں سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوءی ہے مگر تصویروں میں شمالی علاقے کے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جیسے گرم ملک میں "قبول صورت" لوگ تو صرف ٹھنڈے علاقوں میں مل سکتے ہیں۔
چنانچہ سینٹرل ایشیا انسٹی ٹیوٹ کی دکان بھی اسی لیے چمکتی ہے کیونکہ وہ ایسے علاقوں میں کام کر رہی ہے جہاں کے غریب لوگوں کی شکلیں مغربی دنیا کے لیے قابل قبول ہیں۔ گندے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایسے گورے بچے جنہیں دیکھ کر لوگ کہیں، "ہاءو کیوٹ" اور پھر فورا ایک بڑا چیک کاٹ کر چندہ جمع کرنے والے فلاحی ادارے کو تھما دیں۔
دوسرے امریکی فلاح میں ایسی نسل پرستی کو قبول کریں تو کریں ہم دیسی امریکیوں کو اس جال میں پھنسنے سے انکار کردینا چاہیے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ غربت اور افلاس کا اصل چہرہ بہت گھناءونا ہے۔ غربت اور افلاس کے چہرے پہ امارت اور فارغ البالی کی چمک اور سرخی تلاش کرنا بے وقوفی ہے۔ ہر غریب اور مفلس ہماری ہمدردی کا یکساں مستحق ہے چاہے اس کی کھال کا رنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ کسی بھی نسل سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ اور غریبوں سے ہمدردی میں ہمیں اپنے اوپر کسی قسم کا فخر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ یہ بس محض ایک اتفاق ہے کہ ہم غربت کے چنگل سے باہر ہیں۔ ورنہ کسی قسم کی بھی امارت، کسی بھی قسم کی سفید پوشی سے افلاس تک کا فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ ابھی ذرا حالات پلٹیں اور ہم بے دست و پا ہوجاءیں، دوسروں کے محتاج ہو جاءیں۔ اور اپنی اس کمزور حالت میں ہم یہ نہ چاہیں گے کہ دوسرے ہماری شکل دیکھ کر یا ہماری کھال کا رنگ دیکھ کر ہمارا ہاتھ تھامنے یا نہ تھامنے کا فیصلہ کریں۔
میں گریگ مورٹینسن کی حالیہ تقریب میں بیٹھا یکے بعد دیگرے اسکرین پہ "قبول صورت" غریب بچوں کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔ اور بچوں کے ساتھ ہی ایک ایسے چھوٹے بچے کو بھی دکھا گیا جس کے متعلق بتایا گیا کہ وہ افغانستان میں ایک موٹر میکینک کی دکان پہ کام کرتا ہے۔ ایک نظر میں وہ بچہ کالا نظر آتا تھا مگر تھوڑا سا غور کریں تو معاملہ واضح ہوتا تھا کہ دراصل میکینک کی دکان پہ کام کرنے کی وجہ سے اس گورے سے بچے کے منہ پہ کالک لگی ہوءی ہے۔ پاکستان کے بہت سے موٹر میکینکوں کے پاس بہت سے دس گیارہ سالہ لڑکے کام کرتے ہوں گے مگر رحم کے قابل ایک گوری رنگت کا لڑکا ہی سمجھا گیا۔ پیغام یہ تھا کہ اس معصوم گورے لڑکے کو دیکھیے، اس کے منہ پہ لگی کالک آپ کے گراں قدر عطیے کی طلبگار ہے؛ خواتین و حضرات، آپ کے چندے کا ہلکا سا چھینٹا اس لڑکے کے منہ پہ پڑے گا تو کالک اتر جاءے گی اور بالکل آپ کا جیسا صاف ستھرا، دھلا دھلایا، گورا لڑکا سامنے نکل کر آجاءے گا۔
فلاح میں نسل پرستی کا یہ پوشیدہ پیغام ہمیں بالکل قبول نہیں۔



تصویر بشکریہ
http://www.worldvisionreport.org


-------------------

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?