Thursday, November 17, 2016

 

غریب کے بچے








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو سات

 نومبر چھ، دو ہزار سولہ


غریب کے بچے


ترقی یافتہ ممالک کے باشندے بلاوجہ طعنے دیتے ہیں کہ ایک عرصے سے مغرب ہی ہر طرح کی نئی اختراع اور ایجاد کا مرکز ہے۔ ہم نے چینیوں کی ایک ایسی ایجاد دیکھی جس پہ ہم عش عش کر اٹھے۔ وہ اختراع بچوں کی پتلون میں تھی۔ ان پتلونوں میں پیچھے بیچ کی سلائی موجود نہ ہوتی تھی۔ بچہ سیدھا کھڑا ہو یا چلے پھرے تو آپ کو معلوم نہ ہوگا کہ پتلون پیچھے سے ان سلی ہے۔ مگر ادھر بچے نے فارغ ہونے کی خواہش ظاہر کی اور ادھر ماں نے اسے کچے میں بٹھا دیا۔ بیٹھنے پہ پتلون کے دو پھٹے حصے ادھر ادھر ہوگئے اور بچہ پتلون پہنے پہنے آرام سے فارغ ہوگیا۔

اسلام آباد جب نیا نیا آباد ہوا تھا تو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان سے کچھ فاصلے پہ ہے۔ ہمیں بے جنگ بھی اپنی ہئیت میں چین سے کچھ دور نظر آیا۔ مگر اسلام آباد کے مقابلے میں بے جنگ ایک تاریخی اور زندہ شہر ہے اور وہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بے جنگ میں ہفتہ بھر قیام کے دوران ہم ان تمام جگہوں پہ گئے جو سیاحوں میں مقبول تھیں اور جن سے چینی حکومت خوب رقم بنا رہی تھی۔ بے جنگ سے شمال میں دیوار چین جن مختلف مقامات پہ دیکھی جاسکتی ہے ان میں بدالنگ سب سے مقبول ہے۔ بدالنگ پہ سیاح اضافی رقم دے کر خودکار کھٹولے [کیبل کار] کی سواری سے اوپر دیوار تک پہنچ سکتے تھے۔ واپسی میں خودکار کھٹولے کے استعمال کے ساتھ ہی پھسل گنڈے [ٹوبوگان] کے ذریعے بھی نیچے آیا جاسکتا تھا۔ غرض کہ چین نے سیاحوں کی جیب ہلکی کرنے کی کوشش میں اس تاریخی مقام کو ایک امیوزمنٹ پارک بنا دیا تھا۔

اس وقت چین میں امریکی ریستورانوں کی آمد شروع ہوئی تھی اور بے جنگ میں میک ڈانلڈ اور کے ایف سی موجود تھے۔ ساتھ ہی فرانسیسیوں نے بھی اپنا بندوبست کرلیا تھا۔ بے جنگ کے وسط میں روح فرانس [ویدے فغانس] نامی بیکری موجود تھی جہاں کے تازہ بیگیٹ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ ہمیں اپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کا خیال آیا۔ ٹیم بیرونی دورے پہ جاتی ہے تو کچھ مقامی لوگ اسی طرح کھلاڑیوں کی قربت حاصل کرتے ہیں کہ وہ کھلاڑیوں کو حلال دیسی کھانے لا کر دیتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ اکثر لوگ سیاحت میں دوسرے حواس خمسہ پہ جوا کھیلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں مگر چکھنے کی حس کے استعمال میں قدامت پسند واقع ہوتے ہیں۔
یہ دنیا بہت ظالم جگہ ہے۔ آپ کی قسمت کا بیشتر تعین آپ کی جائے پیدائش سے ہوجاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پیدا ہونے والے لوگ صرف اپنے ملک میں ہی دھکے نہیں کھاتے بلکہ اگر ملک سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجائیں تو بیرون ملک بھی غریب کے ان بچوں سے ان کی جائے پیدائش کی مناسبت سے سلوک کیا جاتا ہے۔ پاک چین دوستی زندہ باد کی وجہ سے ہمیں جو ویزا ملا تھا اس کی مدت میں اضافہ ہم نے پہلی بار تلفان میں کرایا تھا مگر اب بے جنگ پہنچتے پہنچتے وہ مدت بھی ختم ہورہی تھی۔
بے جنگ میں امیگریشن کے دفتر میں بہت رش تھا۔ وہاں مغربی سیاحوں کی بھرمار تھی اور ان کے ویزوں کی مدت مسکرا مسکرا کر بڑھائی جارہی تھی۔ ہم نے اپنا پاسپورٹ افسر کو تھمایا تو یوں لگا کہ پاسپورٹ ہاتھ میں لیتے ہی اس کو بجلی کا زوردار جھٹکا لگا ہو۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستانیوں کے لیے ویزے میں توسیع صرف ایک باری کی جاتی ہے اور ہم وہ سہولت پہلے ہی استعمال کرچکے تھے۔ یہ بہت بری خبر تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ہر حالت میں اگلے روز چین چھوڑ دینا تھا۔
ہم افسران سے بحث کرتے رہے کہ ہمارے لیے ایک دن بعد چین چھوڑنا ناممکن تھا کیونکہ ہم فضائی سفر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بے جنگ، چین کے پڑوسی ممالک سے اتنا دور تھا کہ ہم ایک دن میں ایسی کسی سرحد تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ مگر ہماری بحث بے سود نظر آتی تھی۔ وہ  افسران ہماری کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ ہمیں اپنے گلے میں گھٹتا محسوس ہوا۔
ہم نے ایک دفعہ پھر منت سماجت شروع کی۔ جو افسر آگے بڑھ کر سب سے اچھی انگریزی بول رہا تھا اس سے التجا کی کہ وہ کوئی راستہ نکالے اور ویزے کی مدت میں صرف ایک دفعہ دس مزید دن کی توسیع کردے۔ اس موقع پہ وہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتیں کرنے کے دوران وہ کچھ کچھ دیر بعد ہماری طرف بھی دیکھ لیتے تھے۔ شاید ان کو ہمارے اوپر کچھ رحم آگیا تھا۔ آپس میں صلح کے بعد اچھی انگریزی بولنے والے افسر نے ہمیں ایک  دوسرے دفتر کا پتہ بتایا اور ہم سے کہا کہ ہم وہاں جا کر اپنی قسمت آزمائیں۔
ہمیں جس دفتر کا پتہ بتایا گیا تھا وہ تاریخی شہر ممنوعہ [فوربڈن سٹی] کے دوسری طرف واقع تھا۔ ہم جس قدر جلد ممکن تھا وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ دفتر بند ہورہا تھا۔ ہمیں وہاں ایک شفیق بوڑھا ملا۔ وہ عمر رسیدہ آدمی اس دفتر میں مترجم کے فرائض انجام دیتا تھا۔ مائو کے انقلاب سے پہلے جب چین میں خاص اسکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی تو اس نے بھی چینی میڈیم کی جگہ انگریزی میڈیم اسکول سے پڑھا تھا۔ وہ ہکلا کر بولتا تھا۔ اس کی قمیض پتلون سے باہر نکلی ہوئی تھی اور وہ اپنی آنکھوں کے گرتے حلقوں پہ لگی عینک کے پیچھے سے ہمیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس شخص نے ہماری مدد کی۔ فیس کی ایک خطیر رقم اس دفتر میں دینے پہ ہمارے ویزے میں اکیس روز کی توسیع کردی گئی۔ مگر یہ ویزے میں آخری ممکن توسیع تھی۔ ہمیں ہر حال میں اکیس روز کے اندر چین چھوڑنا تھا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خود اس وقت تک چین سے بیزار آچکے تھے۔ لائوس اور چین کی باہمی سرحد کچھ عرصے پہلے کھلی تھی۔ ہم نے بے جنگ سے لائوس کا ویزا حاصل کیا اور اور اس سرحد کی طرف جنوب کے رخ چل دیے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?