Wednesday, November 30, 2016

 

گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں











ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو نو

 نومبر ستائیس، دو ہزار سولہ


گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں
 

شیاں سے چنگدو جانے کے لیے ہمیں رات کی ٹرین ملی تھی۔ مگر ہوٹل والوں نے اپنے چیک آئوٹ وقت کے مطابق ہم سے کمرہ خالی کرالیا۔ رات تک کیا کریں؟ تھوڑی دیر ادھر ادھر مٹر گشت کرنے کے بعد واپس ہوٹل والے علاقے میں آگئے۔ وہاں سامنے ریستوراں میں بیک پیکر سیاحوں کا ہجوم تھا۔ ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ ہماری نظر اس کتاب پہ پڑی جس میں ریستوراں آنے والے گاہکوں نے اپنے تاثرات تحریر کیے تھے۔ اس کتاب میں سب سے زیادہ تاثرات انگریزی زبان میں تھے۔ المانوی غالبا دوسری پسندیدہ ترین زبان تھی۔ عبرانی بھی پیچھے نہ تھی۔ ایک تبصرہ فارسی میں بھی نظر آیا مگر کئی سال پہلے شروع ہونے والی اس کتاب میں اردو میں کوئی تحریر موجود نہ تھی۔ بس اسی وقت ہمیں ٹرین کی روانگی سے پہلے وقت کاٹنے کا طریقہ سمجھ میں آ گیا۔ ہم نے اس کتاب میں چین میں اپنے سفر کی روداد لکھ دی اور اردو بولنے والے سیاحوں کو چین میں رقم بچانے کے طریقے بھی بتا دیے۔ نہ جانے وہ تحریر کبھی کسی نے پڑھی یا نہیں۔ [اگر آپ کا چنگدو جانا ہو اور تاثرات کی وہ کتاب آپ کو ملے تو آپ اس اردو تحریر کی تصویر کھینچ کر ہمیں ضرور بھیج دیجیے گا کیونکہ ہمارے پاس اس لکھائی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔]
اب رات ہوچلی تھی۔ ہم عوامی بس سے ٹرین اسٹیشن جانا چاہتے تھے مگر اتنی رات گئے بس چلنا بند ہوگئی تھی۔ ہم نے ایک مختصر رکشہ کروایا جو سڑک پہ دوڑتے بڑے بڑے ٹرکوں سے معجزانہ طور پہ بچتا ہوا اسٹیشن پہنچ گیا۔
ٹرین پوری رات چلنے کے بعد اگلے دن دوپہر میں چنگدو پہنچی۔ ہمارے ساتھ اور سیاح بھی تھے مگر ٹرین میں ان سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ ان سیاحوں میں ایک سیاہ فام امریکی نوجوان بھی تھا جس کے ساتھ ایک چینی لڑکی تھی۔ کیا وہ چینی لڑکی اس شخص کو امریکہ میں ملی تھی؟ اس چینی لڑکی کے ساتھ ایک سیاہ فام شخص کو دیکھ کر چینی لوگ اس جوڑے سے کس قسم کا رویہ رکھتے تھے؟ کیا ان واقعات پہ مسی سپی مصالحہ جیسی کوئی فلم بنائی جاسکتی ہے؟ ہم  دیر تک اس موضوع پہ سوچتے رہے۔



ہمیں اندازہ تھا کہ ہم جس سفری کتاب کی مدد سے کسی نئے شہر میں مناسب ہوٹل تلاش کررہے تھے، وہی سفری کتاب دوسرے سیاح بھی استعمال کررہے تھے۔ اس لیے چنگدو کے ٹرین اسٹیشن سے نکلنے پہ ہم سیاحوں پہ نظر رکھنا چاہتے تھے کہ وہ کونسی بس میں سوار ہوتے ہیں مگر وہاں اتنا رش تھا کہ رنگ برنگ بالوں والے سیاح ذرا سی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ہمارے سامنے صرف چینی عوام کا ایک ہجوم رہ گیا۔ ہم نے اپنی سفری کتاب سے استفادہ کیا اور اندازے سے ایک بس میں سوار ہوگئے۔ بہت آگے جا کر اندازہ ہوا کہ ہم غلط بس میں سوار ہوئے تھے۔ ڈرائیور نے ایک جگہ ہمیں اتار کر چینی میں اچھی طرح سمجھایا کہ ہم کس طرح صحیح راستے پہ جائیں مگر اس کی بات ہمارے ذرا پلے نہ پڑی۔ ہم بس سے اتر کر کافی دیر تک پیدل چلتے رہے۔ پھر ہر دفعہ کی طرح ایک فرشتے کے ذریعے ہماری راہ نمائی کا انتظام کیا گیا۔ ہمیں ایک مہربان شخص مل گیا۔ اس نے ہماری سفری کتاب میں ہوٹل کا نام دیکھا جو انگریزی کے علاوہ چینی زبان میں بھی تحریر تھا۔ اس نے نقشے پہ ہمیں بتایا کہ ہم اس وقت کہاں تھے اور کس طرح اپنے ہوٹل جا سکتے تھے۔ اور پھر وہی سوال کہ تمھارا تعلق کس ملک سے ہے۔ اس نے جب پاکستان کا نام سنا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے واضح تھا کہ وہ ہم پہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔ اس نے کئی بار چینی لہجے میں پاکستان پاکستان کہا، جیسے وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو اور پھر اس نے اچانک گانا گانا شروع کردیا۔
آوارہ ہوں۔ آوارہ ہوں۔ یا گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں۔ آوارہ ہوں۔
ہم اس کا دل نہیں توڑنا چاہتے تھے اس لیے مسکرا کر کہہ دیا کہ ہاں وہی والا پاکستان۔
ہم شیاں سے چنگدو جاتے ہوئے شنلنگ پہاڑوں کے پاس سے گزرے تھے۔ یہ علاقہ پانڈا ریچھ کا آبائی وطن ہے اور تیزی سے نایاب ہونے والی ریچھوں کی اس منفرد نسل کے بچے کھچے جانور بانس کے اسی جنگل میں رہتے ہیں۔  چنگدو کا چڑیا گھر وہاں موجود پانڈا ریچھوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ چنگدو میں چڑیا گھر کی طرف جاتے ہوئے اچانک ٹریفک جام ہوگیا۔ ہم نے کافی دیر انتظار کیا مگر اس درمیان ہماری بس چند فٹ ہی آگے بڑھ پائی۔ ہم بس سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے چڑیا گھر پہنچے۔
چڑیا گھر سے واپسی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہم بس سے اترے تو دیکھا کہ ایک آدمی ایک بوڑھیا کے پیچھے دبے قدموں چلتا ہوا بوڑھیا کے پرس کو چاقو سے کاٹ رہا ہے۔ پہلے ہمیں خیال ہوا کہ وہ شخص اس بوڑھی عورت کا رشتہ دار ہےاور بوڑھیا کے ساتھ شرارت کررہا ہے مگر جب وہ شخص بوڑھیا کے پرس سے ایک چرمئی بٹوا نکالنے میں کامیاب ہوگیا اور بٹوہ لینے کے بعد پلٹ گیا تو ہم ٹھٹکے۔ ہمارے ساتھ چلنے والے دوسرے لوگوں نے بھی یہ واقعہ دیکھا تھا۔ ہم نے ان کی طرف ٹٹولتی نظروں سے دیکھا کہ شاید ان میں سے کوئی آگے بڑھ کر بوڑھیا کو گرہ کٹ کی اس واردات کے بارے میں بتائے۔ مگر جب ہم نے دیکھا کہ کوئی اس اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو ہم نے آگے بڑھ کر بوڑھیا کا بازو تھپتھپایا۔ اس عورت نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے اسے اشاروں کی مدد سے سمجھایا کہ ایک شخص جس کے منہ میں سگریٹ دبی ہوئی تھی ابھی اس کا بٹوہ چرا کر پلٹا ہے۔ بوڑھیا نے اپنے کٹے ہوئے پرس کو دیکھا تو اسے ہماری بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔ وہ گھبرا کر پیچھے مڑی اور اس نے ایک دوسری عورت سے تیزتیز کچھ کہنا شروع کیا۔ اس وقت تک اس بوڑھیا اور چور کے درمیان فاصلہ اور بڑھ چکا تھا۔ وہ عورت شاید یہ فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ اس آدمی کو کیسے للکارے۔ اگر کمزور پہ کسی طاقتور کا سایہ نہ ہو تو کمزور اپنے ساتھ زیادتی ہونے پہ بھی اپنی کمزوری کی وجہ سے آواز نہیں بلند کرپاتا ہے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?