Wednesday, February 15, 2017
برما کے اوپر سے جست
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار تین سو اٹھارہ
فروری گیارہ، دو ہزار سترہ
برما کے اوپر سے جست
بینکاک میں فقیر سیاح بنگلامپھو
نامی علاقے میں ٹھہرتے ہیں۔ ہم بھی وہیں ایک کاغذی دیواروں والے ہوٹل میں ٹھہرے۔
اسی ہوٹل میں ہمیں ایک افریقی نژاد امریکی ملا تھا۔ اس کی عمر چالیس کے لگ بھگ رہی
ہوگی۔ آپ کو سفر میں اس قسم کے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں۔ ملکوں ملکوں کی سیر کرتے
امریکی سیاحوں کی اکثریت یورپی نژاد امریکیوں کی ہوتی ہے۔
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، اس
میں یورپی نژاد لوگ تعداد میں کم ہونے کے باوجود دنیا پہ چھائے ہوئے ہیں۔ طبیعات
یا کیمیا یا ریاضی یا کسی اور سائنسی علم کی کتاب کھول لیجیے آپ کو سائنسی
کارنامے دکھانے والے قریبا تمام لوگ یورپی نژاد نظر آئیں گے۔ کیا یورپی نژاد
لوگوں کے علاوہ باقی دنیا جھک مار رہی ہے؟
یورپی نژاد لوگوں کی دنیا پہ
چودھراہٹ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ سفر کے دوران آپ کو زیادہ تر سیاح سفید فام،
سنہری بالوں، نیلی آنکھوں والے ملیں گے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ یورپی اور یورپی نژاد
اکثریت والے ممالک خوشحال بھی ہیں اور یورپی نوآبادیاتی نظام کے تجربے کے بعد ان
ممالک کے شہریوں کو دوسرے ممالک کے ویزے حاصل کرنے میں آسانی بھی ہے۔
مغرب میں یہ رواج ہوچلا ہے کہ نسل کے متعلق بات
کرنا برا خیال کیا جاتا ہے اور خاص طور پہ اگر کوئی سفید فام شخص مختلف نسلوں کے
درمیان جسمانی فرق کو بیان کرے تو اس شخص کو فورا نسل پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا
ہے۔ حالانکہ سچ پوچھیے تو کسی نہ کسی قسم کی نسل پرستی تو پوری دنیا میں پھیلی
ہوئی ہے۔ ہمارے وطن میں بھی لوگ چاند سی دلہن چاہتے ہیں۔
کوئی بھی باشعور شخص باآسانی دیکھ سکتا ہے کہ
موجودہ دنیا میں ذات پات کا ایک واضح نظام قائم ہے جس میں سفید فام لوگ سب سے اوپر
ہیں اور سیاہ فام لوگ سب سے نیچے۔ درمیان میں موجود لوگ اپنی اپنی کھال کے رنگ کے
حساب سے ہیں۔ اور اسی لیے اس نسلی تفریق سے وضع شدہ دنیا کے متعلق مختلف نسلوں سے
تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے معلوم کرنا اچھا تجربہ ہوتا ہے۔
اس افریقی نژاد امریکی سے میری
بہت ساری باتیں ہوئیں۔ اس کی باتوں سے مجھے خیال ہوا کہ وہ اپنے لیے اور اپنے رنگ
کے لوگوں کے لیے فخر کی تلاش میں تھا۔ شاید اسے اس اطمینان کی تلاش تھی جو دنیا کے
ہرشخص کو ہونا چاہیے کہ وہ جیسا بھی ہے بہت خوب ہے،اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ
کسی سے کم نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن سے جو چاہے حاصل کرسکتا ہے۔ شاید یہ فخر افریقی
امریکی لوگوں سے غلامی کے تجربے میں چھن گیا ہے۔ بینکاک میں ملنے والے اس افریقی
نژاد امریکی نے اپنے ذہن میں لوگوں کی جو درجہ بندی کی تھی اس کے حساب سے سفید فام
لوگ ایک بالکل الگ گروہ تھے جب کہ وہ، میں، اور دوسرے گہرے رنگ والے لوگ ایک اور
گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ دماغ میں پینیال نامی غدود انسان کی
تخلیقی صلاحیتوں کا مرکز ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ جلد کے رنگ کا اس غدود کی
فعالیت سے تعلق ہے۔ اپنی اس بات سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سفید فام لوگوں
کے مقابلے میں گہرے رنگ والے لوگ زیادہ تخلیقی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
’’دیکھو، افریقی امریکی لوگوں
کو صرف گانے بجانے اور کھیل کود کے میدانوں میں جگہ دی گئی ہے۔ اور وہاں ان لوگوں
نے کیا دھوم مچائی ہے۔ اگر انہیں دوسرے شعبوں میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو یہ
کیا انقلاب برپا کردیں؟‘‘
میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا
رہا، بغیر یہ سوال کیے کہ آخر افریقی امریکیوں کا راستہ کون روک رہا ہے۔ انہیں
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں جانے سے کون منع کررہا ہے۔ وہ بولتا رہا۔
’’سفید فام لوگوں کا دنیا پہ
قبضہ ہے اور ہم ان کی ہر بات کو سچ مان لیتے ہیں۔ ہم سےجھوٹ بولا جاتا ہے کہ دنیا
کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ دنیا تو خالی پڑی یے۔ یہ میرا براہ
راست مشاہدہ ہے۔ ہوائی جہاز سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جائو تو شہروں کے درمیان
بالکل خالی جگہیں نظر آتی ہیں۔‘‘
میں دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ
یہ شخص کیسے گھمنڈ کا شکار تھا کہ ہرروز لاکھوں لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں
مگر صرف اس شخص کو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ شہروں کے درمیان موجود خالی جگہوں
کو انسان کی رہائش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیا اس شخص نے کبھی سوچا کہ
انسانی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت بڑا رقبہ زرعی اراضی کا
چاہیے۔ اور زراعت کے لیے پانی چاہیے؟ کیا دنیا میں زراعت کے قابل بڑے بڑے قطعات
خالی پڑے ہیں؟
بینکاک میں ہمارا قیام یوں طویل
ہوگیا کہ ہمارے لیے آگے زمینی راستہ مسدود تھا۔ ہمارے پاس برما کا ویزا تھا مگر
سیاح زمینی راستے سے تھائی لینڈ سے برما نہیں جا سکتے تھے۔ اور اگر اڑ کر برما
پہنچ بھی جائیں تو آگے بھارت کا ویزا نہ تھا۔ ہم یورپی نوآبادیاتی تجربے کی
میراثی باقیات میں زندہ تھے کہ موجودہ ممالک اور ان کی سراحد کم و بیش اسی تجربے
کی بنیاد پہ وجود میں آئی ہیں۔ اور ہمارا بھرپور خیال ہے کہ یہ سلسلہ بہت آگے تک
نہیں چلے گا۔ کئی سو سال کے بعد، دنیا کی تاریخ میں سنہ اٹھارہ سو چالیس سے سنہ
اکیس سو تک کا عرصہ ممالک اور سراحد کی جکڑ بند کا دیکھا جائے گا۔ قریبا اٹھارہ سو
چالیس سے پہلے بھی آزادی اور سنہ اکیس سو کے بعد بھی آزادی۔ جس کا دل چاہے جہاں
چاہے اور نئی جگہ جا کر بس جائے۔ مگر کیا کیجیے کہ ہماری پوری زندگی اسی جکڑبند
والی دنیا میں گزرے گی۔ بینکاک کے راما نہم پارک میں ادھر سے ادھر مٹرگشت کے دوران ہم نے آگے کے سفر کا فیصلہ
کیا۔ طے یہ پایا کہ برما کو پھلانگ
کر بنگلہ دیش پہنچیں اور پھر وہاں سے واپس کراچی لوٹ جائیں۔
Labels: Bangkok, Cheen mein Chalees Din, China travelogue, Karachi to Bangkok via China