Monday, August 23, 2010
غازی علم دین نہ شہید تھا نہ غازی
ایک بظاہر پڑھے لکھے شخص نے مجھے غازی علم دین نامی شخص کے بارے میں بہت فخر سے بتایا تھا۔ واقعہ کچھ اس اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ غازی علم دین نامی ایک شخص کو خبر ملتی ہے کہ کسی غیر مسلم نے ایک تحریر میں ہمارے پیارے نبی کی تذلیل کرنے کی کوشش ہے۔ علم دین جو بظاہر نبی کا عاشق ہے، طیش میں اٹھتا ہے اور مبینہ گستاخ رسول کو جان سے مار دیتا ہے۔ انگریز کی حکومت ہے۔ غازی علم دین گرفتار ہوتا ہے، اس پہ قتل کا مقدمہ چلتا ہے، اور اسے پھانسی کی سزا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں غازی علم دین نامی یہ شخص بہت عظیم ہے اور شہادت کے عہدے پہ فاءز ہے کیونکہ اس نے بظاہر ناموس رسول کے لیے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ دراصل غازی علم دین اسلام کا نادان دوست ہے،اس شخص کا جذبات کی رو میں بہہ کر کسی آدمی کو مار دینے کا عمل انسانیت کے نام پہ عموما اور مسلمانوں کے نام پہ بالخصوص ایک سیاہ دھبا ہے۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوءے میں نے ' ہمارے پیارے نبی کی تذلیل کرنے کی کوشش' کا کلمہ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ ہمارے نبی اور عموما انبیا کا تو خیر الگ مقام ہے، اور بڑے لوگ بھی اپنی عزت یا تذلیل کے لیے دوسروں کی تحریر کے محتاج نہیں ہوتے۔ لوگ اپنے کاموں سے اپنا اونچا یا نیچا مقام بناتے ہیں، کسی کی اپنے بارے میں تحریر یا تقریر سے نہیں۔ یہ بات تو ہمیں قرآن بھی بتاتا ہے کہ عزت یا ذلت دینے والی ہستی تو صرف اللہ کی ہے۔
غازی علم دین نامی اس گمراہ شخص نے کس عظیم ہستی کی ناموس کی حفاظت کی؟ وہ عظیم آدمی کہ دشمن اس کا مذاق اڑاتے ہوں، اس پہ پھبتیاں کستے ہوں، اور وہ ان لوگوں کی بات کا ذرا برا نہ مناءے اور ان کے لیے دعا کرتا ہوا آگے بڑھ جاءے۔ وہ شخص کہ جس پہ مہینوں کسی گھر سے کچرا پھینکا جاتا ہو اور ایک دن اس عمل میں خلل آجاءے تو وہ مذکورہ گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر روز کچرا پھینکنے والی عورت کی خیریت معلوم کرے۔ اس عظیم شخص کی ناموس کا محافظ علم دین نامی یہ کمتر انسان ہو سکتا ہے؟ ذرا سوچیے کہ اگر علم دین کو ہمارے پیارے نبی کے سامنے پیش کیا جاتا تو ہمارے نبی اس بے وقوف شخص سے کیا کہتے۔ وہ یقینا کچھ پیار سے اور کچھ غصے سے اس جاہل آدمی کو سمجھاتے کہ ایک عظیم پیغام اور اس کے پیمبر کی ناموس کی حفاظت کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس پیغام کے ماننے والے لوگ ہوش مند ہوں اور بہترین شہری بن کر دکھاءیں۔ وہ جذبات میں آکر خود انتظامیہ، خود عدالت، اور خود جلاد نہ بن جاءیں۔
مگر کیا کیجیے کہ آج ہمارے دین کا علم اس علم دین جیسے دوسرے بے وقوفوں کے ہاتھوں ہی میں نظر آتا ہے۔ وہ لوگ جو ناموس رسالت کے چیمپءین بن کر سڑکوں پہ نکلتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی املاک کو آگ لگا دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہم پہ ہونے والے تمسخر کا سبب ہیں۔ جن کی وجہ سے ہماری ہنسی اڑاءی جاتی ہے اور اسلام کی ایک مسخ شکل دنیا کے سامنے پیش ہوتی ہے۔
پاکستان میں غازی علم دین کے 'کارنامے' اور اس جیسے دوسرے احمقانہ واقعات کو فخر سے بیان کیا جاتا ہے۔ بہت سی وجوہات میں شاید ایک وجہ یہ بھی ہے جس سے معاشرے میں تحمل اور رواداری ختم ہو رہی ہے۔ لوگ فوری انصاف کی خواہش رکھتے ہیں چاہے اس عمل میں کسی بے گناہ کی جان ہی کیوں نہ چلی جاءے۔ چند روز قبل سیالکوٹ میں دو بھاءیوں کا قتل بھی ایسا ہی واقعہ ہے۔ یہ جنگل کے قانون کا ایک نمونہ ہے۔ بس ایک ٹولہ ہے جو جذبات میں بہہ رہا ہے۔ جس پہ جو چاہے الزام لگاءے اور فوری طور پہ ڈنڈوں سے سزا دے۔
میں نے گزری جولاءی کا بڑا حصہ کراچی میں گزارا۔ وہاں اپنے ایک پرانے شاگرد سے ملاقات ہوءی۔ اس نوجوان نے کسی قدر فخر سے کچھ عرصہ پہلے کا وہ واقعہ سنایا جب کسی محلے کے لوگوں نے مبینہ ڈاکوءوں کو پکڑ کر ان کے کپڑوں میں آگ لگا دی تھی۔ یہ لوگ جھلس کر مر گءے۔ میں نے اس واقعے پہ افسوس کا اظہار کیا تو اس نوجوان کو حیرت ہوءی۔ اس کا کہنا تھا کہ لوگ موجودہ عدالتی نظام سے مایوس ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جراءم پیشہ لوگ پکڑے جاتے ہیں مگر پھر کچھ ہی عرصے میں رہا ہو جاتے ہیں۔ اس ناانصافی کو دیکھتے ہوءے لوگ خود اپنے ہاتھوں جراءم پیشہ افراد کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ میں نے سمجھایا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جس شخص کو مجرم کہا جارہا ہے اس نے واقعی جرم کیا ہے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس شخص کی شناخت میں کچھ لوگ غلطی پہ ہوں، یا پھر ان لوگوں کی اس شخص سے دشمنی ہو اور وہ اس پہ الزام لگا کر اپنا ذاتی عناد نکال رہے ہوں۔
پاکستان میں اسلام کا چیمپءن بننا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ وہاں ایسے بھی واقعات سننے میں آءے ہیں کہ ایک شخص نے کسی غیر مسلم کی جاءداد پہ قبضہ کرنے کے لیے اس پہ الزام لگایا کہ اس غیر مسلم نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔ ملزم داخل حوالات ہوا اور اس شخص نے اطمینان سے بے گناہ کی جاءداد پہ قبضہ کر لیا۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں پولیس اور عدلیہ کا نظام ایک ٹولے کے ہاتھوں میں نہیں سونپا جا سکتا۔ انصاف یہ ہے کہ ایک عدالت بیٹھے جس میں ہر فریق کی بات تحمل سے سنی جاءے اور پوری عدالتی کارواءی ہونے پہ سوچ سمجھ کر مقدمے کا فیصلہ دیا جاءے۔ اس تحریر کو پڑھنے والا وہ کونسا شخص ہے جو واقعی ایسے معاشرے میں رہنا چاہتا ہو جہاں جنگل کا قانون راءج ہو، جہاں 'فراہمی انصاف' ماوراءے عدالت ہو؟ جہاں کسی روز کہیں آتے جاتے اچانک چند لوگ اسے پکڑ لیں اور چلا کر دوسروں کو بتاءیں کہ انہوں نے اسے چوری کرتے دیکھا ہے، اور پھر ذرا سی دیر میں وہاں ایک مجمع جمع ہو جاءے، جو اسے مارنا پیٹنا شروع کر دے؟
سیالکوٹ کے واقعے کے مجرم صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو ان دو بھاءیوں پہ ڈنڈے برسا رہے تھے۔ وہ تمام لوگ جو مجمع میں شا٘مل تھے اور جن کے خاموش تماشاءی بننے کے عمل سے تشدد کرنے والوں کو شہ مل رہی تھی قابل سزا ہیں۔
تصویر بشکریہ
http://www.msnbc.msn.com