Monday, August 23, 2010

 

پانی کی قلت اور پھر پانی کا عذاب






خاموشی سے میرے ساتھ آءیے۔ اس شخص کو دیکھیے۔ یہ کتنا پریشان، کتنا افسردہ بیٹھا ہے۔ یہ ہر وقت اپنے مالی مساءل کا رونا روتا ہے۔ مستقل شکایت کرتا ہے کہ اس کی آمدنی اس کے اخراجات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اور تنگ دستی کی اس کیفیت میں یہ شخص دنیا کے بہت سے دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہے۔ مگر ایک اور معاملہ ہے جس کی وجہ سے یہ شخص مالی کسمپرسی کی کیفیت میں اپنے جیسے مفلسوں سے بالکل الگ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ نادار پانچ سال مستقل اپنی غربت کا رونا روتا ہے اور پھر ہر پانچ سال میں ایک دفعہ اس کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ لاٹری کے مالی انعام سے یہ شخص اچانک بہت امیر ہو جاتا ہے۔ مگر پھر یہ شخص انعام کی رقم کو اللے تلے ذرا سی دیر میں اڑا دیتا ہے۔ بلکہ جتنا عرصہ دولت اس کے پاس رہتی ہے یہ شخص پریشان ہی رہتا ہے کہ آخر اس کو یہ مال و دھن یوں چھپر پھاڑ کر کیوں مل گیا۔ اور یوں دولت کی کمی بھی اس کے لیے عذاب ہے اور دولت کا مل جانا بھی۔
اس شخص سے ملاقات کرنے اور اس کے حالات جاننے کے بعد آپ اچھی طرح سمجھ گءے ہوں گے کہ میں اس شخص کی کہانی کن موجودہ حالات سے مماثل دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پاکستان میں مختلف صوبے اور ان صوبوں میں رہنے والے تمام لوگ پانی کے مسءلے پہ مستقل ایک دوسرے سے دست و پا رہتے ہیں اور پھر جب زوردار بارش ہوتی ہے تو یہی پانی پورے ملک کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
دبءی سے العین کے بس چلی تو دبءی کی آبادی کو پیچھے چھوڑنے کے کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ بیاباں میں آگءے۔ اب ایک پتلی سی سڑک پہ ہماری یہ بس رواں دواں تھی اور سڑک کے دونوں طرف حد نظر صحرا کی تپتی ریت تھی۔ مجھے یہ سوچ کر ہول آرہا تھا کہ اگر بس کا اءیرکنڈیشننگ سسٹم خراب ہوگیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ جون کے اس گرم دن ہم چلچلاتی دھوپ کے نیچے ذرا سی دیر میں بھن جاءیں گے۔ جزیرہ نما عرب کا جغرافیہ جنوبی ایشیا کے جغرافیے سے اسی وجہ مختلف ہے۔ جنوبی ایشیا کے شمال میں اونچے اونچے پہاڑی سلسلے ہیں چنانچہ جب گرمیوں میں میدانی علاقے گرم ہوتے ہیں تو ان سے جڑی ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے؛ پھر اس خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے سمندر کے اوپر موجود مرطوب ہوا اس طرف بڑھتی ہے۔ یہ مرطوب ہوا پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتی ہے اور ٹھنڈی ہونے پہ کہیں برف اور کہیں بارش بن کر برستی ہے۔ جزیرہ نما عرب کے پاس کوءی اونچے اونچے پہاڑ نہیں ہیں۔ وہاں بھی گرمیوں میں صحرا کی گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور سمندر سے آنے والی مرطوب ہوا کو جگہ دیتی ہے۔ مگر پھر اونچے پہاڑوں کی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مرطوب ہوا رک کر برستی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو پسینہ پسینہ کر آگے نکل جاتی ہے۔ جغرافیے اور موسمی حالات کے اسی فرق کی وجہ سے تاریخی طور پہ جنوبی ایشیا ایک زرخیز اور نتیجتا امیر علاقہ رہا اور جزیرہ نما عرب ایک بنجر اور بدحال علاقہ۔ زرخیزی اور امارت کی وجہ ہی سے نوآبادیاتی نظام کا عذاب جنوبی ایشیا پہ جس زور سے ٹوٹا اس زور سے جزیرہ نما عرب پہ نہیں ٹوٹا۔ مگر پھر پچھلی صدی کے وسط میں تیل کے کنووں کی دریافت سے جزیرہ نما عرب کے دن پھر گءے۔ اب وہ امیر ہیں اور ہم مفلس۔ کسی زمانے میں وہ ہمارے پیسوں پہ پلتے تھے اب ہم دبءی کا ویزا حاصل کرنے کے لیے اور جزیرہ نما عرب میں کام کرنے کے لیے ہاتھ جوڑتے پھرتے ہیں۔ بھارت میں بالخصوص اور جنوبی ایشیا میں بالعموم جس قسم کا آزاد جمہوری نظام ہے، ایسا سیاسی نظام جزیرہ نما عرب میں موجود نہیں ہے۔ مگر کم حیثیت سیاسی نظام ہونے کے باوجود پیسے کی ریل پیل بات بناءے ہوءے ہے۔ سلطان کا کہنا ہے کہ مجھ سے اوپر صرف خدا ہے چنانچہ میں خدا کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں، جو چاہے کروں، مگر میری رعیت میں جو لوگ ہیں وہ قوانین کی بھرپور پاسداری کریں گے اور بلا چوں چراں میرے راءج کیے نظام کو مانیں گے۔ تو وہ نظام چل رہا۔ بلکہ اس ٹھسے سے چل رہا ہے کہ آزاد جمہوری نظام کے زیرسایہ رہنے والے کروڑوں لوگ سلطان کے اس نظام کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔ کیا یہاں سیاسی نظام ہا کو پڑھنے والے طلبا کے لیے کوءی سبق ہے؟ جی ہاں۔ سبق واضح ہے۔ اظہر من الشمس سبق یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو اس بات سے کوءی سروکار نہیں ہوتا کہ کسی جگہ کا سیاسی نظام کیا ہے۔ اس کو تو صرف اس بات سے مطلب ہے کہ کیا اس کی جان بچ جاءے گی، کیا اس کے اطراف نظام مخصوص قوانین کے تابع ہوگا، اور کیا اس کے محنت کرنے سے اسے پیٹ بھر کر کھانا مل جاءے گا؟

تصویر بشکریہ
http://www.dailymail.co.uk/


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?