Saturday, October 28, 2006
بلاگ کی دنیا، حاکمیت جمہور کی دنیا
میں سمجھتا ہوں کھ جہاں صاحب رائے افراد بڑی تعداد میں ہوں وہاں ایک مطلق العنان شغص کا اقتدار پھ قبضھ کرنا اور گدی پھ جمے رہنا بہت مشکل ہوجاتا ھے۔ یہ ٹیکنالوجی کا احسان ہے کہ اس نے بلاگ کی شکل مین ادنی سے ادنی صاحب رائے کو اپنے خیالات دنیا تک پہچانے کی سہولت دی ہے۔ مطلق العنان حکمراں کے دل میں ایک چور ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جس طرح وہ چور دروازے سے کرسی پہ قابض ہوا ہے اسی طرح کوئی اور بھی اسی چوری سے اسے دھکا دے کر اس سے کرسی چھین سکتا ہے۔ اسی لیے ہر مطلق العنان حکراں کو آزادی رائے سے ڈر لگتا ہے، اسے صاحب رائے افراد سے ڈر لگتا ہے۔
مجھے عالمیت یعنی گلوبائلیزیشن کا تصور ذرا نہیں بھاتا۔ مجھے یہ خیال بالکل پسند نہیں کہ رنگا رنگ دنیا اپنے تمام تر رنگ کھو کر بالکل ایک جیسی ہو جائے۔ مگر عالمیت سے اس بغض کے باوجود مجھے بعض جدید خیالات کا دنیا میں چھاجانا دل پسند لگتا ہے۔ چنانچہ چند دن پہلے جب ایک عزیز نے عالمیت کی برائیوں میں جمہوریت کو بھی شامل کر دیا تو مجھے وہ بات کچھ معیوب لگی۔ میرے ان دوست کا کہنا تھا کہ "یہ کیا بات ہوئی کہ ایک دن یہ ساری دنیا ایسی ہو جائے کہ آپ جہاں جائیں وہاں آپ کو میکڈانلڈ اور پیڑزاہٹ نظر آئیں اور ہر جگہ جمہوری نظام حکومت ہو۔"
میں سمجھتا ہوں کی کسی بھی با شعور معاشرے میں جہاں صاحب رائے افراد بڑی تعداد میں موجود ہوں، جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام قابل عمل نہیں ہے۔ میں دوستوں سے مذاق میں کہتا ہوں کہ مجھے صرف ایک طرح کی بادشاہت قبول ہے اور یہ وہ بادشاہت جس میں مجھے بادشاہ مان لیا جائے۔ جمہوریت ایک فکری معاہدہ کا نام ہے ایک ایسی جگہ جہاں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہوں جن کا خیال ہو کہ وہ حکمرانی کے اہل ہیں۔
مجھے عالمیت یعنی گلوبائلیزیشن کا تصور ذرا نہیں بھاتا۔ مجھے یہ خیال بالکل پسند نہیں کہ رنگا رنگ دنیا اپنے تمام تر رنگ کھو کر بالکل ایک جیسی ہو جائے۔ مگر عالمیت سے اس بغض کے باوجود مجھے بعض جدید خیالات کا دنیا میں چھاجانا دل پسند لگتا ہے۔ چنانچہ چند دن پہلے جب ایک عزیز نے عالمیت کی برائیوں میں جمہوریت کو بھی شامل کر دیا تو مجھے وہ بات کچھ معیوب لگی۔ میرے ان دوست کا کہنا تھا کہ "یہ کیا بات ہوئی کہ ایک دن یہ ساری دنیا ایسی ہو جائے کہ آپ جہاں جائیں وہاں آپ کو میکڈانلڈ اور پیڑزاہٹ نظر آئیں اور ہر جگہ جمہوری نظام حکومت ہو۔"
میں سمجھتا ہوں کی کسی بھی با شعور معاشرے میں جہاں صاحب رائے افراد بڑی تعداد میں موجود ہوں، جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام قابل عمل نہیں ہے۔ میں دوستوں سے مذاق میں کہتا ہوں کہ مجھے صرف ایک طرح کی بادشاہت قبول ہے اور یہ وہ بادشاہت جس میں مجھے بادشاہ مان لیا جائے۔ جمہوریت ایک فکری معاہدہ کا نام ہے ایک ایسی جگہ جہاں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہوں جن کا خیال ہو کہ وہ حکمرانی کے اہل ہیں۔