Thursday, March 15, 2012

 

ضمنی انتخابات اور باءیکاٹ کی سیاست






مارچ گیارہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں اس قت ساری آنکھیں تحریک انصاف پہ لگی ہیں۔ عمران خان کے ہر قدم، ہر فعل کو غور سے دیکھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف میں حالیہ شمولیت کے لیے جن منتخب نماءندوں نے اپنی نشستوں سے استعفے دیے تھے ان نشستوں کے خالی ہونے پہ ضمنی انتخابات ہوءے۔ تحریک انصاف نے ان انتخابات کا باءیکاٹ کیا۔ دیکھنا یہ تھا کہ تحریک انصاف کے باءیکاٹ سے ان حلقوں میں انتخابات پہ کیا اثر ہوتا ہے۔ کیا تحریک انصاف واقعی وہ سونامی ہے جس کا یقین ہمیں عمران خان اپنی تقریروں میں کراتے رہے ہیں؟ دیکھنا یہ تھا کہ کیا تحریک انصاف واقعی اتنی مقبول جماعت بن چکی ہے کہ اس کے انتخابات کے باءیکاٹ کے اعلان سے زیادہ تر ووٹر ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں پہ بیٹھیں گے اور چناءو کے روز پولنگ اسٹیشن بھاءیں بھاءیں کریں گے۔ انتخابات ہوءے اور ہم سب نے ٹی وی کے ذریعے دیکھا کہ ان مقابلوں میں ووٹر جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوءے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں عوام کی زوردار شرکت سے تحریک انصاف کے مقبولیت کے دعووں کی قلعی کھل گءی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات کے باءیکاٹ کا اعلان کیا سوچ کر کیا تھا اور کیا یہ فیصلہ پارٹی کے اندر ایک جمہوری طور پہ لیا گیا تھا یا ایک فرد واحد نے اپنے طور پہ فیصلہ کر لیا کہ انتخابات کا باءیکاٹ کرنا چاہیے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، اس بارے میں میڈیا کے ذریعے ہمیں کسی ایسے اجلاس کی خبر نہیں ملی جس میں تحریک انصاف کے قاءدین اور رضاکار سر جوڑ کر بیٹھے ہوں اور کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا گیا ہو کہ ضمنی انتخابات کا باءیکاٹ پارٹی کے سیاسی مستقبل کے لیے بہترین فیصلہ ہے۔ اس کے برخلاف میڈیا میں ہر طرح کی افواہیں گرم ہیں کہ کس طرح اس فیصلے سے تحریک انصاف کے اندر دراڑیں پڑ گءی ہیں۔ تحریک انصاف کی ویب ساءٹ پہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ان جھوٹی افواہوں کی تردید کی گءی ہے۔ اب آءیے پہلے سوال کی طرف۔ کوءی سیاسی جماعت جو جمہوری اداروں پہ یقین رکھتی ہے اور عوام کے ووٹ کے اعتماد کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتی ہے، انتخابات جیسے بنیادی سیاسی عمل کا باءیکاٹ کیوں کرے گی؟ ایک خیال یہ ہے کہ عمران خان ملک گیر انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں جن میں ہر حلقے میں تحریک انصاف اپنا امیدوار کھڑا کرے اور پورے ملک میں ان کی پارٹی اچانک چھا جاءے۔ شاید عمران خان کو یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ ان کی پارٹی کے چند اراکین پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوں اور بے اثر ہوں۔ مگر ساتھ ہی کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے ان انتخابات کا باءیکاٹ اس لیے کیا کیونکہ ان کو یقین نہ تھا کہ ان حلقوں میں تحریک انصاف کامیاب ہوگی۔ اور اگر انتخابات میں حصہ لینے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار ان نشستوں پہ ہار جاتے تو ایسی ہار کا عوام پہ برا اثر پڑتا اور آنے والے ملک گیر انتخابات میں لوگ تحریک انصاف کی حمایت میں ڈانواں ڈول ہوتے۔
پچھلے کالم میں سان ہوزے میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس جلسے کے مہمان خصوصی جاوید ہاشمی تھے۔ جلسے کے بعد بھی جاوید ہاشمی کچھ عرصہ کیلی فورنیا میں مقیم رہے۔ ان سے ایک نجی محفل میں ملاقات ہوءی۔ اس محفل میں جاوید ہاشمی سے ایک بہت اچھا سوال کیا گیا۔ وہ سوال بے ایریا کے ممتاز ساءنسدان اور بیوپاری ریحان جلیل نے کیا تھا۔ ریحان جلیل نے جاوید ہاشمی سے پوچھا کہ تحریک انصاف نے کیا لاءحہ عمل تیار کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے فورا بعد کیا کرے گی۔ ساتھ ہی جاوید ہاشمی کو باور کرادیا گیا کہ پاکستان کے عوام مایوسی کی حالت میں ہیں اور اگر انہوں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیا تو ایسا اس لیے ہوگا کیونکہ لوگ عمران خان سے بہت سی امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے فورا بعد ایسے اقدامات نہ کیے جن سے عوام کو ایک واضح تبدیلی آتی نظر آءے تو عوامی حمایت ذرا سی دیر میں بھاپ بن کر اڑ جاءے گی۔ یہ صورتحال بہت خطرناک ہوگی اور لوگوں کو تحریک انصاف سے بددل ہونے میں ذرا وقت نہیں لگے گا۔ جاوید ہاشمی نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا مگر ان کے چہرے کے تاثرات سے واضح تھا کہ وہ سوال کرنے والے کی فکر سے بخوبی آگاہ ہو گءے ہیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عمران خان سے غیرمعمولی کارناموں کی امید رکھتے ہیں۔ جو لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہیں یا بے روزگار ہیں ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے آتے ہی ان کو روزگار مل جاءے گا۔ جو لوگ آج بھوکے سو رہے ہیں ان کا خیال ہے تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی ان کوروٹی ملنا شروع ہو جاءے گی۔ جن علاقوں میں دہشت کی حکمرانی ہے وہاں کے باسیوں کا خیال ہے عمران خان کے مسند اقتدار پہ بیٹھتے ہی امن و امان ہو جاءےگا۔ جو لوگ دس دس بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی بجلی کا مسءلہ حل ہو جاءے گا۔ جن گھروں میں پانی نہیں آ رہا وہاں کے مکینوں کا خیال ہے کہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کی بتدریج بڑھتی ہوءی نشستوں کے اعلان کے ساتھ ساتھ نل سے آنے والے پانی کی دھار موٹی سے موٹی ہوتی جاءے گی۔ غرض کہ تحریک انصاف کے لیے انتخابات جیتنے سے زیادہ عوام کی حد سے بڑھی ہوءی توقعات پہ پورا اترنا زیادہ بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?