Tuesday, March 13, 2012
معاشرے کا بندھن
فروری چھبیس، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
Vision 2047: from WBT TV on Vimeo.
انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ اس آزادی کے یہ معنی ہیں کہ ہر انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی خوشی سے جو کرنا چاہے کرے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ دوسرے شخص کی آزادی سلب کرے اور اس کو اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے پہ مجبور کرے۔ اور اسی لیے آزادی سے اپنا کام کرنے کے سلسلے میں جب کبھی کوءی مداخلت ہوتی ہے تو انسان کو برا لگتا ہے۔ مگر جب لوگ معاشرے کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں تو انہیں ایک ایسے سمجھوتے پہ متفق ہونا ہوتا ہے جس میں اس بات کی یقین دہانی کی جاتی ہے کہ ایک شخص کی خوشی دوسرے کا عذاب نہ بن جاءے، کہ ہر شخص کی آزادی کا برابر خیال رکھا جاءے۔
ایک شخص کی مثال لیجیے جس کی خوشی یہ ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے ایک لٹھ ہوا میں گھماتا رہے۔ یہ شخص جنگل میں اکیلا رہ کر اپنی خوشی سے جتنی دیر چاہے آنکھیں بند کر کے لٹھ گھماتا رہے مجھے آپ کو اس کے اس فعل پہ کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مگر یہی شخص میرے اور آپ کے درمیان آ کر رہنا چاہے تو ہمیں اس آدمی سے سمجھوتہ کرنا ہوگا کہ یہ شخص ہماری موجودگی میں آنکھیں بند کر کے لٹھ نہیں گھماءے گا۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے اس فعل سے دوسرے لوگوں کو جسمانی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ معاشرہ اس شخص کی آزادی میں اس لیے مخل ہو رہا ہے کہ اس ایک شخص کی آزادی اور خوشی دوسروں کا عذاب نہ بن جاءے۔
آپ جب کبھی لوگوں کے ساتھ رہیں، ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، ایک سمجھوتہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ سمجھوتہ اکثر و بیشتر کہا نہیں جاتا، لکھا نہیں جاتا، مگر سب کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سمجھوتے کے شراءط کیا ہیں۔ آپ اپنے دوستوں سے ملنے جاتے ہیں تو کسی نے آپ سے لکھوایا نہیں ہے مگر یہ بات طے ہے کہ وہاں آپ اچانک اٹھ کر برابر بیٹھے شخص کو مارنا نہیں شروع کر دیں گے یا آپ ننگے اپنے دوستوں سے ملنے نہیں چلے جاءیں گے۔
ایک بہت بڑے معاشرے کی مثال کسی ملک کی ہے جس کے قوانین وہ سمجھوتہ ہیں جو اس ملک میں رہنے والے لوگوں کے درمیان ہے۔ اس سمجھوتے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آپ اس ملک میں داخل ہوں گے تو آپ اپنے داخلے کی وجہ سے خود بخود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ آپ سمجھوتے کو مانتے ہیں اور اس ملک کے قوانین آپ پہ لاگو ہوتے ہیں۔
موجودہ دنیا میں اکثر معاشرے جہموریت کی طاقت کو سمجھ گءے ہیں۔ یہ معاشرے اپنے قوانین سب لوگوں کی مرضی سے بناتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے قوانین یا لوگوں کے درمیان سمجھوتہ ان پانچ ضمروں سے متعلق ہوتا ہے: کہ لوگ ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کیسے کریں گے؛ کہ سانجھے کی چیزیں، مثلا ہوا، پانی، مٹی، سانجھے کے املاک کی حفاظت کیسے کی جاءے گی؛ کہ کیسے یقین کیا جاءے گا کہ لوگ سمجھوتے پہ عمل درآمد کر رہے ہیں؛ کہ اگر کسی نے قانون توڑا تو اسے کس طرح سزا دی جاءے گی؛ اور یہ کہ قوانین میں ردو بدل کیسے کیا جاءے گا۔
معاشرے اسی سمجھوتے، سوشل کانٹریکٹ، سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھوتے بہت پرانے ہیں۔ یہ سمجھوتے لکھاءی ایجاد ہونے سے پہلے بھی وجود میں تھے۔ مذاہب اپنے ماننے والوں کو اخلاقیات کا جو سبق دیتے ہیں، وہ بھی اسی قسم کے سمجھوتے کی شقیں ہیں۔ اخلاقیات انسان کی حیوانی جبلت کو اس طرح لگام دینے کا طریقہ ہے کہ معاشرہ لوگوں کے راءج خیالات کے حساب سے رواں رہے۔
جان و مال اور نسل آگے بڑھانے کے سلسلے میں قوانین بہت پرانے ہیں، مگر سانجھے کی چیزوں کے بارے میں سمجھوتے کی شق نسبتا نءی ہے۔ سانجھے کی چیزوں سے متعلق قوانین میں ماحولیات سے متعلق قوانین سرفہرست ہیں۔
فرض کریں کہ مجھے سگریٹ پینے میں مزا آتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ سگریٹ نوشی میری صحت کے لیے اچھی نہیں ہے مگر مجھے اس بات کی کوءی خاص پرواہ نہیں۔ مجھے سگریٹ پی کر بے انتہا خوشی ہوتی ہے، اس لیے میں ایسا ہی کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میرے اس فعل پہ دوسرے لوگ اعتراض کر سکتے ہیں؟ کیا میں اپنے اس فعل سے لوگوں کے ساتھ باہمی سمجھوتے کی نفی کر رہا ہوں؟ اگر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھا ہوں تو یقینا دوسرے لوگ میری سگریٹ نوشی پہ اعتراض کر سکتے ہیں کیونکہ کمرے کی ہوا سب کے سانجھے میں ہے۔ میں اپنے عمل سے سانجھے کی اس چیز کو خراب کر رہا ہوں۔ میرا چھوڑا ہوا سگریٹ کا دھواں دوسرے لوگوں کے پھیپھڑوں میں جا رہا ہے اور ممکن ہے کہ لوگوں کو یہ بات بری لگے۔
ایک اور مثال لیں۔ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھا گنڈیریاں کھا رہا ہے۔ وہ گنڈیری چوسنے کے بعد چوسی ہوءی گنڈیری فرش پہ پھینک دیتا ہے۔ کیا معاشرے کو اس شخص کے اس فعل پہ اعتراض ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ اس شخص کا اپنا گھر ہے اور وہ جس طرح چاہے اپنے گھر میں رہے۔ لیکن فرض کریں کہ یہ شخص گنڈیریاں کھاتا کھاتا اپنے گھر سے باہر نکل آتا ہے۔ کیا وہ گھر سے باہر فٹ پاتھ پہ چوسی ہوءی گنڈیریاں پھینکتا چلے تو لوگوں کو اس شخص کے اس فعل پہ اعتراض ہو سکتا ہے؟ بالکل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ فٹ پاتھ سب لوگوں کے سانجھے میں ہے۔ اس شخص کو یہ ہرگز اختیار نہیں کہ وہ اپنے فعل سے سانجھے کی چیز کو خراب کر دے۔
ایک ایسے ملک میں جو بہت بڑا ہو، اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوگی جو بڑی تعداد ہونے کے باوجود اکثریت میں نہ ہوگی اور اسے خیال ہوگا کہ ملک کے فیصلے اس کی مرضی کے خلاف ہورہے ہیں۔
Labels: social contract