Saturday, May 24, 2014
کرامت غوری کا بار شناساءی
مءی
اٹھارہ، دو ہزار چودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو نواسی
کرامت غوری
کا بار شناساءی
کرامت غوری
صاحب نے اپنی تازہ ترین کتاب کا عنوان بار شناساءی رکھ کر لوگوں کو مشکل میں ڈال
دیا ہے۔ مشکل تذکیر و تانیث کے تعین میں ہے۔ یعنی اسے کرامت غوری کا بارشناساءی
کہا جاءے یا کرامت غوری کی بارشناساءی۔ شاید ایک ہی جملے میں مذکر و مونث کا
استعمال کر کے مسءلے کو حل کیا جاسکتا ہے: کرامت غوری کا بارشناساءی جو انہوں نے
اپنی بارشناساءی میں اتارا ہے۔ کرامت غوری صاحب اپنی تازہ کتاب کو دنیا بھر میں
متعارف کرانے کی مہم پہ نکلے ہوءے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ سان فرانسسکو بے ایریا
بھی آءے۔
سان فرانسسکو
بے ایریا کے معروف شاعر تاشی ظہیر صاحب اردو اکیڈمی شمالی امریکہ کے نام سے اپنے
مرحوم بھاءی انوار انجم کی یاد قاءم رکھنے کے لیے ماہانہ ادبی محافل منعقد کرتے
ہیں۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور آج اردو اکیڈمی ایسا تناور درخت بن گءی ہے
جس کے ساءے کا فاءدہ شمالی کیلی فورنیا سے گزرنے والا ہر طرح کا آرٹسٹ اٹھاتا ہے۔
شاعر، ادیب، ساءیکل پہ جہاں نوردی کرنے والے، اداکار، موسیقار، مغنی، ہر طرح کے یہ
فنکار اردو اکیڈمی آ کر اپنے فن کا مظاہرہ اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کے سامنے
کرتے ہیں اور ان محافل کی شہرت دور دور تک پھیل جاتی ہے۔
اردو اکیڈمی
نے کرامت غوری صاحب کی کتاب بار شناساءی کی تعارفی تقریب سنیچر مءی سترہ کے روز
چاندنی ریستوراں میں منعقد کی۔ کرامت غوری صاحب نے عمر کا بڑا حصہ پاکستان کے
محکمہ خارجہ میں گزارا ہے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں کرامت غوری صاحب نے کءی ممالک
میں سفارت کاری کے فراءض انجام دیے ہیں۔ سفیر کے اہم عہدے پہ فاءز ہونے کی وجہ سے
ان کا واسطہ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر شخصیات سے پڑا۔ شناساءی کے یہی قصے
کرامت غوری صاحب کی کتاب 'بار شناساءی' کے موضوعات ہیں۔ مگر بار شناساءی محض چیدہ
چیدہ قصاءص کی تحریر نہیں ہے بلکہ یہ گہرے مشاہدے اور تاریخ کے ادراک کا بیان ہے۔
اور یہی اس کتاب کی خاص بات ہے۔
کرامت غوری
کی کتاب میں موجود شخصی خاکے تاریخی ترتیب کے ساتھ نہیں لکھے گءےہیں، بلکہ جس
مشہور شخصیت سے کرامت غوری صاحب کا جتنا واسطہ پڑا، غوری صاحب نے اتنا زیادہ ہی اس
شخص کے بارے میں لکھا ہے اور بارشناساءی طویل سے مختصر خاکوں کی ترتیب میں تشکیل
دی گءی ہے۔
کرامت غوری صاحب کی کتاب نوشخصی خاکوں پہ مشتمل ہے۔ ان نوخاکوں میں چھ سربراہان مملکت کے ہیں: ضیا
الحق ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، محمد خان جونیجو، نواز شریف، اور جنرل
پرویز مشرف کے خاکے۔ اور تین خاکے مقتدر شخصیات کے ہیں: ڈاکٹر عبدالسلام، حکیم
محمد سعید، اور، فیض احمد فیض کے خاکے۔ جن لوگوں کے شخصی خاکے لکھے گءے ہیں وہ سب
کے سب، سواءے دو کے، اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔
کہنے کو تو یہ کتاب نوشخصی خاکوں پہ مشتمل ہے مگر دراصل اس
میں دس خاکے ہیں۔ اور دسواں خاکہ خود کرامت غوری صاحب کا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب خاکوں
کی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوانح بھی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر مصنف کے بچپن سے
لے کر تحریر کتاب تک کی زندگی کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اس دسویں خاکے میں آپ ایک
چھ سالہ لڑکے کو دیکھتے ہیں جو دہلی کی گلیوں میں ایک آزاد ملک کے حصول کے لیے
نعرے لگا رہا ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ کراچی آتا ہے، جوجامعہ کراچی سے تعلیم حاصل
کرنے کے بعد وہیں مختصر عرصہ نوکری کرتا ہے، اور پھر محکمہ خارجہ میں ملازمت کرنے
پہ اپنی قابلیت سے ترقی کرتا کرتا سفیر بنتا ہے اور ملک ملک کی خاک چھانتا ہے۔
سربراہان مملکت کا کتاب لکھنا تو اب ایک عام بات ہے مگر
سرکاری مشینری سے وابستہ دوسرے اہم افراد کا اپنی کتابوں کے ذریعے اپنے تجربات اور
مشاہدات کا بیان بھی اہم ہے۔ ان ہی صاحبان کی کتابوں سے ہمیں تاریخی شخصیات اور
واقعات کو نءے انداز سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔
کرامت غوری صاحب کی کتاب ہر بڑے شخص کے پیچھے موجود انسان کی کہانی
ہے۔ انسان جو ایک پیچیدہ مشین ہے، وہ
انسان جو چاہے کسی بھی منصب پہ پہنچ جاءے اپنی بنیادی ہءیت میں بالکل آپ اور میرے
جیسا ہے۔ کرامت غوری کی کتاب ان ہی انسانوں کی وہ کہانی ہے جس میں آپ کو اہم عہدوں
پہ فاءز ان لوگوں کے روز مرہ کے طور طریقے وضاحت سے نظر آءیں گے۔
خوبصورت نثر میں لکھی گءی یہ کتاب محض شخصی خاکوں کا مجموعہ
نہیں ہے۔ اس کتاب میں درج واقعات کو پڑھ کر آپ نوکرشاہی کے طور طریقے جان سکتے
ہیں۔ آپ جانیں گے کہ نوکرشاہی کے افسران کے لیے یہ بات کتنی اہم ہوتی ہے کہ کسی
شخص کو اس کے عہدے کے حساب سے محفل میں کہاں بٹھایا گیا اور ہواءی جہاز سے اترنے
کے بعد کسی سربراہ مملکت نے کس شخص سے کتنی دیر ہاتھ ملایا۔
پھر اس کے ساتھ ہی آپ کو بیرون ملک دورہ کرنے والے پاکستانی
وفود کا حال معلوم ہوگا کہ ان وفود میں شامل لوگ کس نیت سے بیرون ملک جاتے ہیں اور
کس طرح ان کی دلچسپی سرکاری کاموں سے زیادہ گھومنے پھرنے، کھانے پینے، اور خریداری
میں ہوتی ہے۔
Labels: Ambassador Ghori, Bar e Shanasaee, Bar e Shanasai, Bare Shinasai, Karamat Ghori, Karamatullah Khan Ghori, Reflections, Urdu prose
Comments:
<< Home
میں اس الجھن کا شکار تھا کہ آخر کرامت غوری صاحب کی کتاب بار شناساءی مجھے اس قدر کیوں پسند آءی؟ بات سمجھ میں آگءی ہے۔ اور بات یہ ہے کہ اتنی اہم کتاب اردو میں لکھی گءی ہے۔ اس کتاب کو اردو میں لکھ کر کرامت غوری صاحب نے اردو کا رتبہ بلند کیا ہے۔
اس نءے دور میں رواج ہوچلا ہے کہ بیشتر اہم باتیں انگریزی میں کی جاتی ہیں۔ خبر وہی مستند سمجھی جاتی ہے جو انگریزی میں لکھی گءی ہو۔ تاریخ وہی قابل اعتبار ہے جو کسی انگریزی کتاب میں درج ہو۔ سب سے مضحکہ خیز صورتحال پاکستان کے ٹی وی مبصرین پیش کرتے ہیں۔ بات اچھی خاصی اردو میں کررہے ہوتے ہیں، مگر پھر کسی خاص بات پہ زور دینے اور اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ انگریزی کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے، مگر ہمیں بقیہ زبانوں کو دھتکارنے کا عمل ذرا پسند نہیں۔ زبانوں کے باغ میں انگریزی ایک خوب صورت پھول ہے، مگر یہاں اور پھول بھی تو ہیں؛ انہیں بھی تو سراہنا ہے۔ جہاں نباتات اور حیوانات کے تنوع سے دنیا کی خوبصورتی ہے، وہیں زبانوں کے تنوع سے بھی دنیا رنگا رنگ ہے۔ ایک زبان کو دوسری زبانوں پہ حاوی کر کے ان زبانوں کی معدومی کا انتظام کرنا، اور یوں دنیا کے لسانی تنوع کو ختم کرنا قطعا اچھا نہیں۔
Post a Comment
اس نءے دور میں رواج ہوچلا ہے کہ بیشتر اہم باتیں انگریزی میں کی جاتی ہیں۔ خبر وہی مستند سمجھی جاتی ہے جو انگریزی میں لکھی گءی ہو۔ تاریخ وہی قابل اعتبار ہے جو کسی انگریزی کتاب میں درج ہو۔ سب سے مضحکہ خیز صورتحال پاکستان کے ٹی وی مبصرین پیش کرتے ہیں۔ بات اچھی خاصی اردو میں کررہے ہوتے ہیں، مگر پھر کسی خاص بات پہ زور دینے اور اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ انگریزی کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے، مگر ہمیں بقیہ زبانوں کو دھتکارنے کا عمل ذرا پسند نہیں۔ زبانوں کے باغ میں انگریزی ایک خوب صورت پھول ہے، مگر یہاں اور پھول بھی تو ہیں؛ انہیں بھی تو سراہنا ہے۔ جہاں نباتات اور حیوانات کے تنوع سے دنیا کی خوبصورتی ہے، وہیں زبانوں کے تنوع سے بھی دنیا رنگا رنگ ہے۔ ایک زبان کو دوسری زبانوں پہ حاوی کر کے ان زبانوں کی معدومی کا انتظام کرنا، اور یوں دنیا کے لسانی تنوع کو ختم کرنا قطعا اچھا نہیں۔
<< Home