Saturday, May 24, 2014

 

اوپن فورم ۲۰۱۴




مءی  گیارہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  اٹھاسی


اوپن فورم ۲۰۱۴




سان فرانسسکو بے ایریا میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی صحیح تعداد کے بارے میں حتمی طور سے کہنا تو مشکل ہے کہ اس آبادی کا تعین کرنے کے لیے کوءی ساءنسی سروے نہیں ہوا ہے، مگر اندازہ ہے کہ اس علاقے میں پانچ ہزار سے پندرہ ہزار کے درمیان ایسے افراد بستے ہیں جو پاکستان سے یہاں پہنچے ہیں۔ ان لوگوں میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی ہے جو 'ٹیکنالوجی' سے وابستہ ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی ایک جماعت اپنے انگریزی مخفف اوپن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اوپن سلیکن ویلی ہر سال ایک کانفرینس اوپن فورم کے نام سے منعقد کرتی ہے۔ اس کانفرینس میں ایسے لوگ جمع کیے جاتے ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں یکتاءے روزگار ہوتے ہیں۔ ان کامیاب شخصیات کو سننے اور ان سے سیکھنے کے لیے لوگ دوڑے چلے آتے ہیں۔ مندوبین کی دلچسپی کے لیے کانفرینس کی بیشتر کارواءی تین متوازی حصوں میں چلاءی جاتی ہے۔ آپ کو ایک ساتھ چلنے والے تین پروگرام میں سے جو سننا ہے، اس جگہ چلے جاءیں۔ اوپن فورم ۲۰۱۴ میں مجھے جس پہلے پروگرام کو سننے کا موقع ملا وہاں سیکویا کیپٹل کے گواریو گرگ فاءر آءی سے متعلق اپنے مشاہدات اور خیالات بیان کررہے تھے۔ یاد رہے کہ فاءر آءی کے بانی اشعر عزیز ہیں جن کا تعلق کراچی اور اسلام آباد سے ہے۔ حال میں جب فاءر آءی کے حصص پبلک کیے گءے تو اشعر عزیز سمیت فاءر آءی کے کءی افسران راتوں رات بہت مالدار ہوگءے۔ فاءر آءی کی داستان سے متعلق اس پروگرام میں عارف ہلالی نے گواریو گرگ سے سوالات پوچھے۔
اسی ہال میں ہونے والے اگلے پروگرام میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور وکلا تحریک کے اہم قاءد منیر ملک نے پاکستان میں کاروبار اور تجارت سے متعلق قوانین کے بارے میں گفتگو کی۔ اس محفل میں بہت سے لوگ یہ سوچ کر شریک ہوءے تھے کہ سابق چیف جسٹس سے ملک کے سیاسی معاملات پہ بات ہوگی۔ مگر ایسا نہ ہوپایا۔
اوپن فورم ۲۰۱۴ میں دوپہر میں ہونے والے ایک پروگرام میں پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرن منٹر، اٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز، اور صدر اوباما کے مشیر دلاور سید کے ساتھ  شریک تھے؛ موضوع تھا امریکی حکومت اور پاکستانی امریکیوں کی پاکستان میں ترقی کے منصوبوں میں ممکنہ معاونت۔ اس محفل میں کیمرن منٹر نے عسکری نوعیت کے سوالات [ڈرون حملے، دہشت گردی کے خلاف جنگ، وغیرہ] کے جوابات دینے سے گریز کیا۔
اوپن سلیکن ویلی کے صدر شہاب ریاضی ایک نہایت کامیاب کانفرینس کے انعقاد پہ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اوپن فورم ۲۰۱۴ کی چیدہ چیدہ تصاویر یہاں ملاحظہ فرماءیے۔
http://karachiphotoblog.blogspot.com/
اوپن فورم میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ یہاں شمالی کیلی فورنیا میں کامیاب ہونے والے لوگ اپنے دیس میں ایسی کامیابی کیوں حاصل نہیں کر سکتے۔  میرا دھیان تربوز کے ان بیجوں کی طرف گیا جو میں نے قریبا دو ماہ پہلے چھوٹے گملوں میں لگاءے تھے۔ میں نے تجربہ کار باغبانوں سے یہ گر سیکھا ہے کہ بیجوں کو شروع مٹی [اسٹارٹر سواءل] میں لگایا جاءے۔ یہ شروع مٹی پودوں کی دکانوں میں باآسانی دستیاب ہوتی ہے۔ اس شروع مٹی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت بھربھری ہوتی ہے، اس میں کھاد ملی ہوتی ہے، اور اس مٹی میں پانی کو دیر تک اپنی گرفت میں رکھنے کی اچھی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب کبھی نءے بیج لگانے ہوں تو میں چھوٹے پلاسٹک کے گملچوں میں شروع مٹی بھرتا ہوں اور پھر بیج کو ہلکا سا دبا کر اوپر سے پانی ڈال دیتا ہوں۔ شروع مٹی میں بیج کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے اور ہفتے بھر کے اندر بیج سے نیا پودا پھوٹ پڑتا ہے۔ تربوز کے بیجوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ باہر موسم نسبتا سرد تھا اس لیے میں نے کءی ہفتوں تک تربوز کے ان نءے پودوں کو گملچوں میں کھڑکی پہ ہی رکھے رہنے دیا۔ چند ہی ہفتوں میں یہ پودے لمبی لمبی بیلیں بن گءے۔ پھر جب مجھے خیال ہوا کہ موسم بہتر ہوگیا ہے تو میں نے ان بیلوں کو باغ میں منتقل کردیا۔ مگر باغ کی مٹی کی زرخیزی کا مقابلہ شروع مٹی کی زرخیزی سے ذرا نہ تھا۔ اور ساتھ یہ غضب ہوا کہ باغ کی مٹی کو میں نے اچھی طرح کھود کر نرم نہیں کیا تھا۔ تین پودے تو کچھ ہی دنوں میں جل کر ختم ہوگءے۔ جو بچے ہیں وہ بھی اپنی نءی جگہ پہ بہت زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔  ثابت ہوا کہ اچھا بیج تو پورے معاملے کا محض ایک جز ہے۔ بیج سے پھل دار پودے تک کے سفر میں مٹی کا اچھا ہونا شرط ہے۔ پھر مستقل پانی ڈالنا بھی ضروری ہے، اور کھاد سونے پہ سہاگے کا کام کرتی ہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک جہاں سیاسی استحکام عنقا ہے، ایسی ہی مٹی کی مانند ہیں جس میں اچھے سے اچھے پودے کا چلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔






Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?