Monday, August 06, 2012

 

زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے





جولاءی سولہ، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چورانوے


 زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

علی حسن سمندطور

انسان اپنے دماغ سے بہت سارے منصوبے بناتا ہے مگر یہ نہیں سمجھتا کہ وہ ایک بزرگ تر کھیل کا حصہ ہے جس کے چند ہی پہلو بمشکل اس کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں، چنانچہ اس بات کا عین امکان موجود رہتا ہے کہ اس کے ساتھ کوءی ایسا حادثہ ہوجاءے جس کے بارے میں اس کا کبھی وہم و گمان بھی نہ رہا ہو۔ ایک دفعہ میں اپنے دوست سے اسی نکتے پہ بات کررہا تھا۔ ہمارے سامنے میز پہ کھانے پینے کی چند چیزیں موجود تھیں اور اسی وجہ سے ایک بھنگا وہاں منڈلا رہا تھا۔ مجھے اس بھنگے کی موجودگی وہاں اچھی نہ لگی اور میں نے ایک تالی بجا کر اس کی زندگی ختم کر دی۔ میرے دوست نے برجستہ کہا کہ 'ہاں، یہ بھنگا بھی نہ جانے کیا کچھ سوچ رہا ہوگا، اس نے اپنی زندگی میں آگے تک نہ جانے کس کس طرح کے منصوبے بناءے ہوں گے مگر یہ بلند تر کھیل کے تمام پہلو نہ سمجھتا تھا اور اسے یہ خیال نہ تھا کہ اچانک دو ہاتھ آءیں گے اور اس کی زندگی یوں ختم کر دیں گے۔'  تو ایسا ہی کچھ معاملہ ان اٹھارہ غریب نوجوانوں کے ساتھ ہوا جو بے روزگاری سے تنگ آ کر کر اپنے گھروں سے نکلے۔ نہ جانے کس نے انہیں مشورہ دیا کہ پاکستان میں کام ملنا مشکل ہے، سرحد پار کر کے ایران چلے جاءو۔ کسی ایجنٹ کے توسط سے وہ بلوچستان کے قصبے تربت پہنچے۔ وہاں سے ایک بس انہیں ایران کی سرحد کے قریب لے گءی جہاں انہیں پیدل سرحد عبور کرنا تھی اور پھر ایران میں اپنا انتظام کرنا تھا۔ بس اسی وقت اچانک موٹرساءیکلوں پہ مسلح افراد نمودار ہوءے۔ مسلح افراد نے ان نوجوانوں کی بس پہ اندھادھند فاءرنگ کر دی اور اٹھارہ نوجوان چٹ پٹ ختم ہو گءے۔ مسلح افراد کے متعلق خیال ہے کہ یہ بلوچ علیحدگی پسند تھے جو ہر طریقے سے پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات ٹھیک نہیں ہیں، کسی غیر بلوچ اور بالخصوص کسی پنجابی یا مہاجر کا یہ خیال نہ ہو کہ وہ اپنی مرضی سے بلوچستان میں آ جا سکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ایف سی کے نوجوان کسی طرح اس دور افتادہ مقام تک پہنچے اور اٹھارہ لاشوں کو کراچی پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ عبدالستار ایدھی ایسا فرشتہ صفت انسان ہے جس نے مستقل وہ کام کیا ہے جس کو کرتے ہوءے ایک عام آدمی کی ٹانگیں کپکپاءیں گی۔ ایدھی کی عمر مقتول افراد، سربریدہ لاشوں، اور کٹے پھٹے مردہ جسموں کو غسل دے کر انہیں دفنانے میں گزری ہے۔ مگر اب ایدھی کی عمر پچاسی سال ہے۔ جب یہ اٹھارہ لاشیں سہراب گوٹھ پہ واقع ایدھی سینٹر میں اتاری گءیں تو عبدالستار ایدھی ان لاشوں کو دیکھ کی بے ہوش ہوگءے۔ ایدھی گردے کے عارضے میں مبتلا ہیں اور اسی لیے اس واقعے کے بعد انہیں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولجی نامی اسپتال میں داخل کیا گیا۔  ایدھی کی ناسازی طبیعت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے میں پھیل گءی۔ کءی جگہ سے ایدھی کی صحت کے لیے اپیل کی گءی۔ نہ جانے کتنے ہاتھ دعا کے لیے ہوا میں بلند ہوءے، کتنی آنکھوں سے آنسو ٹپکے، کتنے رندھے گلوں سے دعا نکلی اور یہ پرخلوص گڑگڑاتی دعاءیں عبدالستار ایدھی کو موت کے منہ سے واپس زندگی میں کھینچ لاءیں۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایدھی اسپتال سے نکل کر سیدھے کام پہ پہنچ گءے ہیں۔
کل سوز جگر نامی ایک ادبی محفل میں جگر مرادآبادی کو یاد کیا گیا۔ ہر تین چار ماہ میں آءی سی سی میں ہونے والی ان ادبی محافل کا انعقاد حمیدہ بانو چوپڑہ صاحبہ کرتی ہیں۔ کل کی محفل کی صدارت وجے نگم صاحبہ نے کی جن کے والد جگر کے گہرے دوست تھے۔ وجے نگم صاحبہ نے بتایا کہ جگر اس قدر عمدہ انسان دوست تھے کہ وجے نگم صاحبہ کے والد کے انتقال کے بعد بھی وجے نگم صاحبہ کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر جاتے تھے۔ ملاقات مختصر ہوتی، کچھ اس انداز سے کہ جگر تانگے پہ وجے نگم صاحبہ کے سسرال پہنچتے، تانگہ گھر کے باہر ہی کھڑا رہتا، جگر اندر جا کر وجے نگم صاحبہ کا حال پوچھتے، ان کے سر پہ ہاتھ پھیرتے اور پھر کچھ کھاءے پیے بغیر ہی وہاں سے چل پڑتے۔ سوز جگر نامی محفل میں امجد نورانی، انشمن چاندرا، الماس حمید شبوانی، الکا اجمانی، روی خورشید، انل چوپڑہ، اشرف حبیب اللہ، بمبءی سے آنے والے موسیقار روی، اور انوپما دلال نے جگر کی شاعری پڑھی۔ محفل کی خاص بات جگر مرادآبادی کی وہ بے مثال غزل تھی جو انوپمادلال نے اپنی خوب صورت آواز میں گا کر سناءی۔

طبیعت ان دنوں بے گانہ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ اے حسن دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے

وہی مہ خانہ و صہبا وہی ساغر وہی شیشہ
مگر آواز نوشہ نوش مدھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگر یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

کل تک ایدھی کی بحالی صحت کی خبر نہیں ملی تھی اور میرا دل وسوسوں سے بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ جگر کی درج بالا غزل کے مقطع کے 'زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے' والے حصے پہ خاص دھیان تھا۔ کہ زندگی واقعی یوں ہی ہے۔ جوانی میں انسان موت کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے مگر پھر عمر بڑھنے کے ساتھ جسم کی تواناءی کم ہوتی جاتی ہے، اعضا جواب دینے لگتے ہیں اور زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?