Tuesday, August 28, 2012

 

شیری رحمان کے لیے استقبالیہ اور جشن جاذب قریشی









اگست چھبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار سو


 شیری رحمان کے لیے استقبالیہ اور جشن جاذب قریشی

علی حسن سمندطور

پچھلے منگل، اگست اکیس کے روز سان فرانسسکو بے ایریا کے شہریوں نے امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان کے اعزاز میں ایک عشاءیے کا اہمتمام کیا۔ اس تقریب کا انعقاد پاکستانی امریکن کلچرل سینٹر نے دوسری تنظمیں کی مدد سے ہلٹن ہوٹل، نو ارک میں کیا تھا۔ اس عشاءیے میں لمبی لمبی تقریرں ہوءیں مگر دل میں خلش رہی کہ باتیں تو بہت ساری ہوءیں مگر کام کی کوءی بات نہ ہوءی۔ تقریب سے واپس پلٹنے کے بعد میں شیری رحمان کے بارے میں سوچتا رہا کہ انہوں نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور کہاں پہنچ گءیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ آج ایک ایسی جگہ پہنچ گءی ہیں جہاں پہنچنے کے بارے میں ان کی نہ تو کوءی خواہش تھی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کبھی سوچا تھا؟ آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو، اور کراچی کے دوسرے بااثر سندھیوں کی طرح شیری رحمان بھی ایک ایسے سندھی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جس نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کراچی کو یکسر تبدیل ہوتے دیکھا۔ ان خاندانوں کے بچے کراچی میں ہی پلے بڑھے جہاں یہ لوگ کراچی کی اکثریت یعنی مہاجروں کے رنگ روپ میں ڈھل گءے اور اندرون سندھ سے ان کا تعلق محض نام کا رہ گیا۔ شیری رحمان ولاءیت سے پڑھ کر لوٹیں تو انگریزی میں سیاسی تجزیے لکھنے لگیں۔ بس وہاں سے عملی سیاست میں پہنچیں اور بالاخر وفاقی وزیر بنیں۔ انہوں نے حدود آرڈینینس کو ختم کروانے کی کوششیں شروع کیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا؛ پیپلز پارٹی کی حکومت سے ایک دوسرے معاملے پہ اختلاف ہوا تو انہوں نے وزارت سے استعفی دے دیا۔  جب میمو گیٹ کے جعلی اسکینڈل میں حسین حقانی کو واشنگٹن میں سفارت کے عہدے سے استعفی دینا پڑا تو شیری رحمان کے آصف علی زرداری سے مراسم کام آءے اور شیری رحمان امریکہ میں پاکستان کی سفیر بن گءیں۔ کیا شیری رحمان کی کبھی خواہش تھی کہ وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بن جاءیں، یا ان کے چند عزاءم تھے کہ جنہیں سفیر بننے کے بعد انہیں پورا کرنا تھا؟ شاید نہیں۔ اور اسی لیے منگل کو شیری رحمان کے اعزاز میں منعقد کی جانے والی تقریب میں تقریریں تو بہت ہوءیں مگر کسی بات میں کوءی جان نہ تھی۔
اس تقریب کی تصاویر یہاں ملاحظہ فرماءیں:
[اس تقریب میں کی جانے والی تقاریر کا ربط بھی تصاویر کے ساتھ موجود ہے۔]
 شیری رحمان کی تقریب کے مقابلے میں اتوار، اگست چھبیس کے روز اردو اکیڈمی کی ماہانہ ادبی نشست میں جاذب قریشی کی تقریر اور شاعری سننے کا موقع ملا۔ دل خوش ہوگیا۔ یہاں گفتگو اور شاعری میں حرارت ہی نہ تھی بلکہ تپش تھی؛  گفتار میں شعلہ بیانی تھی، زندگی کی تڑپ تھی۔ اس بزرگ، کہنہ مشق، اور مایہ ناز شاعر کا کلام سنیں تو آپ اس کلام کے پیچھے موجود اس کڑک دار آواز کو سن سکیں گے جو کہہ رہی ہے کہ مجھے دیکھو، میں اپنی محنت سے کہاں پہنچا ہوں۔ کہ پانچ سال کی عمر میں باپ کے انتقال کے بعد میں ڈھلاءی کے کارخانے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ میں وہاں سے نکلا اور کتابیں پڑھ پڑھ کر علم کے اس مقام پہ پہنچا کہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیا اور پھر میں نے ہزاروں طلبا کو پڑھایا۔ میری شاعری پڑھو کہ نہ صرف اس میں تم میرے عہد کے رجحانات دیکھ سکو گے، بلکہ تمھیں اس شاعری میں وہ لافانی پیغام ملے گا جو ہر دور میں تازہ، شاداب، اور برمحل نظر آءے گا۔
جشن جاذب قریشی کی تصاویر اور صوتی مسل کا ربط بھی کراچی فوٹو بلاگ پہ موجود ہے۔
اردو اکیڈمی کی ہر محفل کے پہلے حصے میں کسی گزر جانے والے عالی مرتبہ شاعر کو یاد کیا جاتا ہے۔ محفل کے اس حصے کی خاص بات وہ تحقیق ہوتی ہے جو یاد کیے جانے والے شاعر پہ کی جاتی ہے۔ محفل کے اس حصے کی نظامت عموما ڈاکٹر طاہر محمود صاحب کرتے ہیں اور یاد کیے جانے والے شاعر کی زندگی کو مختلف کتابوں کی مدد سے کھنگالتے ہیں۔   اردو اکیڈمی کی حالیہ محفل میں جشن جاذب قریشی سے پہلے اردو کے عظیم شاعر تلوک چند محروم کی زندگی اور فن کو یاد کیا گیا۔ تلوک چند محروم کے حالات زندگی ڈاکٹر طاہر محمود نے جستہ جستہ اس طرح بیان کیے کہ شاعر کی پوری زندگی کو ایک ایسی دلچسپ کہانی کی شکل دے دی جس کا اگلا حصہ سننے کے لیے سامعین بے تاب رہتے۔
محفل کے دوسرے حصے میں جاذب قریشی صاحب نے حاضرین جلسہ کو چالیس منٹ سے اوپر اپنی شاعری سناءی اور خوب داد وصول کی۔ جاذب قریشی صاحب کی شاعری کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:

ہم آءینہ ہیں ہمیں ٹوٹنا تو ہے لیکن
ہم اپنے عکس چٹانوں میں چھوڑ آءے ہیں
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعاءیں
تم اپنے شکستہ درو دیوار تو دیکھو
اس دشت میں سیلاب مجھے چھوڑ گیا ہے
مجھ میں میرے تہذیب کے آثارت تو دیکھو
میں اندھیرے میں بھی جی سکتا ہوں
گھر میں مانگے کا اجالا نہ کرو
پیاسے تھے جو درخت وہ بارش میں جل اٹھے
ایسا تو دھوپ کا بھی رویہ نہیں رہا

اور حاصل محفل جاذب قریشی کا یہ شعر تھا:
دوسرا کوءی قبیلہ نہیں دشمن میرا
پیاس خود میرے لہو کی میری شمشیر میں ہے



اردو اکیڈمی کے جشن جاذب قریشی کی آڈیو فاءل یہاں سنیے:



Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?