Monday, August 06, 2012

 

متفرق موضوعات


جولاءی تءیس، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار پچانوے


 متفرق موضوعات

علی حسن سمندطور

یوسف رضا گیلانی کی وزیراعظم کے عہدے سے نااہلی کے بعد ملتان میں ان کی  قومی اسمبلی کی نشست خالی ہو گءی تھی۔ ہفتہ بھر پہلے ملتان کی اس قومی اسمبلی کی نشست پہ ضمنی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کا لڑکا عبدالقادر گیلانی کامیاب ہو گیا۔ چند ناقدین کا کہنا تھا کہ عبدالقادر گیلانی کی شوکت حیات بوسان کے مقابلے میں صرف چار ہزار ووٹ سے کامیابی کوءی معنی نہیں رکھتی۔ واضح رہے کہ شوکت بوسان ایک آزاد امیدوار کے طور پہ کھڑے ہوءے تھے مگر ان کو مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔ اس ضمنی انتخاب کے نتاءج میں بہت سی باتیں سمجھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان میں انتخابات میں ایسی اندھی دھاندلی نہیں ہوتی جیسی کہ مشہور ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے باوجود ان کا امیدوار اس ضمنی انتخاب میں ہار گیا۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں انتخابات کا ایک منفرد انداز ہے۔ وہاں علاقے کا ایسا بااثر شخص جس کی بہت ساری زمینیں ہوں اور ان زمینوں پہ بہت سے لوگ کام کرتے ہوں، انتخابات میں جیت جاتا ہے۔ گویا ان دیہی علاقوں میں میڈیا سے نشر ہونے والی خبروں اور پروپیگنڈے کا کوءی اثر نہیں ہوتا۔  عمران خان بار بار یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ اگلے ملک گیر انتخابات میں ان کی جماعت جھاڑو پھیر دے گی۔ عمران خان کو زیریں پنجاب اور سندھ کے انتخابات کا یہ انداز سمجھ میں آنا چاہیے۔ ان انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کا وہی امیدوار جیتے گا جو علاقے کا بااثر شخص ہوگا اور جس کے پاس بہت ساری زمینیں ہوں گی۔ پھر پیپلز پارٹی کی یہ طاقت بھی سمجھنی چاہیے کہ وہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے متفقہ امیدوار کو ہرا سکتی ہے؛ ملک گیر انتخابات میں جب ہر حلقے میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف اپنے الگ الگ امیدوار کھڑے کریں گے تو پیپلز پارٹی کو ان امیدواروں کو ہرانا کس قدر آسان ہوگا۔
اب آءیے ان موضوعات کی طرف جو گزشتہ چند ہفتوں سے ڈبلیو بی ٹی-ٹی وی کے مالک فرخ شاہ خان صاحب کے ٹی وی پروگرام وژن ۲۰۴۷ میں زیر بحث آءے ہیں۔
بچہ مزدوری- غربت و افلاس کے تنگ داءرے میں پھنسے لوگ۔ ایک ایسی زندگی گزارتےلوگ کہ جسے زندگی کہتے ہوءے بھی شرم آءے۔  آخر ایسا کیوں ہے؟ غربت کے کنویں میں گرنے کے کءی طریقے ہیں جن میں اپنے وساءل کا غلط استعمال اول شمار ہے۔ غربت کی وجہ سے اپنے کم سن بچے کو نوکری پہ لگا دینا اپنے وساءل کا ایسا ہی غلط استعمال ہے۔ کسی بچے کو مزدوری پہ شاید یہ سوچ کر لگایا جاتا ہے کہ اس عمل سے غربت دور ہوگی، مگر اکثر صورتوں میں یہ قدم خاندان کی اگلی نسل کو بھی غربت کے تنگ داءرے میں باندھنے کا سبب بنتا ہے۔ بچہ مزدوری نہ صرف یہ کہ بچے کا استحصال ہے اور اپنے خاندان اور بچے کے مستقبل کا قتل ہے بلکہ کسی بچے کو تعلیم سے دور رکھ کر مزدوری پہ لگانا پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے کہ یہ بچہ جو آج کتابوں سے دور ہے اور کارخانے میں مزدوری کر رہا ہے  نہ جانے تعلیم حاصل کرنے پہ کیا کچھ کرنے کا اہل تھا۔  بچہ مزدوری کا براہ راست تعلق غربت سے ہے اور اسی لیے ہم اس مسءلے کا وہ سطحءی حل نہیں چاہتے جس کی سفارش مغربی ادارے کرتے ہیں۔ غربت ختم کیے بغیر بچہ مزدوری پہ پابندی بے معنی ہے۔ ہم ایسے جنوبی ایشیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر معاشرہ اپنے وساءل کا بھرپور استعمال کرے اور اسی لیے معاشرے کا ہر فرد اچھی طرح سمجھے کہ معاشرے کا ایک خاندان اگر غربت سے تنگ آکر اپنے بچے کو مزدوری پہ لگاتا ہے تو اس عمل میں پورے معاشرے کا نقصان ہے۔ ہم ایسے جنوبی ایشیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر بچے کو تعلیم کے مساوی مواقع حاصل ہوں تاکہ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے وہ بچہ اپنی ذہنی استعداد کے حساب سے اپنے پیشے کا تعین کر لے اور ایک ایسی خوشحال اور مطمءن زندگی گزارے جس سے پورا معاشرہ مستفید ہو۔
عورتوں کے حقوق- حقوق نسواں ایک نسبتا نیا خیال معلوم دیتا ہے مگر عورت ایک عرصے سے ان ہی بنیادی حقوق کی خواہش کر رہی ہے جن کا حق دار مرد ہے۔ اکثر رواءیتی معاشرے عورت کے لیے ظالم ہیں۔ ان معاشروں میں مرد کی حکمرانی ہے اورعورت کا درجہ ثانوی ہے۔ من گھڑت مذہبی روایات اور کھوکھلی معاشرتی اقدار کی اوٹ میں عورت کو دبا کر رکھا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں عورت مرد کی طرح ایک انسان نہیں ہے، بلکہ مرد کی جاگیر ہے۔ وہاں جس طرح زمین اور دولت مرد کی منتقلہ جاگیر ہے، اسی طرح عورت بھی مرد کی جاگیر ہے۔ ان معاشروں میں عورت کی اپنی خواہش تو کجا، اس کی اپنی کوءی زندگی ہی نہیں ہے۔  وہ مستقل اپنے آس پاس کے مردوں کو خوش رکھنے میں لگی رہتی ہے۔
آج بنی نوع انسان فکری ارتقا کی اس منزل پہ ہے جہاں جدید معاشروں میں عورت کو مرد جیسا مکمل انسان سمجھا جاتا ہے۔ اور اس خیال کی ساءنسی حقیقت ہے۔ عورت اور مرد میں جسمانی طور پہ فرق ہیں، مگر ذہنی طور پہ ان دو میں کوءی فرق نہیں۔   آج دنیا میں وہی معاشرے خوشحال ہیں جہاں عورت آزادانہ طور پہ مرد کے شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ جو معاشرے اپنی عورتوں کو گھر پہ باندھ کر رکھنا چاہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ اپنی آدھی آبادی پہ ظلم کر رہے ہیں بلکہ ان کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنی ایک ٹانگ باندھ کر اس دوڑ میں شامل ہوں جس میں باقی لوگ دونوں ٹانگوں سے دوڑ رہے ہوں۔ آج ہم جنوبی ایشیا میں ایسے ہی رواءیتی معاشرے دیکھتے ہیں جہاں عورت مرد کے اشاروں پہ چلتی ہے۔ یہ معاشرے عورت کے لیے پرتشدد ہیں اور گھیر در گھیر بندشوں سے عورتوں کو نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔
ہم ایک ایسے جنوبی ایشیا کا خواب دیکھتے ہیں جہاں عورت مرد کے چنگل سے مکمل آزاد ہو۔ اسے تحفظ حاصل ہو کہ وہ گھر سے تنہا باہر نکل کر اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرے یا نوکری کے مواقع تلاش کرے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?