Monday, August 20, 2012
لا حوت لا مکاں
اگست انیس، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ننانوے
لاحوت لا مکاں
علی حسن سمندطور
لاحوت لامکاں کے چونے کے غاروں کا ذکر
بعد میں ہوگا۔ پہلے آپ سب کو عید کی دلی مبارکباد۔ مگر اس مبارکباد کے ساتھ یہ
اعتراف کہ عید منانے کی رتی بھر خوشی بھی دل میں نہیں ہے۔ پے درپے افسوس ناک خبریں
ملک سے آتی رہتی ہیں۔ ابھی ایک خبر پہ دل خراب ہونا بند نہیں ہوا ہوتا کہ اس سے
بڑی بری خبر آجاتی ہے۔ ایک خبر یہ تھی کہ جیکب آباد سے سینکڑوں کی تعداد میں سندھی
ہندوءوں نے پاکستان چھوڑ کر بھارت میں بس جانے کا قصد کیا ہے۔ سندھ میں رہنے والے ہندو سندھ کے اصلی باشندے
ہیں۔ ان کا اپنے وطن کو چھوڑنے پہ مجبور
ہونا ایک نہایت افسوس ناک بات ہے۔ ایک
عرصے سے پاکستان جس مذہبی شدت پسندی کی سمت میں جارہا ہے، اس طرف چلتے چلتے اب وہ
مقام آگیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو ایک طرف خود اسلام کے اندر مختلف مکتب فکر
رکھنے والے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے میں کامرہ کے منہاس فوجی اڈے
پہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوءوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں ایک فوجی اور نو کے
نو حملہ آور ہلاک ہوءے۔ اس بڑے جانی نقصان کے باوجود وہاں بڑا مالی نقصان نہیں
ہوا۔ جمعرات کو پنڈی سے گلگت بلتستان جانے والی تین بسوں کو ناران سے آگے روکا
گیا۔ مسافروں کو نیچے اتار کر ان کے شناختی کارڈ جانچے گءے۔ ان سارے لوگوں کو جن
کے نام شیعہ محسوس کیے گءے ایک قطار میں کھڑا کیا گیا اور ذرا سی دیر میں گولیوں
سے چھلنی کردیا گیا۔ اس بیہیمانہ کارواءی
کے بعد مجرم آسانی سے جاءے واردات سے فرار ہوگءے۔ خیال ہے کہ رمضان کے آخری عشرے
میں ہونے والی ان وارداتوں کے پیچھے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی خواہش تھی۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بناءے جانے والے ملک پاکستان کے قاءداعظم شیعہ مسلمان
تھے۔ جناح کی روح یقینا مذہبی شدت پسندی کے ان واقعات پہ خوب تڑپتی ہوگی۔
سنہ بانوے میں ایک طویل سفر کے بعد
میں کراچی پہنچا تھا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد خواہش ہوءی کہ شہر سے باہر نکل کر
کہیں جایا جاءے۔ کسی ایسی جگہ جہاں یہ محسوس نہ ہو کہ انسان زمین سے ابل ابل کر
نکل رہے ہیں۔ ایسی جگہ جہاں قدرت کی صناعی کا کوءی انوکھا مظاہرہ ہو۔ کسی نے لاحوت
لامکاں کے غاروں کے بارے میں بتایا۔ چونا پتھر کے غار دنیا میں بہت سی جگہوں پہ
پاءے جاتے ہیں۔ یہ غار عام غاروں سے اس طرح مختلف ہوتے ہیں کہ عام غاروں کے مقابلے
میں جو محض ارضی اتھل پتھل سے وجود میں آنے کے بعد سادگی سے قاءم ہوتے ہیں، چونے
کے یہ غار چکندوں اور چکیدوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی جب ان پہاڑوں پہ
برستا ہے جن میں یہ غار ہوتے ہیں، تو برسات کا پانی چونے اور دوسری معدنیات کو
اپنے اندر حل کر لیتا ہے۔ جب یہ محلول غار کی چھت سے ٹپکتا ہے تو چونا اور دوسری
معدنیات پیچھے رہ جاتی ہیں اور پانی ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح ان غاروں
میں چھت سے لٹکی چونے کی لمبی لمبی سلاخیں ملتی ہیں جن کو چکندے کہتے ہیں۔ اور اگر
کبھی یوں ہو کہ محلول کا پانی فورا ہوا میں تحلیل نہ ہو، اور پورا محلول غار کی
زمین پہ ٹپکے تو وہاں ملغوبے کا ایک بڑا سا ڈھیر بن جاتا ہے جس کا پانی بہت عرصے
میں ہوا میں تحلیل ہونے کے بعد اپنے پیچھے چونے اور معدنیات کا ایک گومڑا سا چھوڑ
دیتا ہے۔ یہ گومڑا کبھی گندھے ہوءے آٹے کے ڈھیر کی طرح اور کبھی اوپر اٹھتی سلاخ
کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس گومڑے کو چکیدہ کا نام دیا جاتا ہے۔ چکندوں اور
چکیدوں سے مزین چونے کے یہ غار بڑے عجیب و غریب محسوس ہوتے ہیں۔ آپ غار کے دھانے
سے غار میں داخل ہوں تو نوکیلے چکندوں کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ جیسے آپ کسی ایسے
عفریت کے منہ میں جارہے ہیں جس کے بڑے بڑے نوکیلے دانت ہیں۔ لاحوت لامکاں کے چونے کے غار بلوچستان کے شہر
خضدار کی سمت میں کراچی سے قریبا ساٹھ میل دو واقع ہیں۔ یہاں ایک مزار بھی ہے جسے
شاہ نورانی کہا جاتا ہے۔ ہم کراچی سے شاہ نورانی ایک جیپ سے پہنچے تھے۔ لاحوت
لامکاں کے غار کا دھانہ کسی قدر اونچاءی پہ تھا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے لوہے کی
سیڑھی لگی تھی۔ ہم غار کے اندر داخل ہوءے تو وہاں جگہ جگہ موم بتیاں جل رہی تھیں
جن سے اٹھنے والا کالا دھواں غار کی چھت کو خراب کر رہا تھا۔ غار کا فرش کیچڑ سے اٹا
ہوا تھا۔ زیادہ تر چکندوں کے سرے ٹوٹ چکے تھے۔ ایک چکیدے کے متعلق ہمیں بتایا گیا
کہ یہ حضرت ایوب کی اونٹنی تھی جو کسی معجزے سے اب پتھر کی بن گءی تھی۔ اور اسی
قسم کی بے سر و پا حکایات چنکدوں اور چکیدوں کی اور شکلوں کے بارے میں بھی موجود
تھیں۔
لاحوت لا مکاں کے مقابلے میں چونا
پتھر کے اور غار دیکھنے کا حالیہ تجربہ پورتو ریکو میں اریسیبو نامی قصبے کے قریب
کاموءی میں ہوا۔ ہمیں غار کی سیر کرنے کے لیے ٹکٹ لینے پڑے اور غار میں گھسنے سے
پہلے ایک فلم دکھاءی گءی جس میں بتایا گیا کہ ہر چکندہ دراصل فطرت کی سینکڑوں سال
کی کارواءی کا نتیجہ ہے اس لیے کسی بھی چکندے یا چکیدے کو ہرگز ہاتھ نہ
لگاءیں۔ کاموءی کے ان غاروں سے پورتو ریکو
کی حکومت بیس لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ بناتی ہے۔ جب کہ لاحوت لامکاں کے غاروں سے
رقم بنانے کا موقع بلوچستان کی حکومت نے گنواں دیا ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ
غربت اپنے وساءل کے غلط استعمال یا ان وساءل کو ضاءع کرنے سے حاصل ہوتی ہے؟
چونے کے غار کی تصاویر یہاں ملاحظہ
فرماءیے: