Monday, August 06, 2012

 

پلوٹو اور پورتوریکو، اور ورجن جزیرے





جولاءی اٹھاءیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چھیانوے


 پلوٹو اور پورتوریکو، اور ورجن جزیرے

علی حسن سمندطور


ہمارے نظام شمسی کے نو سیارے ہیں، اگر اس خاندان میں آپ سیارہ پلوٹو کو جوڑیں تو۔ ان تمام سیاروں کا تعلق سورج ماں سے۔ کچھ بچے اس ماں کے قریب ہیں اور کچھ قدرے فاصلے پہ۔ ان سیاروں میں پلوٹو سب سے زیادہ فاصلے پہ ہے۔ یہ سیارہ سورج سے اس قدر دور ہے کہ سیارہ زمین تک سورج کی جو روشنی قریبا آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے وہ پلوٹو تک قریبا چھ گھنٹے میں پہنچتی ہے۔   یہ سورج کا وہ بچہ ہے جو باقی خاندان والوں سے اس قدر دور ہے کہ بقیہ خاندان شک ہی کرتا ہے کہ نہ جانے یہ ہمارے خاندان کا حصہ ہے بھی یا نہیں۔  جہاں قربت اور دوری کی ایسی مثالیں انسانی خاندانوں میں نظر آتی ہیں وہیں ملکوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ ہر ملک کا ایک فکری مرکز ہوتا ہے؛ اس مرکز پہ وہ لوگ رہتے ہیں جنہوں نے ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ ملک کے وہ لوگ جو اس فکری مرکز کے قریب رہتے ہیں، اس ملک اور قوم کے تعلق کو زیادہ گہراءی سے محسوس کرتے ہیں۔ جغرافیاءی فاصلہ بڑھنے کے ساتھ کسی علاقے کے لوگوں میں ملک اور قوم سے متعلق فکری احساس کمزور پڑتا جاتا ہے۔ پورتو ریکو امریکہ کا وہ حصہ ہے جو اڑتالیس جڑی ریاستوں سے دور سمندر میں واقع ایک جزیرہ ہے اور اسی لیے وسیع ترامریکہ میں رہنے والے لوگوں کو پورتوریکو کو امریکہ کا حصہ سمجھنا شاید اتنا ہی دشوار لگتا ہو جتنا پورتوریکو میں رہنے والے لوگوں کو اپنے آپ کو امریکی سمجھنا۔ پورتوریکو آنے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا پورتوریکو میں بینک آف امریکہ کی شاخیں ہیں۔ کسی آن لاءن فورم میں ایک مبصر نے اس سوال کا جواب یہ دیا تھا کہ بینک آف امریکہ صرف امریکہ میں ہے، اور اس لیے پورتوریکو میں اس بینک کی کوءی شاخ نہیں ہے۔ اس سیانے کو یہ خبر نہیں تھی کہ پورتوریکو امریکہ کا ہی حصہ ہے۔ پورتو ریکو صرف جغرافیے ہی میں وسیع تر امریکہ سے دور نہیں ہے۔ ایسے تو الاسکا بھی امریکہ سے دور ہے۔ ہواءی اور زیادہ دور ہے۔ اور گوام تو بالکل ہی ایشیا میں ہے۔ مگر پورتو ریکو الاسکا، ہواءی، اور گوام سے اس طرح مختلف ہے کہ یہاں انگریزی کی جگہ ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ پورتو ریکو ایک عرصہ ہسپانوی تسلط میں رہا ہے اور اسی لیے یہاں کے رہنے والے آج بھی ہسپانیہ اور نءی دنیا کے ہسپانوی علاقوں سے اپنا ثقافتی تعلق اپنے امریکی تعلق کے بارے میں زیادہ گہراءی سے محسوس کرتے ہیں۔  پورتو ریکو ہی کی طرح ورجن جزیرے بھی ہیں۔ ان جزیروں میں کچھ امریکہ کی ملکیت ہیں اور کچھ برطانیہ کی۔ ورجن جزیروں کی خاص بات یہ ہے کہ وسیع تر امریکہ کے مقابلے میں یہاں ٹریفک باءیں ہاتھ پہ چلتی ہے۔ امریکی ورجن جزیروں میں سب سے اہم جزیرہ سان ٹامس ہے۔ یہ کالم اسی جزیرے سے لکھا جا رہا ہے۔ پورتو ریکو کے شہر سان ہوان سے سان ٹامس کا ہواءی سفر آدھے گھنٹے کا ہے۔ صبح جہاز سان ہوان سے اڑا تو پورتوریکو کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلا اور پھر سمندر پہ پرواز کرتا ہوا ذرا سی دیر میں سان ٹامس پہنچ گیا۔  سان ٹامس پہنچ کر گاڑی کراءے پہ لی اور بچوں کو کام پہ لگا دیا کہ کچھ کچھ دیر میں نعرہ لگاتے رہیں کہ "گاڑی الٹے ہاتھ پہ چلاءیں"۔ بچوں کا یہ نعرہ کءی جگہ کام آیا کہ گاڑی سڑک کے داءیں طرف چلانے کی عادت بہت پختہ ہو گءی ہے اور دایاں یا بایاں موڑ مڑتے ہوءے گاڑی بے اختیار طور پہ سیدھے ہاتھ پہ آجاتی ہے۔ سان ٹامس کا سیاحتی مواد دیکھیں تو خیال ہوگا کہ یہاں ہنستے مسکراتے، سمندر میں نہاتے، دھوپ سینکتے صرف سفید فام لوگ ہی رہتے ہوں گے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ مقامی آبادی سیاہ فام لوگوں پہ مشتمل ہے۔ یہ لوگ نءی دنیا کے دور غلامی میں افریقہ سے لاءے گءے تھے۔ غلامی نے ان لوگوں پہ اس قدر کاری ضرب لگاءی کہ غلامی ختم ہونے کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ لوگ تعلیم میں پیچھے ہیں اور معاشی غلامی سے باہر نہیں نکل پاءے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیے تو پوری دنیا ہی اب تک نوآبادیاتی نظام کے اثر سے باہر نہیں نکل پاءی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے دوران دنیا کا جو سیاسی نقشہ بنایا گیا تھا وہ بڑی حد تک اب تک برقرار ہے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?