Monday, August 06, 2012

 

دہری شہریت، دہری وفاداری؟

جولاءی آٹھ، دو ہزار بارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ترانوے

 دہری شہریت، دہری وفاداری؟



عدلیہ اور ایوان صدر کے درمیان جنگ ایک عرصے سے افتخار محمد چوہدری اور آصف علی زرداری کے درمیان ذاتی لڑاءی کے طور پہ دیکھی جارہی ہے۔ افتخار چوہدری چاہتے ہیں کہ آصف زرداری پہ رشوت کے مقدمات چلاءے جاءیں مگر کیا کیجیے کہ ایوان صدر پہنچ کر زرداری تہہ در تہہ قانونی پیچیدگیوں کے پیچھے جا چھپے ہیں۔ اب افتخار چوہدری جس جس زاویے سے ایوان صدر پہ وار کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔
آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کو دہری شہریت کے قانونی شکنجے میں پھنسا کر نوکری سے فارغ کرنا بھی ایسا ہی ایک وار ہے۔ قصہ محمود اختر نقوی ایڈووکیٹ کی عدالت میں درخواست سے شروع ہوا۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ فرح ناز اصفہانی اور رحمن ملک سمیت بہت سے منتخب نماءندے اپنے عہدوں کے اہل نہیں ہیں کیونکہ آءین کے مطابق ان عہدوں پہ صرف ایسے لوگ فاءز ہو سکتے ہیں جو صرف اور صرف پاکستانی شہری ہوں، جب کہ فرح ناز اصفہانی پاکستانی ہونے کے ساتھ امریکی شہریت رکھتی ہیں، رحمن ملک پاکستانی ہونے کے علاوہ برطانوی شہری بھی ہیں، اور اسی طرح کی دہری شہریت درخواست میں شامل دوسرے افراد کی بھی ہے۔  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت درخواست دہندہ سے کہتی کہ اس کے پاس کیا ثبوت ہے کہ درج بالا افراد واقعی دہری شہریت رکھتے ہیں۔ مگر عدالت نے محمود اختر نقوی کی درخواست قبول کی اور دہری شہریت کے حامل منتخب نماءندوں کو حکم دیا کہ وہ ثابت کریں کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو وہ اپنے عہدوں سے فارغ ہیں۔ فرح ناز اصفہانی نے خاموشی سے فرار کا راستہ اختیار کیا جب کہ رحمن ملک کے وکیل عدالت سے لڑ رہے ہیں کہ ان کا موکل اپنی برطانوی شہریت منسوخ کر چکا ہے۔ اور حکومت عدالت عالیہ کے اس وار سے پریشان ہو کر آءین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تاکہ دہری شہریت کے حامل پاکستانی انتخابات بھی لڑ سکیں اور اعلی حکومتی عہدوں پہ فاءز بھی ہو سکیں۔
اس قانونی جھڑپ سے ملک میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ پاکستان سے باہر بسنے والے پچاس لاکھ سے اوپر پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان کیسا سلوک کرے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ انتخابات بھی لڑیں اور سرکاری عہدے بھی رکھ سکیں وہ کہہ رہے ہیں کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، کیا وہ یہ حق نہیں رکھتے کہ پاکستان کو اپنا وطن سمجھ کر وہاں کے ہر معاملے میں شریک ہوں؟ جب کہ جو لوگ دہری شہریت والے پاکستانیوں سے متعلق آءینی شق کو جوں کا توں دیکھنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ دہری شہریت سے دہری وفاداری وابستہ ہے۔ دہری وفاداریاں رکھنے والے لوگ ہر موقع پہ پاکستان کا مفاد عزیز نہ رکھیں گے، اس لیے ان لوگوں سے متعلق آءینی شق کے تحفظات بجا ہیں۔
غور سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی دو بڑے حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو مشرق وسطی میں کام کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو مغربی ممالک میں جا بسے ہیں۔ جو لوگ مشرق وسطی میں کام کرتے ہیں وہ  بالعموم چاہے کتنا عرصہ بھی ان ملکوں میں رہیں وہاں کی شہریت حاصل نہیں کر سکتے۔ جب کہ مغربی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو یہ سہولت ہے کہ وہ ان ممالک کے شہری بن سکتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں رقم کی ترسیل کا تعلق ہے اس زرمبادلہ کا بڑا حصہ مشرق وسطی کے پاکستانیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یا اس بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بیرون ملک بسنے والے وہ پاکستانی جو پاکستان کو سب سے زیادہ مالی فاءدہ پہنچا رہے ہیں دہری شہریت کے حامل نہیں ہیں۔ پھر ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ مواصلات میں انقلاب کے بعد ملک اور قوم سے وفاداری بتدریج بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔  پرانے وقتوں میں لوگ ظالم بادشاہ کے چنگل سے بھاگتے تھے اور اچھے بادشاہ کی راج دہانی میں پہنچ کر سکون کا سانس لیتے تھے۔ آج بھی لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں بسنے والے پاکستانی پاکستان سے نہیں بھاگے ہیں، وہ پاکستان کے خراب نظام سے بھاگے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے ہمدرد ہیں اور پاکستان کا نظام تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو آءین کے ذریعے سرکاری عہدوں سے دور رکھنا شاید بہت دانشمندانہ قدم نہیں ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں جمہوریت ہے۔ پاکستان میں عوام کی مرضی سے حکومت بنی ہے اور آءندہ بھی بنے گی۔ چنانچہ ہم آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمانی کارواءی کے ذریعے آءین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر کسی وجہ سے حکومت کا یہ قدم عوام کو قبول نہیں ہے تو اگلے انتخابات کے بعد نءے منتخب نماءندے سامنے آءیں گے اور وہ ایک اور پارلیمانی کارواءی کے ذریعے پہلے کی جانے والی ترمیم منسوخ کرواسکیں گے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?