Saturday, October 08, 2022

 

سفر ایران کے

 
اپریل گیارہ،
1995
ہم زاہدان سے کرمان کے لیے روانہ ہوئے تو بس میں گنتی کے پندرہ، بیس مسافر تھے۔
یہ پورے دن کا سفر تھا۔ مجھے بس اور ٹرین کا طویل سفر پسند ہے بشرطکہ وہ سفر دن کی روشنی میں کیا جائے۔ آپ کھڑکی سے لگ کر بیٹھیں اور باہر مستقل بدلتے نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

ہم دو دن پہلے زاہدان پہنچے تھے۔ یعنی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز تربت اور پھر دالبندین اور پھر دالبندین سے ٹیکسی کے طور پہ چلنے والے ٹویوٹا ٹرک کے ذریعے تفتان۔ تفتان پہ موجود پاکستانی چوکی پہ کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد پیدل ایرانی سرحدی چوکی، میرجاوہ، اور وہاں پاسپورٹ میں دخول کی مہر لگوانے کے بعد بس سے زاہدان۔

دالبندین ہوائی اڈے سے تفتان جانے والے ڈرائیور نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کے وسیع خاندان کے افراد ایران پاکستان سرحد کے دونوں طرف رہتے تھے اور اسے سرحد عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ درکار نہ تھا۔ دالبندین سے تفتان جاتے ہوئے ڈرائیور کا ایک دوست بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ بنگالی تھا۔ دالبندین سے تفتان کے راستے میں حد نظر کوئی آبادی، کوئی سبزہ نظر نہ آتا تھا۔ جگہ جگہ تپتی مٹی پہ کالے پائوڈر کی ایک تہہ موجود تھی۔ نہ جانے وہ کالا پائوڈر کہاں سے آیا تھا، یا کس قسم کی معدنیات تھیں؟

ہم راستے میں نوک کنڈی میں تھوڑی دیر کے لیے رکے جہاں ڈرائیور اور اس کے دوست نے کھانا کھایا تھا۔ کھانے کا بل ہمارے ذمے تھا۔ نوک کنڈی میں قابل ذکر ہندو آبادی بھی موجود تھی جو دکانوں کے ناموں سے ظاہر تھی۔

پاکستان سے ایران میں داخل ہوں تو آپ کو اچھا احساس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کسی نسبتاً تمیزدار جگہ آگئے ہیں۔ زاہدان میں ہمارا قیام خاور ہوٹل میں تھا جہاں استقبالیے پہ موجود نوجوان کو انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا۔ شاید وہ سیاحوں سے بات کر کے انگریزی کی مشق کررہا تھا۔

زاہدان میں ایک ٹاٹا ٹرک دیکھ کو ہم خوش ہوئے۔ ٹاٹا کے ٹرک افریقہ میں عام طور سے نظر آتے ہیں مگر ہمیں افریقہ سے آئے ایک عرصہ ہو چلا تھا۔ زاہدان میں نل سے آنے والا پانی ذائقے میں کڑوا تھا اور پینے کے قابل نہیں تھا۔ شاید تہذیب کی پہلی سیڑھی یہی ہے کہ ملک وہاں پہنچ جائے کہ اپنے شہریوں کو پینے کے قابل پانی نل سے فراہم کرسکے۔ پھر تہذیب کی ایک اور منزل کا مشاہدہ سڑکوں پہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کیسے رواں ہے، یہ عام لوگوں کی تعلیم اور سمجھ بوجھ ظاہر کرتی ہے۔ ٹریفک کے معاملے میں زاہدان پاکستان کے شہروں سے مختلف نہ تھا۔ اگر کوئی تبدیلی تھی تو وہ یہ کہ سڑکوں پہ کوئی گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی نظر نہیں آتی تھی۔ مگر ایران اتنا ترقی یافتہ ضرور تھا کہ وہاں سڑک پہ ملنے والی اشیائے خوردونوش صاف ستھری تھیں اور انہیں کھا کر ہم بیمار نہیں پڑے۔

میں ایران کا سفر ایک خاص وجہ سے کررہا تھا۔ میں کراچی سے دور جانا چاہتا تھا۔ دراصل مجھے ساری زندگی یہ گمان رہا ہے کہ میں لطیف بادلوں پہ سوار ہوں، میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کیا ہے، اور مجھے یہ خیال رہا ہے کہ جیسے خدا کی مرضی میری ذات میں، میرے ہر فیصلے میں حلول ہے۔ مگر پچھلے نومبر سے کراچی میں قتل و غارت گری کا جو طوفان آیا تھا اس نے میرے وجود کو بھاری کردیا تھا۔ خوف کے اس ماحول میں مجھے یہ لگنے لگا تھا جیسے میری روح کی آزادی سلب کی جارہی ہو۔ ہر بلکتی ماں کے آنسوئوں کے ساتھ میری آنکھ سے بھی آنسو ٹپکتے۔ میں نے بارہا اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ سب کیوں ہورہا تھا اور کب تک ہوتا رہے گا۔ مگر مجھے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا اور مجھے لگا کہ شہر میں جاری خوں ریزی میرے وجود میں سرائیت کر کے مجھے ایک خونیں درندہ بنا دے گی۔ میں خود اپنے آپ سے بہت دور چلا جائوں گا۔ مجھے یہ دوری گوارا نہ تھی اور ماحول کی تبدیلی کے لیے میں ایران میں سفر کررہا تھا۔

زاہدان سے کرمان کا سات گھنٹے کا سفر چار سو پچپن تومان میں برا سودا نہ تھا اور میں کھڑکی سے لگا بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا۔  بس ابھی دو گھنٹے ہی چلی ہوگی کہ آہستہ ہونا شروع ہوئی اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ وہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔  میں نے تجسس میں کھڑکی سے آگے کی طرف دیکھا۔ ہم ایک ناکے پہ پہنچ گئے تھے۔ پاسداران انقلاب کے مسلح جوان بس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حکم ہوا کہ سارے مسافر مع سامان بس سے اتر جائیں۔ ہم اپنا اپنا سامان لے کر بس سے اتر گئے اور حکم کے مطابق ایک قطار میں کھڑے ہونے لگے۔ ہمارا نامانوس چہرہ دیکھ کر ایک سپاہی نے تعجب سے پوچھا۔
شما بلوچ ہستید؟
ہم نے نفی میں جواب دیا اور وضاحت پیش کی کہ ہم خارجی ہیں، سیاحت کے لیے کرمان جارہے ہیں۔

اب سب لوگوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ سامان کے ساتھ جسمانی بھی۔ باہر مسافروں کی تلاشی ہورہی تھی اور بس کے اندر دو سپاہی نشستوں کے نیچے جھانک رہے تھے اور بالا خانوں میں ہاتھ ڈال کر اطمینان کررہے تھے وہاں کوئی سامان موجود نہیں تھا۔  غیر بلوچ ہونے کی وجہ سے ہماری رسمی تلاشی ہوئی جب کہ بس کے بلوچ مسافر خصوصی تلاشی کا نشانہ بنے۔ مگر اچھا ہوا کہ بس کے تمام مسافر جانچ کا یہ امتحان پاس کرگئے۔ کسی کے پاس سے کوئی اسلحہ، کوئی آتش گیر مواد برآمد نہ ہوا۔ مسافر پھر سے بس میں سوار ہونا شروع ہوئے۔ جن بلوچ نوجوانوں کی زوردار تلاشی ہوئی تھی وہ اس ہتک آمیز سلوک پہ خوش نہ تھے۔ وہ کسی قدر خفت سے، دوسرے مسافروں سے نظریں چراتے ہوئے اپنی سیٹوں پہ بیٹھ گئے۔ بس پھر سے اسٹارٹ ہوئی اور اپنی منزل کی طرف چلنا شروع ہوگئی۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?