Monday, October 22, 2012

 

سچی اسلامی ریاست کا خواب




اکتوبر باءیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو آٹھ


 سچی اسلامی ریاست کا خواب





ملالہ پہ حملے کے بعد اب سب پہ واضح ہو گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو جنگ جاری ہے وہ دراصل پاکستان کی روح کی جنگ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں آءندہ کس طرح کی حکومت قاءم ہوگی۔ اس سلسلے میں کءی اصطلاحات بغیر وضاحت کے استعمال کی جا رہی ہیں۔ سیکولر حکومت، اسلامی حکومت، شریعت، نظام مصطفی۔  کیونکہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لیے اسلامی ریاست کا خیال بہت سے لوگوں کو بھاتا ہے۔ اسلامی حکومت کا نعرہ سن کر بہت سے لوگ جذبات میں بہہ جاتے ہیں اور بغیر یہ سوال کیے کہ اسلامی نظام کا کیا مطلب ہے اسلام کا نعرہ لگانے والوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ اس وقت دیوبندی اسلام سے لے کر آغا خانی مسلک تک ہر طرح کے اسلام موجود ہیں، جن کے ماننے والے ایک دوسرے کو مستقل کافر قرار دیتے رہتے ہیں۔ کوءی یہ سوال نہیں کرتا کہ 'نظام مصطفی' میں کس برانڈ کا اسلام ہم پہ مسلط کیا جاءے گا۔ سب پہ واضح ہو کہ آج جو لوگ شریعت کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ ہم پہ اپنا من پسند اسلام لاگو کرنا چاہتے ہیں؛ وہ اسلام جس کے یہ ٹھیکے دار ہیں اور جس کے حساب سے صرف یہ صراط مستقیم پہ ہیں اور باقی سب گمراہ ہیں۔
بعض پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی نادانی میں عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی صحافی انصار عباسی نے اپنے حالیہ کالم میں تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان سیکولرزم کے نشانہ پہ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کی گءی تو یہ ملک کو توڑنے کی ایک سنگین سازش ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام ہی پاکستان کی وحدت کو قاءم رکھے ہوءے ہے اور اسلامی نظام ہی پاکستان کو یکجا رکھ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ انصار عباسی صاحب کو سنہ اکہتر کا سقوط پاکستان کا واقعہ یاد نہ ہو کہ اس وقت وہ صرف چھ سال کے تھے، مگر تاریخ کا مطالعہ کرنے میں کیا حرج ہے؟ سقوط ڈھاکہ نے ثابت کیا کہ اسلام کا بندھن کسی ایسے ملک کو یکجا نہیں رکھ سکتا جہاں انصاف نہ ہو۔ اگر کوءی ملک منصف ہے، وہاں امن و امان ہے، اور قانون ہر شہری پہ یکسا طور پہ لاگو ہوتا ہے تو وہ معاشرہ بہت مضبوط معاشرہ ہے اور لوگ اس جگہ پہ رہنا چاہیں گے۔ جہاں معاشرہ لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کرتا وہاں لوگ خود بخود اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور کسی جغرافیاءی خطے میں اکثریت رکھنے والے لوگ اپنے خطے کی آزادی کی جنگ لڑتے ہیں کہ انہیں خیال ہوتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد وہ اپنے لیے ایک بہتر منصف معاشرہ قاءم کر سکیں گے۔
پاکستان کے ان تمام لوگوں کو جو جدید دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ انہیں طالبان کا، جماعت اسلامی کا، جمعیت علماءے اسلام کا اسلام قطعا قبول نہیں جس میں محض اسلام کا لیبل استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جو اسلام کی روح کے قریب تر ہو۔ اور ہمارے نزدیک وہ اسلامی روح تین ستونوں پہ قاءم ہے: عدل پہ، علم کی جستجو پہ، اور ماضی کے بجاءے موجودہ زمانے کے ساتھ چلنے کی خواہش پہ۔  ہم ایسے عادل پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں جہاں کے قانون سب پہ مساوی طور پہ لاگو ہوں۔ جہاں کسی مذہب، کسی منصب، کسی خاندانی تعلق، کسی زبان، کسی جغرافیاءی وابستگی کی بنیاد پہ کسی سے افضل یا احقر سلوک نہ کیا جاءے۔ ہم ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں علم کو ترقی کی بنیاد گردانا جاءے اور جہاں لوگ علم  و تحقیق میں زمانے کے ساتھ یا زمانے سے آگے ہوں۔ اور ہم ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جو جدید دنیا کے عمرانی رجحانات کے ساتھ چلے۔
ہم جس اسلامی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں اس میں ملک کے نام کے ساتھ اسلام کا لیبل لگانے کی کوءی ضرورت نہیں۔  ہم ایسے پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں جہاں مسلمان اپنے اچھے اعمال سے اپنے ساتھی مسلمانوں اور کفار کو دین حق کی طرف ماءل کریں، نہ کہ ڈنڈے کے زور پہ۔  ہم سعودی عرب کے نام نہاد اسلام کو شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم ایران کےنام نہاد اسلام کو شدید نا پاسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم ملاءیشیا جیسا اسلامی معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں مساجد بھی کھلی ہیں اور مے خانے بھی۔ جس کا دل چاہے نماز پڑھے، جوچاہے شراب پیے۔ ہم انسان کے ان انفرادی افعال کی جزا و سزا روز آخرت کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں جن افعال سے دوسرے متاثر نہ ہوں۔
 

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?