Thursday, October 04, 2012

 

قاتل کا چہرہ دکھاءو


ستمبر تیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پانچ



 قاتل کا چہرہ دکھاءو


وہ اپنے دونوں بچوں کو اسکول چھوڑ کرواپس پلٹا۔ گھر کے دروازے پہ پہنچ کر اسے خیال آیا کہ وہ چابی ساتھ لے جانا بھول گیا تھا۔ مگر یہ کوءی تشویش کی بات نہ تھی۔ اس کی بیوی گھر پہ تھی، وہ دروازہ کھول دے گی۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جس وقت اس کی بیوی نے دروازہ کھولا ٹھیک اسی وقت ایک موٹرساءیکل گھر کے سامنے آکر رکی۔ اچانک تین فاءر ہوءے۔ وہ خون میں لت پت اپنی بیوی کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ موٹرساءیکل تیزی سے آگے بڑھ گءی۔ اس کی بیوی ہزیانی آواز میں چیخیں مارنے لگی۔ لوگ مدد کو دوڑے مگر وہ اسپتال پہنچاءے جانے سے بہت پہلے دم توڑ چکا تھا۔ گھر میں صف ماتم بچھ گیا۔ سب سے مشکل کام دو چھوٹے بچوں کو یہ سمجھانا تھا کہ ان کا باپ اب انہیں کیوں کبھی نظر نہیں آءے گا، کہ ان کا باپ مر چکا ہے۔ اور ان معصوم بچوں کو یہ سمجھانا کہ ان کے باپ کی کسی سے کوءی ذاتی دشمنی نہیں تھی؛ اس کا قصور یہ تھا کہ اس کا نام حیدر رضوی تھا اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے نام والے تمام لوگوں کو مارنا عین ثواب ہے۔ بس چپکے سے پیچھے سے آکر وار کرو، ان کی جان لو، غازی کہلواءو، اور جنت میں اپنا مقام بنا لو۔

پاکستان میں شیعہ افراد کی تین بڑی قتل گاہیں ہیں: کراچی، کوءٹہ، اور گلگت۔  ایسے قتل آءے دن ہو رہے ہیں مگر شاذ و نادر ہی کوءی قاتل پکڑا جاتا ہے۔ میڈیا کے نزدیک یہ قتل محض فرقہ وارانہ فسادات ہیں اور ہر مقتول محض شماریات کی ایک معمولی کڑی۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کسی گروہ کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا مگر پاکستان میں ایسی خونریزی کوءی خاص بات نہیں، وہاں کاروبار زندگی معمول کے حساب سے جاری ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کی عمومی بے حسی تین ستونوں پہ قاءم ہے۔ اول، مذہبی راہ نماءوں کی خاموشی ہے۔ یقینا ایسے سنی علماءے دین ہیں جنہوں نے شیعہ مسلک کے افراد کے قتل کی مذمت کی ہے مگر یہ مذمت دبے دبے الفاظ میں ہوتی نظر آتی ہے۔  کہاں ہیں مفتی منیب الرحمان؟ کہاں ہیں مولانا راغب نعیمی اور مولانا تنویرالحق تھانوی اور وہ تمام علماءے دین جو مغرب کے سامنے اسلام کی امن دوستی ثابت کرنے کے لیے دلاءل دیتے ہیں کہ اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟  وہ چھپ کر وار کرنے والے ان قاتلوں کے خلاف سخت زبان کیوں استعمال نہیں کرتے؟ قاتلوں کا ایسا گروہ ہے جسے سمجھا دیا گیا ہے کہ تم اسلام کے اصل نماءندے ہو، جو لوگ تمھارے اصل اسلام سے جس قدر دور ہیں ان کا قتل تم پہ اتنا ہی جاءز ہے۔ تم ہو برگزیدہ ہستیوں کی ناموس کی حفاظت کرنے والے۔ یہ دوسرے لوگ ان مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں، اس لیے ان لوگوں کا قتل تم پہ واجب ہے۔ جاءو اور وار کرو۔  کہاں ہیں وہ علماءے دین جو ان بھٹک جانے والے لوگوں کے کچے ذہنوں کو جھنجھوڑیں؟

اور کہاں ہیں شیعہ علما؟  یہ اپنے لوگوں کو اس قتل عام سے بچنے کی حکمت عملی کیوں نہیں بتاتے؟  یہ وہ قیادت کیوں فراہم نہیں کرتے جس کے زیر اثر لوگ اپنے محلوں، اپنے لوگوں کو محفوظ کر سکیں؟

شمار دوءم پاکستان کی افسوس ناک صورت حال کی ذمہ داری پاکستان کی سیاسی قیادت پہ ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف ایک عوامی تحریک بن کر سامنے آءی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ تحریک انصاف کچھ کرتی نظر نہیں آتی۔ یہ صرف الیکشن کا انتظار کر رہی ہے۔ اگر لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر جارہے ہیں تو شاید اس لیے بھی کیونکہ ان کو کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اگر لوگوں کی اکثریت واقعی تحریک انصاف کے ساتھ ہے تو پھر الیکشن کا اور الیکشن میں اکثریت کی تاءید کی رسومات کا انتظار کیوں؟  اس حکومتی مشینری کو استعمال میں لانے کا انتظار کیوں جو پہلے ہی ناکارہ ہے اور جس کو صحیح کرنے کے لیے ایک لمبی مدت درکار ہوگی؟ جن جگہوں پہ اکثریت ہے وہاں قاءم کر لو اپنی مرضی کا نظام اور بنا دو ان علاقوں کو ایسی مثال کہ پورا ملک دیکھ لے کہ تم ملک میں کس قسم کی تبدیلیاں لانا چاہتے ہو۔

بے حسی کا تیسرا اور سب سے بڑا ستون پاکستان کے عوام ہیں جو ہرطرح کا ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ شہروں میں خوف کا عالم ہے۔ لوگ جب صبح کام کے لیے نکلتے ہیں تو ڈرتے ہیں کہ نہ جانے واپس گھر آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔  حکومتی سطح پہ معاشرے کا نظام پہلے ہی کچا تھا پھر اس کے اوپر اسلحے کی فراوانی ہے چنانچہ قانون شکن دندناتے پھر رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے عام لوگ اپنی طاقت نہیں سمجھتے اور خوف کے اس ماحول میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ غصے میں کیوں نہیں آجاتے؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ بس بہت ہوگءی، ہم حکومت کی ناکامی سمجھ گءے ہیں، اب جس قدر ممکن ہو انتظامات اپنے ہاتھوں میں لینے کا وقت آگیا ہے، ہم خود اپنے طور پہ ایسے کام کریں گے کہ ہمارے محلے محفوظ ہوجاءیں؟ کسی کی مجال نہ ہو کہ یہاں چپکے سے آکر کسی کو مار کر چلا جاءے۔

بڑی تعداد میں آزادی سے گھومنے کے باوجود قاتل آج بھی اپنا منہ چھپانا چاہتے ہیں۔ قاتل نہیں چاہتا کہ اس کی شناخت مشتہر ہو۔ اور یہی بات لوگوں کو گہراءی سے سمجھنی چاہیے۔ لوگ اپنی حفاظت کا ہر وہ کام کریں جس سے قاتل کے چہرے سے نقاب اٹھ جاءے اور وہ چہرہ وضاحت سے سب کو نظر آجاءے۔ پیغام یہ ہو کہ تم آکر ہمیں مار تو سکتے ہو مگر ہمیں مارنے کے بعد تم چھپ نہیں سکتے۔ عین ممکن ہے کہ تم پکڑے جانے کے باوجود عدالت سے بری ہوجاءو مگر ہم تمھاری تصویر ہر چوراہے پہ لگادیں گے کہ زمانے والو، دیکھو، یہ قاتل ہے، اور یہ اس وقت کی تصویر ہے جب اس نے قتل کیا تھا۔ آج سرویلنس کیمرے کی ٹیکنالوجی اس جگہ پہنچ گءی ہے جہاں بہت معمولی رقم سے آپ اپنے اطراف پہ بھرپور نظر رکھ سکتے ہیں اور ہر واقعے کو ٹیپ پہ مہینوں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں  لوگ اپنے پیاروں کے کفن دفن کے انتظامات کے لیے رقم خرچ کرنے کو تیار ہیں مگر تقریبا اتنی ہی رقم سرویلنس کیمروں پہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہر محلے میں لوگ سرویلنس کا ایسا نظام خود اپنے طور پہ نہیں چلاتے؟  پاکستان کے لوگو، جاگو، کہ اب انتظار کا وقت نہیں ہے، اب کام کا وقت ہے۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?