Tuesday, October 16, 2012

 

سفر کی ڈاءری




اکتوبر چودہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو سات



 سفر کی ڈاءری


اکتوبر دس کی صبح جب میں کیل ٹرین کے اسٹیشن پہ کھڑی اءیر پورٹ فلاءیر میں داخل ہوا تو وہاں ہر شخص کو اپنے پی ڈی اے سے جوجتا پایا۔ آج سے مشکل سے دس بارہ سال پہلے آپ انتظار کرتے لوگوں کو کتابیں، اخبارات، اور جراءد پڑھتا دیکھتے تھے۔ اب یہی لوگ اپنے آءی فون میں مشغول ہوتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں عوامی ٹرانسپورٹیشن کا نظام بہت اچھا نہیں ہے اور گاڑی رکھے بغیر آپ کا گزارہ مشکل ہے مگر بے ایریا کے دونوں بڑے ہواءی اڈوں یعنی سان فرانسسکو اور سان ہوزے تک عوامی ٹرانسپورٹیشن کی سہولت موجود ہے۔ اگر مجھے سان فرانسسکو کے ہواءی اڈے سے اڑنا ہو تو میں کیل ٹرین اور بارٹ استعمال کرتے ہوءے باآسانی ہواءی اڈے تک پہنچ جاتا ہوں۔ سان ہوزے ہواءی اڈے کا معاملہ اور بھی آسان ہے۔ اگر میں کیل ٹرین کے سانٹا کلارا اسٹیشن تک پہنچ جاءوں تو وہاں سے ہر دس منٹ پہ ایک بس اءیرپورٹ فلاءیر شٹل کے نام سے چلتی ہے جو آپ کو مفت ہواءی اڈے پہنچا دیتی ہے۔  مگر کتنا ہی اچھا ہو اگر آپ ساءیکل سے ہواءی اڈے پہنچ سکیں؟ ساءیکل سے ہواءی اڈے جانے میں ان لوگوں کو یقینا مسءلہ ہوگا جو سوٹ کیس کے ساتھ سفر کرتے ہیں مگر میرے جیسے ہلکے پھلکے مسافر جو کمر پہ پشتی بستہ باندھ کر چل دیتے ہیں یقینا ساءیکل سے ہواءی اڈے جانے میں بہت آسانی محسوس کریں گے۔ آپ ساءیکل سے ہواءی اڈے پہنچیں، ساءکل کو ایک ریک سے تالے سے لگا کر جہاز میں چڑھ جاءیں۔ واپس آءیں تو ساءیکل پہ بیٹھ کر گھر آجاءیں۔ مجھے بے ایریا میں ساءیکل چلانے میں تکلیف یہ ہوتی ہے کہ اکثر و بیشتر آپ کے برابر سے گاڑیاں نہایت تیز رفتاری سے گزر رہی ہوتی ہیں اور اس بات کا عین امکان ہوتا ہے کہ کسی گاڑی کے ذرا سے بہک جانے سے آپ کا کام تمام ہو جاءے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ساءیکل راستے اور پیدل راستے سڑکوں سے بالکل الگ ہٹ کر بنے ہوں اور آپ ان راستوں پہ چلتے یا ساءیکل چلاتے ہوءے کہیں بھی پہنچ جاءیں؟  مجھے یقین ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں اور ساءیکل چلانے والوں کے لیے ایسے محفوظ راستے بناءے جاءیں تو میرے جیسے بہت سے لوگ اپنی گاڑیاں بیچ کر صرف ساءیکل پہ گزارا کریں گے۔ دو دن بعد واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر میں کانگریس مین ماءک ہونڈا کے دفتر گیا۔ آج کل کانگریس کی چھٹی ہے۔ اسی لیے ماءک ہونڈا بھی اپنے دفتر میں نہیں تھے۔ خیال تھا کہ ماءک ہونڈا سے پیدل اور ساءیکل چلانے والوں کے لیے بہتر راستوں کے موضوع پہ بات کروں گا۔ ہونڈا کی غیر موجودگی میں ان کی کرسی پہ بیٹھ کر تصویر کھنچوا کر واپس آگیا۔
 نوگیارہ کے فورا بعد ہواءی اڈے پہ سیکیورٹی کے انتظامات اس قدر سخت ہو گءے تھے کہ سیکیورٹی سے گزرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ کر کے اس عمل میں بہتری آءی اور اب اسکین کی وہ مشینیں آگءی ہیں جن کے سامنے پہنچ کر آپ ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک اسکینر باءیں سے داءیں چلتا ہے، دور بیٹھا کوءی شخص آپ کو برہنہ دیکھتا ہے، اور اگر آپ نے پستول یا آتش گیر مادہ نہ چھپایا ہوا ہو تو آپ کو آگے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔
سان ہوزے کے ہواءی اڈے پہ انٹرنیٹ کی سہولت مفت موجود ہے۔ میں نے اس سہولت سے فاءدہ اٹھاتے ہوءے جہاز جانے کے آخری اعلان تک کام کیا اور پھر گیٹ بند ہونے سے پہلے جہاز میں چڑھ گیا۔
جہاز پہ اتنی دیر سے چڑھنے کا نقصان یہ ہوا کہ تمام بالا خانے بھر چکے تھے۔ میں نے اپنی نشست سے اوپر بالاخانہ کھولنے کی کوشش کی تو قریب موجود پرسر نے کسی قدر ترشی سے کہا، "آل آف دم آر فل، سر۔" میرے دل میں آیا کہ اس سے پوچھوں کہ کیا میرا بستہ تم اپنے سر پہ اٹھا کر لے جاءو گے۔ مجھے تنبیہ کرنے کے بعد پھر وہ اچانک میری مدد کو آیا۔ شاید اسے خیال آیا تھا کہ میرا مسءلہ حل کیے بغیر جہاز نہ چل پاءے گا۔ اس نے کچھ فاصلے پہ موجود وہ بالاخانہ کھولا جس میں عملے کا سامان پڑا تھا۔ مجھے اس کھوکھے میں اپنا بستہ ٹھونسنے کی جگہ مل گءی۔
وانشگٹن ڈی سی میں یادگار لنکن پہ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ یادگار لنکن سفید ستونوں کی ایک عمارت ہے جس میں لنکن کا بہت بڑا مجسمہ رکھا ہے۔ اس مجسمے میں لنکن ایک کرسی پہ نہایت شان سے بیٹھا ہے۔ بڑے ہال کے بغل میں داءیں اور باءیں چھوٹے ہال ہیں جن کی دیواروں پہ لنکن کی دو مشہور تقاریر لکھی ہوءی ہیں۔ ہم یادگار لنکن سے باہر نکلے اور سڑک پار کر کے اس جگہ پہنچنے کی کوشش کی جہاں ہماری بس نے ہمیں اتارا تھا۔ دیکھا کہ ایک بس دوڑتی بھاگتی چلی آرہی ہے اور سڑک پار کرنے والوں کو راستہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ایک بس کو تو ہم نے اس طرح جانے دیا؛ جب اسی شکل کی دوسری بس نمودار ہوءی تو ہم کراس واک پہ آگءے اور ہاتھ کے اشارے سے بس کے ڈراءیور پہ ناراضگی دکھاءی کہ وہاں سڑک پار کرنے والے پیادہ افراد کا حق تھا وہ کیوں بس کو بے مہار ہاتھی کی طرح دوڑاتا آرہا ہے۔ ہم نے بس کے سامنے سے جان بوجھ کر آہستہ آہستہ سڑک پار کی۔ ہم ابھی سڑک کے دوسری طرف آءے ہی تھے کہ ایک زوردار آواز آءی، 'ایکسیوز می۔' لگتا تھا کہ کوءی ہم سے مخاطب ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک نوجوان پولیس والے کو وہاں موجود پایا۔ اس کی عمر اتنی ہوگی کہ اگر ہماری شادی اس عمر میں ہوجاتی جس عمر میں ایک نسل پہلے ہوا کرتی تھی تو ہمارا ایک بچہ اس عمر کا ہوتا۔ ہم نے استفسار سے پولیس والے کی طرف دیکھا۔ 'اس بس کے آگے پولیس کی گاڑی تھی۔ اور یہ تینوں بسیں اسی پولیس بدرقے میں چل رہی تھیں۔ تم کو چاہیے تھا کہ تم اس بس کو جانے دیتے۔ اگر کوءی بس پولیس بدرقے میں چل رہی ہو تو پھر تمھیں سڑک پار کرنے کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔' ہمیں حیرت ہوءی کہ وہ پولیس والا اچانک کہاں سے نمودار ہو گیا۔ ہم نے کہا کہ ہم نے دیکھا نہیں تھا کہ بس کے آگے پولیس کی نفری ہے۔ 'ہاں پولیس اس بس کے آگے تھی۔ سڑک پار کرنا اس وقت تمھارا حق نہ تھا،' اب کی بار اس نے ذرا سختی سے کہا۔ لگتا تھا کہ وہ نوجوان ہم سے لڑنا چاہ رہا تھا۔ اگر ہم ذرا بھی اس سے الجھتے تو بات خراب ہوسکتی تھی۔ ہم نے مصلحت یہی جانی کہ بات کو رفع دفع کریں۔ اس سے کہہ دیا کہ ہم آءندہ خیال رکھیں گے.


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?