Monday, October 08, 2012

 

ایک اچھی خبر اور داستان گوءی کی محفل






اکتوبر آٹھ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھ
  
 ایک اچھی خبر اور داستان گوءی کی محفل

آج ایک اچھی خبر سے اس کالم کا آغاز کرتے ہیں۔ اور اس اچھی خبر کے وساءل بنے ہیں پاکستان کے دگرگوں حالات۔ بم دھماکے، قتل و غارت گری، ہڑتالیں، غرض کہ کسی نہ کسی بہانے سے کچھ کچھ عرصے بعد پاکستان کے اسکول اور کالج بند ہوجاتے ہیں۔ مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کے باوجود پاکستانی طلبا کا پڑھاءی کا شوق کم نہیں ہوتا۔  ماں باپ اور خاندان کے دوسرے بزرگ مستقل بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسی افراتفری میں بچے گھر بیٹھے کیسے تعلیم حاصل کریں؟  اب سے دس سال پہلے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنا ممکن نہ تھا مگر آج ایسی صورت نہیں ہے۔ اب خان اکیڈمی نامی ویب ساءٹ موجود ہے جس پہ بنیادی حساب سے لے کر کیلکولس، اور کیمیا، طبیعیات، اور دوسرے موضوعات پہ ہزاروں کے قریب تعلیمی ویڈیو موجود ہیں۔ آپ ایک ایک ویڈیو دیکھتے ہوءے، مشق کے سوالات حل کرتے ہوءے آگے بڑھتے رہیں تو آپ خان اکیڈمی کے ویڈیو دیکھ کر گھر بیٹھے اتنا علم حاصل کرسکتے ہیں جتنا کہ کسی اچھی جامعہ میں چار سال کی ساءنس کی ڈگری کے حق دار بننے میں حاصل ہوتا ہے۔ اور اب کورسیرا بھی ہے جس پہ آپ دنیا کی مشہور جامعات سے کراءے جانے والے مخصوص کورس مفت لے سکتے ہیں۔ مگر پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو انٹرنیٹ پہ موجود ان تمام سہولیات کے باوجود طلبا کے لیے مشکلات ہیں۔ اگر آپ کراچی میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں اور آپ کا اسکول شہر کے خراب حالات کی وجہ سے بند ہے تو آپ کیا کریں؟ آپ ایک کام تو یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی ریاضی کی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کریں اور جو بات آپ کو سمجھ میں نہ آءے اسے آپ انٹرنٹ پہ تلاش کریں؟ مگر کیا ہی اچھا ہو کہ اگر آپ کی ریاضی کی کتاب کے ساتھ آپ کو ایک ڈی وی ڈی ملےجس میں ریاضی کی کتاب کے ہر سبق پہ ویڈیو موجود ہوں۔ ان ویڈیو میں آپ کو پوری بات مثالوں کے ذریعے سمجھاءی گءی ہو بالکل اس طرح جیسے اسکول میں ایک اچھا استاد آپ کو سمجھاتا ہے۔ بس جان لیں کہ آپ کی خواہش پوری ہوءی۔ کوشش فاءونڈیشن نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نویں اور دسویں جماعت کی ریاضی کی کتابوں پہ تعلیمی ویڈیو تیار کر لیے ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ تمام تعلیمی ویڈیو درج ذیل ویب ساءٹ پہ دستیاب ہیں۔
اسی ویب ساءٹ پہ ان کتابوں میں موجود ہر مشق کے سوالات کے حل بھی موجود ہیں۔ اگلے مرحلے میں ان تمام ویڈیو اور دیگر مواد کو ڈی وی ڈی پہ ڈال کر کراچی کے بازاروں میں لایا جاءے گا۔ کچھ ہی عرصے میں نویں دسویں کی کیمیا، طبیعیات، اور حیاتیات کی کتابوں پہ بھی کام شروع ہوگا اور یہ تعلیمی ویڈیو بھی انٹرنیٹ اور ڈی وی ڈی کی صورت میں فراہم کیے جاءیں گے۔
داستان گوءی۔
گزرے وقتوں میں رعایا کی زندگی حقیر تھی اور ساری قابل ذکر باتیں بادشاہ سے اور ان لوگوں سے وابستہ تھیں جن پہ بادشاہ کی نظر کرم ہو۔ بادشاہ کے دربار میں جہاں وزرا ور طبیب تھے وہیں گانے بجانے والے، شعرا، اور داستان گو بھی تھے۔ یہ لوگ بادشاہ کا دل بہلاتے اور اپنے ہنر کی داد بادشاہ سے انعام کی صورت میں پاتے۔  بادشاہت کا دور گیا تو درباری داستان گو، شعرا، اور گویوں کا بھی حقہ پانی بند ہوا۔  پھر ٹیکنالوجی نے بھی چھلانگ ماری اور ٹی وی اور فلم کا دور شروع ہوا۔ ہنرمندوں نے اپنے انداز بدلے اور ٹی وی اور  فلم کی دنیا میں گھس کر روٹی پانی کمانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا، مگر گویوں اور موسیقاروں کے مقابلے میں داستان گو اس طرح کا بھیس نہ بدل سکے اور اپنے آپ کو درباری داستان گو سے تبدیل کر کے عوامی داستان گو نہ بنا پاءے۔ ادبی حلقوں میں عام طور سے کہا جاتا ہے کہ اردو کے آخری داستان گو، میر باقر علی تھے جو سنہ ۱۹۲۸ میں انتقال کر گءے۔
ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین صاحب نے  میر باقر علی پہ اور اردو داستان گوءی پہ ایک عمدہ کالم لکھا ہے جو یہاں موجود ہے
واحد قباحت یہ ہے کہ اس کالم میں انتظار حسین صاحب نے ان کتابوں کا حوالہ نہیں دیا جن سے انہوں نے داستان گوءی کی اس تاریخ کے لیے استفادہ کیا۔  کہا جاتاہے کہ سر سید احمد خان نے اپنی کتاب آثار الصنادید میں داستان گوءی کے ہنر کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ میر باقر علی کی ویڈیو تو درکنار کوءی تصویر بھی موجود نہیں ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ میر باقر علی کس طرح کی داستانیں اپنے سامعین کو سناتے تھے۔ مگر یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا، اور الف لیلوی کہانیاں سناتے ہوں گے۔ اگر آپ داستان گو صرف ان لوگوں کو کہیں جو کرتا پاجامہ پہن کر، چاندنی پہ بیٹھ کر، گاءو تکیے پہ ٹیک لگا کر، کٹورے سے پانی پیتے ہوءے جادوءی کہانیاں چٹخارے لے کر لوگوں کو سناتے تھے تو واقعی ایسے داستان گو وقت کے ساتھ ختم ہو گءے لیکن اگر داستان گوءی ہر طرح کی کہانی سنانا ہے تو پھر داستان گوءی تو ہزار صورتوں میں آج بھی جاری و ساری ہے۔ ماءیں اپنے بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں، مولوی ہر جمعے کے خطبے میں کہانیاں سناتے ہیں، اور اسی طرح پورے محرم میں کہانیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بھلا ہو مشہور اردو نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب کا کہ انہوں نے اپنے بھتیجے محمود فاروقی کو راضی کیا کہ وہ داستان گوءی کی متروک روایت پرانے رنگ میں پھر سے شروع کریں۔ اس وقت تک محمود فاروقی محض ایک تاریخ دان تھے۔ محمود فاروقی نے اپنے اداکار دوست دانش حسین کو ساتھ ملایا اور ان دونوں نے داستان گوءی کی محفلیں منعقد کرنا شروع کیں جو بہت مقبول ہوءیں۔ ان محفلوں میں جہاں کمال داستان کا ہے، وہیں داستان گو کی اداءیگی اور حافظے کا بھی ہے۔ پھر اس کے ساتھ چکن کا کرتا اورکھلے پاءنچے کا پاجامہ پہن کر، دوپلی ٹوپی سر پہ لگا کر، چاندنی اور گاءو تکیے سجا کر ایک مخصوص ماحول بنایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی سننے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ اردو میں تالی پٹنے کا محاورہ بے عزتی ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لیے حاضرین محفل تالیاں بجا کر داد نہ دیں بلکہ واہ واہ کہہ کر داستان گو کو سراہیں۔ یہ تاکید سن کر حاضرین میں سے چند سوچتے ہیں کہ معاشرے تو مستقل تبدیل ہوتے رہتے ہیں؛ کسی زمانے میں تالی پیٹنا ضرور معیوب خیال کیا جاتا ہوگا مگر اب تالیاں بجانا پوری دنیا میں داد دینے کا سب سے راءج طریقہ ہے۔ اور اگر پچھلے دور کے ہی طریقے اپنانے ہیں تو پڑھا ہے کہ ان وقتوں میں لوگ خوشی سے بغلیں بجاتے تھے۔ آج کل جس طرح کا لباس پہنا جاتا ہے اسے پہن کرہاتھ بغل تک لے کر جانا ہی مشکل ہے اور اگر کسی طرح یوں کر بھی لیا جاءے تو سینکڑوں سامعین کی بجتی ہوءی بغلیں داستان گوءی کی محفل میں کس قدر بے ہودہ شور پیدا کریں گی۔
گزرے سنیچر کو برکلی یونیورسٹی کے سینٹر فار ساءوتھ ایشیا اسٹڈیز کی دعوت پہ محمود فاروقی نے بنکروفٹ ہوٹل کے ھال میں اپنے داستان گوءی کے فن کا مظاہرہ کیا۔ پروفیسر مونس فاروقی اور پروفیسر صبا محمود نے تعارفی کلمات ادا کیے۔ محمود فاروقی نے طلسم ہوش ربا کا ایک حصہ داستان گوءی کی صورت میں پیش کیا، پھر انہوں نے منٹوءیت کے عنوان سے بھی ایک خاکہ پیش کیا۔ محمود فاروقی نے بتایا کہ منٹوءیت نامی وہ تحریر منٹو کی زندگی پہ لکھنے والے بہت سے لوگوں کی 
تحریروں کو ملا کر تیار کی گءی تھِی۔ داستان گوءی کی اس سحر انگیز محفل میں دو سو کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?