Monday, October 29, 2012

 

عمران خان سان ہوزے میں





اکتوبر انتیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو نو


 عمران خان سان ہوزے میں



خیال ہے کہ پاکستان میں انتخابات اگلے سال کے اول حصے میں ہوں گے۔ انتخابات کے اسی امکان کے پیش نظر پاکستانی سیاست میں گہما گہمی پاءی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے علم میں ہے کہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر رقم چاہیے ہوتی ہے۔ اور اسی لیے رقم کا انتظام کرنے کے لیے سیاسی راہ نما سرگرم نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چءیرمین عمران خان کو معلوم ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں میں کافی مقبول ہیں۔ اسی لیے عمران خان انتخابات کے لیے چندہ جمع کرنے کی غرض سے آج کل شمالی امریکہ آءے ہوءے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق جب موجودہ دورے میں عمران خان کینیڈا سے امریکہ کے لیے روانہ ہوءے تو انہیں جہاز سے اتار لیا گیا اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے افسران نے عمران خان سے ان کے سیاسی اور عسکری خیالات پہ پوچھ گچھ کی۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی اس احمقانہ کارواءی سے ہم تمام ٹیکس دینے والوں پہ یہ بات واضح ہو گءی ہے کہ امریکیوں کی حفاظت پہ ایک کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہوم لینڈ سیکیورٹی کو اب تک یہ نہیں پتہ کہ اس کا منہ کہاں ہے اور دم کہاں۔ عمران خان پاکستان کے ایک نمایاں سیاسی قاءد ہیں؛ان کے خیالات صبح و شام اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اور ویڈیو کی شکل میں باآسانی انٹرنیٹ پہ ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ پھر عمران خان کو جہاز سے اتار کر ان کے خیالات معلوم کرنے کی کیا تک تھی؟ اس واقعے کی اندرونی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون احمق افسر تھا جس کی ایما پہ عمران خان کو جہاز سے اتار کر ان سے پوچھ گچھ کی گءی۔
عمران خان ٹورنٹو سے نیویارک آءے اور پھر وہاں سے سییاٹل پہنچے۔ وہاں چندہ مہم کی تقریب میں شرکت کر کے سان فرانسسکو بے ایریا پہنچے۔ اس علاقے میں پہنچتے ہی انہوں نے دوپہر کے کھانے پہ ایک چھوٹے گروہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے لیے ہر شریک سے پانچ ہزار ڈالر لءیے گءے تھے۔ پھر اسی روز یعنی اتوار اکتوبر اٹھاءیس کو رات کے کھانے پہ انہوں نے پانچ سو افراد کی ایک محفل سے خطاب کیا۔ اپنے ہنگامی دورے میں عمران خان ہر شہر میں بہت مختصر قیام کر رہے ہیں مگر اس بھاگم دوڑ کے باوجود اتوار کی رات عمران خان چاق و چوبند نظر آءے۔ دنیا میں ایسے کم لوگ ہوں گے جو ساٹھ سال کے پیٹے میں جسمانی طور پہ اس قدر چست ہوں کہ جیسے عمران خان ہیں۔ یہ عمران خان کا کمال ہے کہ انہوں نے اٹھارہ بیس سال کی عمر سے لے کر اب تک اپنے آپ کو مستقل روشن ستارہ اور خبروں کی زینت بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یقینا ایسا کرنے کے لیے عمران خان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ ان کے بال باقاعدگی سے رنگے جاتے ہیں اور وہ روز سخت ورزش کر کے اپنے آپ کو بہترین جسمانی شکل میں رکھتے ہیں۔ اسی محنت کا انعام ہے کہ ایک زمانہ ان پہ فدا ہے۔ اور اسی لیے جب عمران خان کسی تقریب میں شرکت کریں تو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ایسی محفل میں شرکت کرنے والے کتنے لوگ عمران خان کے سیاسی خیالات سے متفق ہیں اور کتنے ہیں جو محض عمران خان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے آءے ہوءے ہیں۔  اکتوبر اٹھاءیس کی تقریب میں عمران خان نے وہی باتیں کیں جو وہ کرتے آءے ہیں۔ ان کی پیش گوءی تھی کہ آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت یعنی تحریک انصاف مکمل جھاڑو پھیر دے گی۔ [پاکستان کی بازاری زبان میں 'سوءپ کرجاءے گی' کا فقرہ استعمال کیا جاتا ہے۔] ان کی اس بات پہ ان کے مداحوں نے خوب تالیاں بجاءیں اور کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے ملتان میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالقادر گیلانی نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ کے مشترکہ امیدوار کو شکست دی تھی، اس بارے میں عمران خان کیا کہتے ہیں۔ عمران خان کی تقریر کی سب سے اہم بات طالبان سے متعلق عمران خان کے خیالات تھے۔ واضح رہے کہ ترقی پسند حلقوں میں اس بات کو شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ عمران خان کبھی طالبان کی کسی ظالمانہ کارواءی کی مذمت طالبان کا نام لے کر نہیں کرتے اور طالبان کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی قتل و غارت گری کی واردات کو گھما پھرا کر ڈرون حملوں اور پاکستان کی امریکہ دوستی سے جوڑ دیتے ہیں۔ اپنی تقریر میں عمران خان نے کہا کہ طالبان کسی ایک گروہ کا نام نہیں ہے بلکہ بہت مختلف طرح کے لوگ طالبان کے نام پہ جمع نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایسے لوگ جو ڈنڈے کے زور پہ اپنی من پسند اسلامی حکومت قاءم کرنا چاہتے ہیں بہت تھوڑے ہیں۔ دوسرا گروہ ان پشتون لوگوں کا ہے جو روایتی طور پہ باہر سے آنے والی ہر طاقت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ تیسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک جہاد کے لیے تیار کیے گءے تھے مگر اب خود اپنے ملک میں تخریبی کارواءیاں کر رہے ہیں۔ چوتھی طرح کے طالبان وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ امریکہ کی جنگ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہے اور اس لیے امریکہ سے اور اس کی حلیف پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا ایک جہاد ہے۔ اور پانچواں گروہ  ان لوگوں کا ہے جن کے رشتہ دار امریکی حملوں میں بے گناہ ہلاک ہوءے ہیں اور اب وہ بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اور چھٹے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو جراءم پیشہ ہیں اور طالبان کا نام استعمال کرتے ہوءے اغوا براءے تاوان جیسے دھندوں میں ملوث ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ہی امریکہ کی جنگ سے باہر نکلا طالبان کے درج بالا بیشتر گروہ پاکستان اور پاکستانی فوج سے لڑنا چھوڑ دیں گے اور پھر پاکستان کے لیے ایک نسبتا چھوٹے گروہ سے لڑنا زیادہ آسان ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان واقعی اتنے بھولے ہیں کہ وہ پاکستان میں بتدریج بڑھنے والی مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو امریکہ کی جنگ کے ردعمل کے ایک چھوٹے سے حصے کے طور پہ دیکھتے ہیں؟
عمران خان کی تقریب کی تصاویر یہاں ملاحظہ کریں:
تقریب کی یڈیو جھلکیاں یہاں دیکھیں:
طالبان سے متعلق عمران خان کے خیالات یہاں سنیں:

 

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?