Sunday, December 03, 2006
عاطف اسلم کے نام
نہ جانے کب سے
امید کچھ باقی ہے
مجھے پھر بھی تیری یاد
کیوں آتی ہے
نہ جانے کب سے
عاطف اسلم کا یہ گانا میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے شاید پچاسویں دفعہ سنا ہے۔
آج سے بیس سال پہلے تک ہمارے موسیقار روایتی آلات موسیقی سے چمٹے ہوئے تھے۔ گٹار کہیں کہیں نظر آ جاتا تھا اور عالمگیر اور شہکی موسیقی کی باغی آوازیں خیال کیے جاتے تھے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں پانچ ستارہ ہوٹلوں میں مغربی طرز کے بینڈ نظر آتے تھے مگر وہ بینڈ اختراع نہ کرتے تھے بلکہ چرائے ہوئے مغربی گانے گاتے تھے۔
پھر اچانک ایک بڑی تبدیلی آئی۔ نئی نسل کے موسیقار جنہیں مغربی آلات موسیقی سے زیادہ انسیت تھی انہوں نے ان آلات پہ بنائی گئی دھنوں میں اردو میں گانا شروع کر دیا۔ شاید اس انداز کی ابتدا نازیہ اور صحیب حسن نے کی۔ مگر نازیہ اور صحیب کی موسیقی انگلستان اٹھی تھی۔ موسیقی کی اس نئی لہر کو صحیح معنوں میں عام قبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب اس نے ہماری دھرتی سے جنم لینا شروع کیا۔ شاید وائٹل سائنز اور پھر جنون کو موسیقی میں اس انقلاب کا بانی سمجھا جائے گا۔ اور اب یہ حال ہے کہ پاکستان میں اٹھارہ بیس سال کے نوجوان اس غضب کی موسیقی تشکیل دے رہے ہیں کہ آپ سر دھنتے رہ جائیں۔
یہ دراصل نئی نسل کا اپنے اوپر اعتماد ہے۔ وہ سینہ ٹھوک کر کہ رہے ہیں کھ، نئے دور کی ساری چیزیں ہماری ہیں۔ یہ گٹار، یہ ڈرم، سب ہمارا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے ایجاد کیے ہوئے کھیلوں میں مہارت حاصل کر کے ان قوموں کو شکست دے سکتے ہیں جو ان کھیلوں کی موجد ہیں تو پھر موسیقی کے میدان میں ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ پاکستان کے بیشتر لوگ جس مذہب کے ماننے والے ہیں وہ بھی تو بہت دور سے ہمارے پاس آیا ہے۔
روایت آخر کیا ہے؟ کیا روایت ماضی سے زبردستی چمٹے رہنے کا نام ہے؟
مگر وقت تو آگے بڑھ رہا ہے۔ معاشرے تو اسی وقت آگے بڑھتے ہیں کہ جب وہ روایت سے بغاوت کریں۔
پچھلے سال اکتوبر میں جس وقت میں پاکستان میں تھا عاطف اسلم نے لوگوں کو اپنی موسیقی کے سحر میں گرفتار کیا ہوا تھا اور ان کا یہ گانا ہر جگہ سنائی دیتا تھا۔
وہ موسیقی جو مجھے پسند آئے مجھ پہ ایک عجیب جادو کرتی ہے۔ یہ مجھے ایک خاص وقت کے ساتھ باندھ دیتی ہے۔
دو روز پہلے جب میں سنی ویل کے شالیمار ریستوراں میں کھانا کھا رہا تھا تو عاطف اسلم کا یہی گانا بجنے لگا اور یہ موسیقی مجھے گھسیٹ کر پاکستان لے گئی۔
نہ جانے کب سے
امید کچھ باقی ہے
مجھے پھر بھی تیری یاد
کیوں آتی ہے
نہ جانے کب سے
دور جتنا بھی تم مجھ سے
پاس تیرے میں
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
زندگی سے کوئی شکوہ بھی نہیں ہے
اب تو زندہ ہوں میں اس نیلے آسماں میں
چاہت ایسی ہے یہ تیری
بڑھتی جائے
آہٹ ایسے ہے یہ تیری
مجھ کو ستائے
یادیں گہری ہیں اتنی
دل ڈوب جائے
اور آنکھوں میں یہ غم نم بن جائے
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں
سبھی یادیں ہیں
سبھی باتیں ہیں
بھلا دو انہیں
مٹا دو انہیں
اب تو عادت سی ہے مجھ کو