Sunday, September 01, 2013

 

ہمت مرداں، مدد خدا


اگست چار، دو ہزار تیرہ
 ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو انتالیس
  
ہمت مرداں، مدد خدا
  
علی حسن سمندطور

احوال سفر۔ جولاءی سترہ۔
زندگی کے نہ جانے کس موڑ پہ یہ بات سمجھ میں آگءی تھی کہ جو دل میں ٹھانو کر جاءو اور ایسا کرنے میں ہمت نہ ہارو کہ ہار کسی چیز کا نام نہیں ہے، ہارتا وہ ہے جو ہار مان جاتا ہے۔
چنانچہ کل ترکی کے شہر قرص سے نکل کر گرجستان [جورجیا] کے قصبے اخلتس ایخ پہنچنے پہ معلوم کیا تھا کہ حیاستان [آرمینستان یا آرمینیا] کے شہر یرے وان کے لیے بس کب کب روانہ ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں سے یرے وان کے لیے صرف ایک بس جاتی ہے، صبح ساڑھے آٹھ بجے۔ یہ سن کر دل بجھ گیا۔ ہم پورے دن کے سفر کے بعد تھک گءے تھے اور بالکل ہمت نہ تھی کہ اگل صبح سویرے ہی اٹھ کر بس پکڑی جاءے۔ مگر سفر کے دنوں کا جو حساب لگایا تھا اس حساب سے گرجستان چھوڑ کر حیاستان جانا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ دل میں ٹھانی کہ صبح آرام سے اٹھیں گے، مگر حیاستان جاءیں گے ضرور؛ اپنی آسانی سے گرجستان اور حیاستان کی سرحد پار کریں گے۔ خیال تھا کہ اخلتس ایخ سے ایسی مرشروتکا [چھوٹی بس یا وین] ضرور مل جاءے گی جو حیاستان کی سرحد تک پہنچا دے گی۔ پھر سرحد تک پہنچ کر پیدل سرحد پار کریں گے اور حیاستان میں داخل ہونے پہ کوءی دوسری سواری تلاش کریں گے جو حیاستان کے شہر گومری پہنچاءے۔ گومری سے یرے وان تک کی بس تو ضرور مل جاءے گی۔ یہ تو وہ منصوبہ تھا جو دل میں باندھا تھے۔ کیا ہونے والا تھا اس کا اندازہ ہمیں بالکل نہ تھا۔
سستے ہوٹلوں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے غسخانے میں نکاسی کا پاءپ پھنسا ہوتا ہے۔ ہوٹل پریسٹیج جہاں ہم ٹہرے تھے، وہاں بھی ایسا ہی قصہ تھا۔ چنانچہ صبح جب نہا کر فارغ ہوءے تو غسلخانے میں قریبا ٹخنے تک پانی کھڑا تھا۔
ہوٹل کے کراءے میں ناشتہ شامل نہ تھا چنانچہ نہا کر کھانے کی تلاش میں باہر نکلے۔ قریب ہی ایک نان باءی تازہ نان بنا رہا تھا۔  اس سے دو خوشبودار نان خریدیں، ساتھ ہی ایک دکان سے دہی خریدا اور واپس کمرے میں آکر ناشتہ کیا ۔
کمرہ چھوڑتے چھوڑتے گیارہ بج چکے تھے؛ ہوٹل کی مالکہ ہمیں ہوٹل سے روانہ کرنے کے لیے بے چین تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ ہوٹل میں ماسکو کے طلبا کا ایک بڑا گروپ آنے والا تھا۔ ہم ہوٹل سے نکل کر پیدل چلنا شروع ہوءے اور قصبے کے مرکز سے گزرتے ہوءے بس ٹرمینل تک پہنچے۔ ظاہر ہے کہ یریوان کے لیے بس تو بہت پہلے جا چکی تھی۔ گرجستان اور حیاستان کی سرحد کے قریب واقع قصبے اخل قلاقی  جانے کے لیے مرشروتکا ڈیڑھ بجے روانہ ہونا تھی۔ اخلتس ایخ کے بس اڈے پہ ایک ٹیکسی والا مل گیا جس نے ہم کو راضی کر لیا کہ بس کے لیے اتنا لمبا اتنظار کرنے کے بجاءے کچھ اضافی رقم خرچ کر کے اس کے ساتھ اخل قلاقی جانا بہتر ہے۔ چنانچہ ہم نے ٹیکسی اور بس کے کراءے میں فرق کا حساب لگایا، بچنے والے وقت کا خیال کیا اور پھر ٹیکسی سے اخل قلاقی کے لیے چل پڑے۔ راستہ خوبصورت تھا۔ ہم پہاڑوں میں چل رہے تھے۔ گھنٹےبھر سے زیادہ کی مسافت کے بعد اخل قلاقی کے بس اڈے پہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آرمینستان جانے کے لیے آج کوءی سواری نہیں ہے؛ اگلی بس سویرے چلے گی۔ اب کیا کریں؟ ٹیکسی والے سے پوچھا کہ ہمیں آرمینستان کی سرحد تک پہنچانے کے کتنے لو گے۔ اس نے مناسب رقم بتاءی۔ چنانچہ اس کی ٹیکسی پھر چل پڑی۔ اب سڑک خراب ہوچکی تھی۔ لگتا تھا کہ یہ راستہ زیادہ لوگوں کے استعمال میں نہیں ہے اور اسی لیے اس سڑک کی مرمت کی طرف سرکار کا دھیان بھی نہیں ہے۔ گھنٹے بھر کے مزید سفر کے بعد ہم گرجستان-آرمینستان کی سرحد پہ پہنچ گءے۔ یہاں سرحد عبور کرنے والے ٹرک تھے یا نجی گاڑیاں؛ پیدل  بس ہم ہی تھے۔ پیدل چلتے ہوءے گرجستان کی امیگریشن چوکی تک پہنچے۔ گرجستان والوں سے خروج کی مہر لگواءی اور آرمینستان کی چوکی کی طرف چل پڑے۔ ان دونوں چوکیوں کے درمیاں قریبا تین میل کا فاصلہ تھا۔ موسم گرم تھا اور دھوپ نکلی ہوءی تھی۔ تیز رفتار ٹرک اور گاڑیاں ہمارے قریب سے گزر رہیں تھیں۔ حیاستان کی چوکی تک پہنچنے سے پہلے حیاستان کے دو سپاہی ملے جنہوں نے ہم سے حیاستانی زبان میں سوالات کیے۔ ہم نے حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے پاسپورٹ طلب کیے۔ انہوں نے ہمارے پاسپورٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا، چند بے تکے سوالات کیے اور آگے بڑھ گءے۔ ہم پیدل چلتے ہوءے حیاستان کی امیگریشن چوکی تک پہنچ گءے۔ ہم نے حیاستان کے امیگریشن  افسر سے درخواست کی کہ وہ ہمارے پاسپورٹ میں دخول کی مہر نہ لگاءے کہ ہمیں آذرباءیجان جانا ہے اور آذرباءیجان والوں کو شاءد ہمارا حیاستان جانا پسند نہ آءے۔ واضح رہے کہ حیاستان کی آذرباءیجان سے نہیں بنتی۔ آذرباءیجان دو غیرمنسلک حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ بڑا مشرقی حصہ جہاں دارالحکومت باکو ہے، اور چھوٹا مغربی حصہ جو ترکی کی سرحد کے ساتھ ہے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان آذرباءیجان کی آنکھ میں کھٹکنے والا ملک حیاستان ہے۔ حیاستان کے افسر نے ہماری بات حیرت سے سنی اور اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ ہمارے پاسپورٹ میں دخول کی مہر نہ لگاءے۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ آیا چوکی کے باہر قریب ترین شہر کے لیے ہمیں کوءی سواری مل جاءے گی۔ یہ گفتگو ایک مسافر نے سن لی۔ اس نے پیشکش کی کہ وہ ہمیں اپنی گاڑی پہ قریب ترین شہر گومری چھوڑ دے گا۔ چنانچہ چوکی سے باہر نکل کر ایک ایسی گاڑی میں سوار ہوگءے جو اس مسافر کا دوست چلا رہا تھا۔ یہ لوگ یا تو مقامی زبان جانتے تھے یا روسی، چنانچہ ان سے بات نہ ہوپاءی۔ ہم ان کی گاڑی میں بیٹھے 'ہزارہا شجر ہیں راہ میں سایہ دار کیے' والی تاکید کے بارے میں سوچ رہے تھے۔




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?