Monday, September 02, 2013

 

سکندر کا اسلام



اگست چوبیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو باون

سکندر کا اسلام

بات کچھ پرانی ہوچلی ہے مگر خبر پرانی صحیح، موضوع تازہ ہے۔ اور موضوع ہے پاکستان کے لوگوں کی اپنے موجودہ خراب حالات سے بے زاری۔ پے درپے حکومتوں کی ناکامی کے بعد پاکستان کے لوگ اتنے تنگ ہیں کہ ان میں سے چند بندوق نکال کر بیچ سڑک پہ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں کہ،'بند کرو اب یہ بکواس۔ اب یہ نظام بدلو۔' تو سوال یہ ہے کہ کیا سکندر مسلمان تھا؟ کونسا سکندر؟ نہیں، یہ اس سکندر کی بات نہیں ہورہی جس نے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ اس سکندر کی بات ہورہی ہے جس کے نام پہ اسلام آباد کو یرغمال بنانے والے سکندر کا نام رکھا گیا تھا۔ بات ہورہی ہے سکندر اعظم کی۔ یہ بات بہت پرانی ہے۔ اتنی پرانی کہ اس وقت مذہب انسانی معاملات کا بہت بڑا جز نہ تھا۔ چنانچہ سکندر اعظم نے جب معلوم دنیا کا بڑا حصہ فتح کیا تو اس نے لوگوں کو اپنا ہم مذہب نہیں بنا لیا بلکہ اس کی فوج نے صرف اس پورے علاقے میں اپنے بچے چھوڑ دیے۔ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیداءش سے ساڑھے تین سو سال قبل کی بات ہے۔ اس سکندر سے اس سکندر تک قریبا دو ہزار چار سو سال کا عرصہ ہے۔ یعنی اتنا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ پاکستان میں اب 'سکندر' ایک دھلا دھلایا، صاف ستھرا اسلامی نام نظر آتا ہے۔ تو اس سکندر نے ایک ایسے شہر میں جس کا نام ہی اسلام کے نام پہ رکھا گیا ہے، بندوق کے زور پہ یہ کیوں کہا کہ وہ فورا سے پیشتر پاکستان میں اسلامی نظام دیکھنا چاہتا ہے؟  آخر یہ اسلامی نظام ہوتا کیا ہے؟ اور وہ کونسا بٹن ہے جسے دبا کر اسلامی نظام فورا نافذ کیا جا سکتا ہے؟ اور سکندر کا یہ خیال کیوں تھا کہ پاکستان کے سارے لوگ ہی 'اسلامی نظام' کا نفاذ چاہتے ہیں اور اس لیے اس کا یہ مطالبہ دراصل سارے پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے؟ کیا میری طرح سوچنے والے دوسرے لوگوں کو بھی بندوق نکال کر سکندر کے مقابلے پہ آنا ہوگا اور برملا کہنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان میں سکندر کا' اسلامی نظام' نہیں چاہیے۔ بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستان ہی میں کیا دنیا میں کہیں بھی کوءی ایسا نظام نہیں دیکھنا چاہتے جو لوگوں کو لکھ کر نہ دکھایا گیا ہو اور جس پہ لوگ متفق نہ ہوگءے ہوں۔ تو سکندر آخر یہ کس اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا تھا؟ سعودی عرب کا اسلامی نظام یا ایران کا اسلامی نظام؟ یا وہ اسلامی نظام جو طالبان نے افغانستان میں نافذ کیا تھا؟ یا پاکستانی طالبان کا سوات میں کچھ عرصے کے لیے قاءم کیا جانے والا اسلامی نظام؟ سکندر پہ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ درج بالا تمام اسلامی نظاموں سے متنفر ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس دنیا میں موجود ہے۔ اس موقع پہ چند نادان دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ اس اسلامی نظام کی بات کر رہے ہیں جو اسلام کے اول زمانے میں مدینہ میں قاءم کیا گیا تھا۔ یقینا مدینہ میں بہترین اسلامی ریاست عمل میں لاءی گءی ہوگی مگر یہ کام صحابہ اکرام نے انجام دیا تھا۔ فی زمانہ مسلمانوں کو 'اسلامی نظام' کی پٹیاں پڑھانے والے لوگ وہ صحابہ اکرام نہیں ہیں۔ یہ ہمارے اور آپ کے جیسے عام انسان ہیں۔  یہ ہمارے سامنے قرآن لہرا کر نہیں کہہ سکتے کہ یہ رہا 'اسلامی نظام'۔  ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ ہمیں لکھ کر بتاءیں کہ ان کے 'اسلامی نظام' میں نظام کیسے چلے گا۔ حکمرانی کا حق کسے حاصل ہوگا، حکمران کیسے چنا جاءے گا، عدل کا کیا نظام ہوگا، معیشت کیسے چلے گی، وغیرہ وغیرہ۔ جب 'اسلامی نظام' کو تمام جزءیات کے ساتھ لکھ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاءے گا اور لوگ اس 'نظام' سے متفق نظر آءیں گے تو 'اسلامی نظام' کے نفاذ کے لیے بندوق کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام 

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?