Sunday, September 01, 2013

 

کوہ قاف



اگست گیارہ، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچاس


کوہ قاف

علی حسن سمندطور

 احوال سفر۔ جولاءی اٹھاءیس۔
  
یہ کمرہ بہت بڑا ہے اور اسی وجہ سے بہت ٹھنڈا ہے۔ سرد علاقوں میں اتنے بڑے کمرے بنانے کی کیا تک ہے؟ مگر ہمیں اوڑھنے کے لیے جو لحاف دیے گءے تھے وہ دبیز تھے اور کمرہ ٹھنڈا ہونے کے باوجود رات کو ہمیں ٹھنڈ محسوس نہ ہوءی۔ میں اس وقت کوہ قاف میں ہوں۔ وہی کوہ قاف جو ہمارے علاقے کی دیومالاءی کہانیوں میں پریوں کا دیس ہے۔ کوہ قاف کی یہ کہانیاں ہمارے پاس فارس سے آءی ہیں۔ فارس کے لیے کوہ قاف پہاڑوں میں واقع ایسی ہی جگہ تھی جہاں دیو ہیکل مرد اور پری چہرہ عورتیں بستی تھیں۔ یہ وہی کوہ قاف ہے جس سے منسوب کوہ قافی [کاکیژین] نسل ہے۔ اس قصبے کا نام کاذبغی ہے اور یہ ملک گرجستان [جورجیا]  میں روس کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں آپ کو چرواہے گاءے کے ریوڑ ہانکتے نظر آءیں گے۔ گاءوں کی فضا میں گوبر کی سوند بسی ہوءی ہے۔ روءی کے گالوں جیسے بادل پہاڑوں کی چوٹیوں سے سر جوڑے نظر آتے ہیں۔ کل شام سے وقفے وقفے سے بارش ہورہی ہے۔ ہم گرجستان کے دارالحکومت تبلیسی سے یہاں پہنچے ہیں۔  تبلیسی سے گرجستان کے دوسرے شہروں میں جانے کے لیے دودوبے کا بس اڈہ استعمال ہوتا ہے۔ ہم میٹرو سے دودوبے کے اسٹیشن پہ پہنچے تو اسٹیشن کے باہر موجود ایسے لوگ ملے جو سیاحوں کی مدد کے لیے تیار تھے۔  ان میں سے ایک نے ہم سے کسی شہر کا نام لیا۔ ہم نے جواب میں کازبغی کہا تو وہ ہمارے ساتھ چل دیا۔ کوانتو پرسوناز، اس نے ہسپانوی میں سوال کیا۔ ہم نے جواب دیا، 'کواترو' ۔ ہم اس شخص کی راہ نماءی میں اس جگہ پہنچے جہاں سے کاذبغی کے لیے گاڑیاں روانہ ہوتی تھیں تو وہاں ایک وین کو پر پایا۔   ڈراءیور نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں بتایا کہ اب اس کی گاڑی میں مزید لوگوں کی گنجاءش نہیں تھی۔ ہمارے ساتھ آنے والا خداءی مددگار اب دوسری گاڑیوں کو کاذبغی چلنے کے لیے راضی کرنے لگا۔ کاذبغی جانے والی چند اور سواریاں جمع ہوچکی تھیں اور یہ سواریاں قیادت کے لیے اس رضاکار کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ رضاکار نے ایک ڈراءیور سے مختصر بات کر کے اس کی وین کا دروازہ کھول کر لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہا مگر اس وین کے ڈراءیور کو رضاکار کی یہ دیدہ دلیری پسند نہ آءی اور اس نے غصے سے وین کا دراوازہ بند کرلیا۔ وہاں ایک اور وین موجود تھی۔ اس وین کی ایک کھڑکی کا شیشہ غالبا حال میں ٹوٹا تھا اور کانچ کے ٹکڑے نشست اور فرش پہ پڑے ہوءے تھے۔ رضاکار نے اس وین کے ڈراءیور کو کاذبغی جانے کے لیے تیار کر لیا۔ مسافروں نے خود ہی شیشے کے ٹکڑے نشست سے صاف کیے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا لی۔ ہمارے ساتھ چار خواتین کی ایک ٹولی وین میں سوار ہوءی ۔ خواتین نے بس اڈے سے کھانے پینے کی بہت سی چیزیں لی تھیں۔ وہ مستقل کھاتی پیتی رہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے بءیر کی ایک بڑی بوتل کھولی اور تمام سہیلیوں کو گلاسوں میں بءیر پیش کی۔ کچھ دیر بعد جب ان پہ خمار چڑھا تو ان کو خوب ہنسی آءی اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ کھن کھن ہنستی رہیں۔ وین تبلیسی سے نکل کر پہاڑ پہ چڑھنے لگی۔ جیسے جیسے ہم اونچاءی پہ چڑھتے گءے ہوا لطیف ہوتی گءی۔
جولاءی انتیس
کاذبغی کی جان وہ سڑک ہے جو قصبے کے وسط سے گزرتی ہے؛ اس پہ شمال کی طرف جانے والے مسافر روس جا رہے ہوتے ہیں اور بجنوب جانے والے مسافر تبلیسی۔ اس سڑک کے ساتھ ہی خیوی کیفے ہے۔ یہ ریستوراں ایک خاندان چلاتا ہے۔ چار بہنیں مسافروں کو کھانا پیش کرتی ہیں جب کہ ان کی ماں باورچی خانے میں کام کرتی نظر آتی ہے۔ جب رش ذرا تھم جاءے اور دختران خیوی کو فرصت کے چند لمحات میسر آءیں تو یہ مقامی آلات موسیقی بجاتی ہیں اور سب سے چھوٹی بہن لوچ دار آواز میں گانا گاتی ہے۔ کل جب میں نے گانے اور موسیقی کی یہ آواز سنی تھی تو مجھے خیال ہوا تھا کہ شاید یہ گانا ریڈیو پہ بج رہا تھا مگر آج کھانے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ ڈھول کی تاپ گانے کی لو سے بلند تر ہے اور یہ ساز یہیں ریستوراں میں بجایا جا رہا ہے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو تین دختران خیوی کاءونٹر کے پیچھے موجود تھیں۔ میں تجسس میں وہاں پہنچ گیا۔ میرے کاءونٹر پہ پہنچتے ہی گانا رک گیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آیا مجھے کچھ چاہیے۔ "نہیں، میں تو دیکھنے آیا تھا کہ کون اتنا اچھا گا رہا ہے۔ تم رک کیوں گءیں؟ گاءو۔" تینوں بہنوں نے شرما کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر طے کیا کہ وہ کونسا گانا گاءیں گی۔ ڈھول پہ تاپ پڑی، چھوٹی بہن نے چارتارہ بجایا اور ساتھ گانا شروع کیا۔ ایششنا، دھاروینا، اولا، تلاویونا، ساہو وے ونا۔ وہ غالبا گرجستان میں فی زمانہ ایک مقبول گانا تھا کیونکہ میں نے یہ گانا اور جگہ بھی سنا تھا۔ گانا ختم ہوا تو میں نے تالی بجا کر ان کے فن کو سراہا۔
کھانا ختم کرنے کے بعد میں ریستوراں سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا۔ کاءونٹر کے پیچھے سے چھوٹی دختر خیوی نے سر نکالا اور شرماتے ہوءے مجھے ہاتھ ہلا کر خداحافظ کیا۔ میں نے بھی ہاتھ ہلایا اور سوچا کہ کبھی زندگی میں پھر کاذبغی جانے کا موقع ملا تو معلوم کروں گا کہ کوہ قاف کی ان فن کار، خوش آواز پریوں کو بیاہ کر لے جانے والے شہزادے انہیں کہاں لے گءے ہیں۔



Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?