Tuesday, September 10, 2013
گارنی اور گغارد
ستمبر سات، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چون
گارنی اور گغارد
یوں تو لکھنے کے لیے بہت
سارے موضوعات ہیں مگر ترجیح یہ ہے کہ جلد از جلد 'سفر کوہ قاف کا' نامی سفرنامہ
ختم کیا جاءے۔ اس کالم کا زیادہ تر حصہ اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ مگر پہلے مختصر حال
اس انیس سالہ لڑکی کا ہوجاءے جو دوسروں کی غفلت سے کراچی کے پانوراما سینٹر کی
ساتویں منزل سے گر کر ہلاک ہو گءی۔ اخباری اطلاع کے مطابق وہ لڑکی ساتویں منزل سے
نیچے اس طرح گری کہ ساتویں منزل سے نیچے جانے کے لیے اس نے لفٹ کا دروازہ کھولا
اور بغیر دیکھے اندر قدم رکھ دیا۔ اندر لفٹ موجود نہ تھی۔ دیار کفر یعنی کسی مغربی
ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو ذرا سی دیر میں مجرمانہ غفلت کا مقدمہ عمارت کے مالکان
پہ قاءم کردیا جاتا مگر ایسا کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوا ہے اس لیے اس
بات کا عین امکان ہے کہ لڑکی کے متعلقین اس حادثے کو اللہ کی رضا جان کر خاموش
رہیں۔
سفر کا حال۔ یریوان میں
ایک اور دن۔ یریوان میں ہم جس ہوٹل میں ٹہرے ہیں اس میں ہر مالے پہ دو اپارٹمنٹ
ہیں یعنی چھ منزلہ اس عمارت میں محض بارہ اپارٹمنٹ کراءے کے لیے ہیں۔ اس ہوٹل کے
سامنے ہی ایک پارک ہے۔ اپنے کمرے کی بالکونی سے ہم اس پارک کا اور وہاں آنے والوں
کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ دوپہر میں اس پارک میں آمدورفت کم ہوجاتی ہے اور جو اکا
دکا لوگ نظر آتے ہیں وہ سایہ دار درختوں کے نیچے والی بنچوں پہ بیٹھ کر وقت گزارنے
کو ترجیح دیتے ہیں۔ سردیوں میں جب یہاں برف پڑتی ہوگی تو پارک کے سارے درخت ٹنڈ
منڈ ہو کر ایک دوسرا ہی منظر پیش کرتے ہوں گے۔
یریوان کے قریب دو تاریخی عمارتیں ہیں جہاں ہم
جانا چاہتے ہیں؛ ایک گارنی کا مندر اور دوسری گغارد کی خانقاہ۔ ہم نے جس ٹیکسی
والے سے ان دو جگہ جانے کی بات کی اس نے منہ پھاڑ کر ہم سے دس ہزار درام مانگ لیے۔
ہم نے چھ ہزار درام سے بات شروع کی اور کسی طرح آٹھ ہزار درام پہ اس کو ان دو جگہ
ہمیں لے جانے کے لیے راضی کر لیا۔ ٹیکسی شہر سے باہر نکلی اور پہاڑ پہ چڑھ گءی۔
گارنی دریاءے آزاد کے ساتھ واقع ہے۔ گارنی
کا مندر اس لحاظ سے اہم ہے کہ آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح کسی علاقے کے لوگ
اپنا مذہب تبدیل کرنے پہ اپنے پرانے مذہب کی عبادت گاہوں کو اپنے نءے مذہب کی عمارتوں
میں ڈھال لیتے ہیں۔ حیاستان میں عیساءیت کے آنے سے پہلے گارنی کے مندر میں نہ جانے
کن بتوں کی پوجا ہوتی تھی مگر مقامی لوگوں کے عیساءی ہو جانے کے بعد یہ مندر اور
مندر کا احاطہ عیساءی عبادت کے لیے استعمال ہونے لگا۔ گارنی کے مندر کو دیکھ کر
خیال ہوتا ہے کہ بہت سے گول ستونوں والی اس عمارت کو یونان میں کہیں ہونا چاہیے تھا
کہ اس کا طرز تعمیر ایتھنز کے پارتھینون جیسا ہے۔ مندر کے قریب ہی ایک حمام ہے۔
پرانے وقتوں میں ٹھنڈے علاقوں میں نہانا ایک عیاشی تھی جس کے متحمل امرا اور ملا
ہی ہوسکتے تھے چنانچہ مندر کے احاطے میں موجود اس حمام کو گرم پانی فراہم کرنے کے
لیے بہت اعلی انتظام تھا۔ پانی لکڑی کے چولھوں پہ گرم کیا جاتا اور ایک نالی کے
ذریعے حمام کے اندر پہنچایا جاتا۔
گارنی سے گغارد زیادہ
فاصلے پہ نہ تھا۔ گغارد کی خانقاہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی عمارت ایک پہاڑ کے
ساتھ ہے اور کءی جگہ پہاڑ کو تراش کر ہی اس عمارت کے اندر موجود کمروں کی جگہ
بناءی گءی ہے۔ خانقاہ کے صدر دروازے سے گھستے ساتھ ہی ہم نے ایک راہب کو اپنے کالے
جبے اور کالی ٹوپی کے ساتھ ایک بنچ پہ براجمان پایا۔ اس راہب کے ساتھ تصویر
کھنچوانے کا ہدیہ پانچ سو درام وہیں ایک ساءن پہ درج تھا۔ حیاستان کے لوگ بہت
مذہبی واقع ہوءے ہیں چنانچہ خانقاہ میں جا بجا موم بتیاں روشن تھیں اور نءے آنے
والے موم بتی جلا کر اس جگہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے اور ہر جگہ یسوع مسیح کی
تصویر دیکھ کر اپنے سینے پہ صلیب کا نشان ضرور بناتے۔ خانقاہ کے پیچھے لگے درختوں
پہ لوگوں نے کپڑے کے چیتھڑے باندھے ہوءے تھے۔ جنوبی ایشیا میں بھی یہ روایت ہے کہ
جو بیمار سفر کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو وہ اپنے کسی جاننے والے کو اپنے کپڑے کا ایک
چیتھڑا دے دیتا ہے کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پہ یا کسی اور مقدس مقام پہ جا کر اس چیتھڑے کو کسی درخت
سے باندھ دے۔ خیال یہ ہے کہ اس طرح سفر کی سکت نہ رکھنے والے شخص کی حاضری اس مقدس
مقام پہ لگ جاتی ہے اور اس کے دل کی مراد پوری ہونے کا امکان ہوجاتا ہے۔ پرانی
مذہبی روایات کو نءے مذہب کے سانچے میں ڈھالنے کا کام ہرجگہ ہوتا رہتا ہے اور اسی
درمیان ایسی تحاریک بھی اٹھتی رہتی ہیں جو ڈنڈے کے زور پہ لوگوں کو مجبور کرتی ہیں
کہ وہ پرانی روایات چھوڑ کر دوسری نءی روایات اختیار کریں۔
Labels: Armenia, Garni, Geghard, Wish tree, Yerevan