Sunday, September 01, 2013
باکی کے ملتانی بچے
اگست
چودہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکیاون
باکی کے ملتانی بچے
علی حسن سمندطور
احوال سفر-اگست پانچ
ہم دوبارہ رمضان کے موسم میں داخل
ہوگءے ہیں۔ ترکی سے گرجستان پہنچنے پہ رمضان سے باہر آگءے تھے۔ گرجستان سے
حیاستان، اور پھر حیاستان سے واپس گرجستان تک رمضان سے باہر رہے۔ گرجستان کے
دارالحکومت تبلیسی سے آذرباءیجان کے قصبے شیکی پہنچنے پہ دوبارہ رمضان میں داخل
ہوگءے۔ مگر ترکی کی طرح آذرباءیجان میں بھی رمضان کی ایسی سختی نظر نہیں آتی جیسی
کہ پاکستان میں نظر آتی ہے۔ یعنی یہاں لا اکرہ فی الدین والا معاملہ ہے اور ڈنڈے
کے زور پہ لوگوں سے روزے نہیں رکھواءے جاتے؛ چنانچہ دن کے وقت بھی کھانے پینے کی
جگہیں کھلی رہتی ہیں اور لوگ سرعام سگریٹ پیتے بھی نظر آتے ہیں۔ البتہ نماز کے وقت
فضا اذانوں سے گونج جاتی ہے۔
دریاءے خضر [کیسپین سی] دنیا کی سب
سے بڑی جھیل ہے۔ آذرباءیجان کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت باکی [باکو] اسی سمندر کے ساتھ واقع ہے۔ باکی کی میٹرو
استعمال کرتے ہوءے کءی دفعہ مجھے دیسی شکلوں کے لوگ ںظر آءے تھے۔ مجھے تجسس تھا کہ
معلوم کروں کہ یہ لوگ کون ہیں۔
کل باکی کے پرانے شہر میں بخارا
کاروان سراءے کے ساتھ ملتانی کاروان سراءے کا نشان دیکھا تو حیرت ہوءی۔ ملتانی کاروان
سراءے؟ کیا اس ملتانی کاروان سراءے کا شہر ملتان سے کوءی تعلق ہے؟ پوچھنے پہ معلوم
ہوا کہ ملتانی کاروان سراءے کا شہر ملتان سے گہرا تعلق ہے۔ زمانہ قدیم میں شہر
ملتان سے باکی آنے والے کاروان ملتانی کاروان سراءے میں ٹہرا کرتے تھے۔
باکی نے ہوشیاری یہ دکھاءی ہے کہ
پرانے شہر کے بڑے حصے کو مختلف ریستورانوں کے سپرد کردیا ہے چنانچہ آپ کھنڈرات کے
بیچ میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور تاریخ سے اپنا رشتہ محسوس کرتے ہیں۔ اور اس
طرح ریستوراں والے ان کھنڈرات کی حفاظت کرتے ہیں کہ ان کی روزی روٹی اس سے وابستہ
ہوتی ہے۔ ملتانی کاروان سراءے اور بخارا کاروان سراءے روبہ رو ہیں۔ آج کل ان دونوں قدیم
عمارتوں میں ایک ریستوراں کام کرتا ہے۔ ہمارے استفسار پہ ہم سے کہا گیا کہ ہم اس
قدیم عمارت کے تہہ خانے میں جا کر اس کاروان سراءے کا معاءنہ کرسکتے تھے۔ سورج ڈوب
چکا تھا اور لوگ بخارا سراءے میں بیٹھے کھانا
کھا رہے تھے جب کہ ملتانی سراءے میں ابھی لوگ آنا نہیں شروع ہوءے تھے مگر وہاں بھی
میزیں برتنوں اور گلاسوں سے سجی تھیں۔
ملتانی کاروان سراءے کے تہہ خانے
میں ہمیں بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ وہاں ایک شیلف میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے
پیش کیے جانے والا تحفے، مٹی کے نقشین برتن، موجود تھے۔ دیوار پہ ان مشہور شخصیات
کی تصاویر تھیں جنہوں نے کبھی ملتانی کاروان سراءے کا دورہ کیا تھا۔ ان ہی تصاویر
میں ایک تصویر پرویز مشرف کی بھی تھی۔
ملتانی کاروان سراءے سے واپس ہوٹل
کے کمرے میں پہنچ کر میں بہت دیر تک زمانہ قدیم کے ان تجارتی کاروانوں کے بارے میں
سوچتا رہا۔ یہ قافلے کس راستے سے باکی پہنچتے ہوں گے؟ وہ غالبا ملتان سے کابل سے
مشہد، پھر دریاءے خضر یعنی کسیپین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوءے ایران کے شمال میں اور
پھر اوپر جاتے ہوءے باکی پہنچتے ہوں گے۔ ملتان سے باکی تک پہنچنے میں کتنا عرصہ
لگتا ہوگا؟ راستے میں کن کن بڑے تجارتی مراکز میں ان کاروانوں کا پڑاءو ہوتا ہوگا؟
کیا ملتان کی کسی پرانی عمارت میں ان تاجروں کے حساب کتاب کے کاغذ کہیں دفن ہیں؟ کیا
ایسی تحریری یادداشتیں بتا سکتی ہیں کہ پرانے وقتوں کے وہ تاجر کن اشیا کی تجارت
کرتے تھے، یہ کاروان کتنے بڑے ہوتے تھے، ان میں کتنے لوگ اور کتنے باربرداری کے
جانور ہوتے تھے؟ پرانے وقتوں میں تو سفر
بہت خطرناک تھا۔ کہیں جنگ تھی، کہیں وباءی بیماریاں تھیں۔ میر کاروان کو ہر دم
فیصلہ کرنا ہوتا ہوگا کہ آیا کاروان آگے بڑھے، کوءی دوسرا راستہ اختیار کرے، یا
واپس پلٹ جاءے۔ یہ قافلے آگے کی خبر کیسے لاتے ہوں گے؟ کیا کچھ کچھ دیر بعد ایک تیزرفتار گھوڑا آگے
روانہ کیا جاتا ہوگا کہ وہ اگلے پڑاءو سے متعلق خبر لاءے؟
اور ڈاکوءوں سے نمٹنے کے لیے ان قافلوں
کے پاس کیا حکمت عملی ہوتی ہوگی؟ کیا قافلے میں چند لوگ ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہوں
گے؟ میر کارواں کن صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہوگا؟ یقینا وہ دانا شخص ہوتا ہوگا جو
کءی زبانیں جانتا ہوگا۔ ستاروں کی مدد سے سمت کا تعین کرنے کا اہل ہوتا ہوگا۔ کیا زمانہ قدیم کے ان میران کاروان کے پاس یہ علم
آگیا تھا کہ سفر میں سب سے زیادہ احتیاط پانی کے سلسلے میں کرنی ہوتی ہے؟ کیا کہیں یہ میران کاروان سفر ایک دوسرے کو یہ
بات بتاتے ہوں گے سفر میں صرف چاءے پی جاءے یا پھلوں کے رس سے جسم کی پانی کی
ضروریات پوری کی جاءیں؛ کہ عام پانی پینا انتہاءی خطرناک ہے۔ قدیم وقتوں کے سر
پھرے جہاں نورد یقینا ان ہی کاروانوں کے ساتھ دنیا کی سیر کے لیے نکل جاتے ہوں گے۔
اور جب یہ آوارہ گرد کسی اچھی جگہ ٹہر جاتے ہوں گے اور ان کا قافلہ آگے روانہ
ہوجاتا ہوگا تو یہ کس قدر بے چینی سے اگلے قافلے کی روانگی کا انتظار کرتے ہوں گے؟
کاروان میں شامل کوءی شخص بیمار
پڑجاءے تو اس کے علاج معالجے کا کیا انتظام کیا جاتا ہوگا؟ اگر کوءی شامل قافلہ
شخص مر جاءے تو یقینا اس کو راستے ہی میں گاڑ کر کاروان آگے بڑھ جاتا ہوگا۔ کیا زمانہ قدیم کے یہ تاجر مختلف علاقوں میں
پڑاءو کرتے ہوءے اپنے بچے ان علاقوں میں چھوڑ جاتے تھے؟ کیا اسی وجہ سے باکی میں
بہت سے لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو دیسی شکلوں کے ہیں؟ کیا ملتان میں بھی باکی کے بہت
سے بچے موجود ہیں؟
اور سب سے اہم سوال یہ کہ آیا
پاکستان سے تعلق رکھنے والا کوءی محقق ان قافلوں پہ تحقیق کررہا ہے کہ درج بالا
سوالات کے جوابات حاصل کیے جا سکیں؟
Labels: 15th century trade, Ancient trade routes, Azerbaijan, Baki, Baku, Multani Karavanserai