Sunday, September 29, 2013

 

بے خبر علماءے اسلام؛ سفر کی تیاریاں







ستمبر اکیس، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھپن

بے خبر علماءے اسلام؛ سفر کی تیاریاں

ایک ایسے دوست سے بات ہورہی تھی جو کسی قدر مذہبی واقع ہوءے ہیں۔ نہ جانے کیسے ذکر آلو کا آگیا۔ میں نے یوں ہی ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اصحاب کرام ہفتے میں کتنی دفعہ آلو کھاتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ آلو سستی چیز ہے اور جن خدا کے بندوں کا ذکر ہورہا ہے ان کو پرتعیش زندگی سے کوءی سروکار نہیں تھا، کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اصحاب کرام بیشتر دن آلو ہی کھاتے ہوں گے۔ میں اس جواب سے محظوظ ہوا اور میں نے پوچھا کہ ٹماٹر کے متعلق کیا خیال ہے؛ اسلام کے اول زمانے میں کیا ٹماٹر بھی باقاعدگی سے استعمال ہوتے تھے؟ انہوں نے سوچ کر جواب دیا کہ شاید ٹماٹر اتنے استعمال نہ کیے جاتے ہوں گے۔ میں اس گفتگو کے مزے لے رہا تھا چنانچہ میں نے پوچھا کہ کیا اس وقت کے عرب علاقے میں ہری مرچ کا بھی استعمال ہوتا تھا۔ میرے دوست ان سوالات سے کسی قدر جھنجھلاءے مگر انہوں نے کہا کہ شاید ہری مرچ بہت زیادہ استعمال نہ کی جاتی ہوگی۔ پھر میں نے ان پہ بات واضح کی کہ بھاءی یہ تینوں چیزیں یعنی آلو، ٹماٹر، اور ہری مرچ پرانی دنیا میں نہ ہوتی تھیں اور کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد یہ چیزیں نءی دنیا سے پرانی دنیا لے جاءی گءی ہیں۔ چنانچہ پرانی دنیا [ایشیا، افریقہ، اور یورپ] میں آلو، ٹماٹر، اور ہری مرچ کی کاشت سولھویں صدی میں شروع ہوءی ہے۔ اصحاب کرام آلو، ٹماٹر، اور ہری مرچ نہیں کھا سکتے تھے کیونکہ اس وقت نہ امریکہ دریافت ہوا تھا اور نہ یہ چیزیں یہاں سے پرانی دنیا میں پہنچی تھیں۔ میرے دوست اس جواب سے کسی قدر خجل ہوءے مگر مجھ پہ ایک دفعہ پھر یہ بات واضح ہوگءی کہ جو جس قدر زیادہ مذہبی ہے اسی قدر معلومات عامہ سے بے بہرہ ہے۔ نماز روزے کے پابند عام لوگوں کے علاوہ ہم انہیں دیکھیں جنہیں علماءے اسلام کہا جاتا ہے تو وہ زمانے کے علم سے اور بھی زیادہ بے گانہ نظر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اسلام ترقی پسندی اور علم کی جستجو کا نام تھا۔ جب کہ آج کے 'علما' کے 'اسلام' سے صرف بوسیدگی کی بو اٹھتی ہے۔
احوال سفر۔ کوہ قاف کے نام سے جدید دور کے تین آزاد ملکوں کا خیال آتا ہے: گرجستان [جورجیا]، حیاستان [آرمینستان]، اور آذرباءیجان۔ کوہ قاف دو پہاڑی سلسلوں کا نام ہے: بڑا کوہ قاف اور چھوٹا کوہ قاف۔ آپ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ ان دو پہاڑوں پہ برسنے والا پانی مشرق میں دریاءے خضر یا بحرہ قزوین [کیسپءین] میں اور مغرب میں بحراسود میں گرتا ہے۔ بحر اسود تو آبناءے باسفور کے توسط سے دوسرے سمندروں سے ملا ہوا ہے مگر دریاءے خضر ایک جھیل ہے۔ ہر وہ جھیل جس کے پانی کی نکاسی نہ ہوتی ہو رفتہ رفتہ کھاری ہوتی جاتی ہے کہ پانی بخارات بن کر اڑنے پہ اپنے پیچھے نمکیات چھوڑ دیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جھیل کے پانی میں نمکیات کی مقدار بڑھتی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ہر دفعہ دریا اور ندی کا پانی اپنے ساتھ زمین کی نمکیات بہا کرجھیل میں لاتا ہے۔ چنانچہ دریاءے خضر کا پانی بھی کھارا ہے مگر کہتے ہیں کہ اس پانی میں نمکیات دوسرے سمندروں کی نمکیات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ دریاءے خضر کی تجارتی دنیا ہی الگ ہے کہ وہ تمام ممالک  جن کی سرحدیں اس سمندر سے لگتی ہیں، اس آبی راستے سے ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں۔
جب ہمارا ارادہ ہوا کہ کوہ قاف کا سفر کیا جاءے تو سوچا گیا کہ ان ملکوں کا دورہ کس ترتیب سے کیا جاءے۔ کیا یہ سفر غیرگھڑی وار کیا جاءے یعنی  ترکی سے ایران پھر اوپر آذرباءیجان، پھر گرجستان، پھر حیاستان اور واپس ترکی پہنچا جاءے؟ یا اس کی الٹی سمت میں گھڑی وار سفر کیا جاءے؟ طے پایا کہ گھڑی وار سفر کیا جاءے اور عید کے قریب ایران پہنچا جاءے۔ بجٹ سفر کی خاص باتوں میں کم سے کم سامان لے کر چلنا اور ٹہرنے کے لیے ہوٹل کا تعین کرنا شامل ہوتے ہیں۔ کپڑوں کا یہ حساب ہوتا ہے کہ ہم جو پتلون پہن کر چلتے ہیں بس اسی میں پورا سفر گزارتے ہیں۔ ہر پانچ سات دن میں رات کے وقت شب خوابی کے کپڑے پہن کر پتلون کو دھو لیتے ہیں اور اگلے دن سے پھر اسے پہننا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہوٹل کے انتظام کے سلسلے میں بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ بڑے شہروں میں تو پہلے سے ہوٹل کی بکنگ کریں مگر چھوٹے قصبوں میں رہنے کی جگہ وہیں جا کر تلاش کریں۔ بڑے شہروں میں فاصلے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے وہاں پہنچ کر رہنے کی صحیح جگہ تلاش کرنا زیادہ کٹھن کام ہے۔ جب کہ چھوٹے قصبوں میں پیدل چل کر ٹہرنے کی زیادہ بہتر اور کم خرچ جگہ تلاش کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے استنبول اور انقرہ میں ہوٹل کا انتظام کر لیا تھا اور ساتھ ہی انقرہ سے قرص تک کے لیے ٹرین کے ٹکٹ بھی لے لیے تھے۔ استنبول کے مرکزی ریلوے اسٹیشن حیدرپاشا سے مشرق کے لیے ٹرینیں نہیں روانہ ہورہی تھیں کہ آگے ریلوے لاءن پہ کام ہورہا تھا چنانچہ استنبول سے انقرہ بس سے جانا تھا اور آگے جانے کے لیے انقرہ سے ٹرین لینی تھی۔ جاری ہے۔


Labels: , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?