Monday, September 02, 2013
تبریز میں چونسا
ستمبر ایک، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو ترپن
تبریز میں چونسا
احوال سفر۔ اگست گیارہ۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ دو
آم کھاءے ہیں جو دوپہر ایک ریڑھی والے سے خریدے تھے۔ ریڑھی پہ دوسرے پھلوں کے ساتھ
آم دیکھ کر تعجب ہوا تھا۔ آم کی شکل چونسے کی تھی۔ ریڑھی والے سے پوچھا کہ یہ آم
کہاں سے آءے ہیں۔ اس نے کہا، از پاکستان۔ دل خوش ہوگیا۔ آم کے دام باقی پھلوں سے
کہیں زیادہ تھے مگر دل کڑا کر کے دو آم خرید لیے۔ ہوٹل کے کمرے میں آم کھانے پہ
خیال آیا کہ ہم واقعی پاکستان کے بہت قریب پہنچ گءے ہیں۔
آذرباءیجان کے شہر لنکاران
سے ایران پہنچنے کی داستان بھی خوب ہے۔ لنکاران سے روانگی ہوتے ہوتے رمضان کا
اختتام ہورہا تھا۔ ہمِیں ڈر تھا کہ کہیں عید پہ سب کچھ بند نہ ہوجاءے؛ ہم سرحد پار
کرنے کے لیے نکلیں، پھنس جاءیں، اور سرحد پہ کسی جگہ بسیرا کرنے پہ مجبور نہ
ہوجاءیں۔ مگر ایسا کچھ نہ تھا۔ آذرباءیجان میں عید کی خوشی ضرور مناءی جاتی ہے مگر
اکثر کاروبار کھلے رہتے ہیں اور جو بند ہوتے ہیں وہ بھی صرف ایک دن کے لیے۔ جب کہ
ایران میں عید کا دن پہلے سے طے تھا اور چاند دیکھنے کی شرط سے آزاد تھا۔
لنکاران کے ہوٹل کے کراءے
میں صبح کا ناشتہ شامل تھا چنانچہ ایران روانہ ہونے سے پہلے ناشتہ خوب دل کھول کر
کیا۔ ریستوراں میں جو بیرے کام کر رہے تھے وہ سب جواں سال تھے۔ ہم ناشتے کے لیے
میز پہ بیٹھے تو ایک سولہ سترہ لڑکے کے ساتھ ایک تیس سالہ آدمی آیا۔ وہ آدمی مترجم
کے فراءض انجام دینے آیا تھا۔ اس نے آتے ہی ہم سے پوچھا، 'آملیٹ؟'۔ ہم نے کہا کہ
آملیٹ تو کل کھایا تھا آج تلا انڈہ کھاءیں گے۔ مگر لگا کہ بات اس آدمی کو سمجھ میں
نہیں آءی ہے۔ وہ دونوں وہاں سے روانہ ہوگءے۔ مجھے یہ موقع دیے بغیر کہ میں ایک
کاغذ پہ ایک تلا انڈہ بنا کر انہیں دکھاتا۔ کچھ دیر میں وہ لڑکا اس نوجوان عورت کے
ساتھ نمودار ہوا جو ہوٹل کے استقبالیہ پہ نظر آتی ہے اور روانی سے روسی زبان بولتی
ہے۔ اس عورت نے آتے ہی ہم سے معافی مانگی کہ جس آدمی کو پہلے مترجم کے طور پہ
بھیجا گیا تھا اس کو بس معمولی انگریزی آتی ہے، اس لیے وہ ہماری بات سمجھ نہ پایا،" تم مجھے بتاءو کہ تم
ناشتے میں کیا کھاءو گے۔" ہم نے اپنا مدعا بیان کیا جو اس نے آذرباءیجانی میں
ترجمہ کر کے لڑکے کو سمجھا دیا۔ دونوں وہاں سے روانہ ہوگءے، مگر مجھے کسی قدر
افسردہ چھوڑ گءے۔ مجھے افسوس عورت کی معافی پہ ہوا تھا۔ اگر کسی کو انگریزی نہیں
آتی تو اس میں اس قدر معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہم بس سے لنکاران سے
آستارا تک کا سفر کرنا چاہتے تھے مگر ایک چرب زبان ٹیکسی والے نے ہمیں قاءل کر لیا
کہ ہم اس کے ساتھ ایران کی سرحد تک جاءیں؛ وہ اس سفر کے دس منات لے گا۔ جب ہم اس
کی گاڑی میں بیٹھ گءے تو اس کی نیت بدل گءی، اس نے گاڑی ایک پیٹرول پمپ پہ روکی
اور ہم سے پیٹرول کی مد میں دس منات لیے اور اس کے ساتھ ہی ہم سے کہا کہ دس منات
تو یہ ہوگءے، اب سرحد پہ پہنچ کر باقی دس منات دینا۔ ہم نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ
یہ تم ہم سے کیا فراڈ کر رہے ہو؛ دس منات کی بات طے ہوءی تھی۔ تمھیں دس منات دے
دیے تو بس کرایہ پورا ہوگیا؛ اب سرحد پہ پہنچ کر تمھیں ایک دھیلا نہیں ملے گا اور
اگر تمھیں اسی طرح اپنی بات سے پھرنا ہے تو ہمارے دس منات واپس کرو، ہم ابھی
تمھاری ٹیکسی سے اترتے ہیں۔ ٹیکسی والے کو ہمارے دھمکی سمجھ میں آگءی اور اس نے
کہا کہ نہیں بس کل دس منات ہی کی بات ہے؛ سرحد پہ پہنچ کر تم سے مزید رقم کا تقاضہ
نہیں کیا جاءے گا۔
لنکاران سے ایران کی سرحد
تک راستہ بہت خوبصورت تھا۔ دونوں طرف دور تک ہریالی تھی۔ راستے میں وقفے وقفے سے
دو قبرستان پڑے جہاں تازہ جنازے لاءے گءے تھے۔ ہمارے ٹیکسی والے نے ہر اس موقع پہ
اسٹءیرنگ سے ہاتھ اٹھا کر دونوں ہاتھ دعا کی صورت میں جوڑ لیے اور ڈبڈباتی آنکھوں
کے ساتھ دعاءیں بڑبڑانے لگا۔ ہم کسی قدر پریشانی سے اس کی ان عبادات کا مشاہدہ کر
رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ یہ شخص ڈراءیونگ سے یوں غفلت برتتا ہوا کہیں ہمارے
جنازے کا انتظام نہ کردے۔
آستارا پہ آذرباءیجان اور
ایران کی سرحدی چوکیوں کے درمیان ایک مختصر سی نو-مینز-لینڈ تھی جہاں ایک پل کے
نیچے سے وہ ندی گزرتی تھی جو دونوں ملکوں کے درمیان اصل سرحد کا کام دیتی تھی۔ ہم
ایران کی سرحدی چوکی پہ پہنچے تو اسے بند پایا۔ معلوم ہوا کہ عملہ دوپہر کے کھانے
کے وقفے پہ ہے۔ ہم نے حجت کی کہ رمضان میں دوپہر کا کھانا کیسا۔ پھر کچھ ہی دیر
میں سرحدی چوکی سے ملحق مسجد میں ظہر کی اذان ہوگءی۔ ہمار دل ڈوبا کہ اب عملہ نماز
پڑھنے کے لیے روانہ ہوجاءے گا۔ اور شاید ایسا ہی ہوا کیونکہ چوکی کے باہر ڈیڑھ
گھنٹے کے انتظار کے بعد چوکی کھلی۔ چوکی کے اندر ہمارے پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھے
گءے اور پھر ان میں دخول کی مہر لگا کر ہمیں ایران میں خوش آمدید کہا گیا۔
آستارا سے آردیبل کے سفر
میں ہمیں اندازہ ہوا کہ مذہب اسلام پتھر پہ لکھی کسی لکیر کا نام نہیں ہے بلکہ
مسلمانوں کے درمیان بہت مختلف سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ مثلا جنوبی ایشیا کے
مولویوں نے اپنے ماننے والوں کو بتایا ہے کہ اسلام کے برگزیدہ ہستیوں کی تصویر
بنانا حرام ہے۔ جب کہ ایران پہنچ کر صاف معلوم ہوا کہ ایران کے مولوی نے اپنے
ماننے والوں کو ایسا کچھ نہیں بتایا۔ چنانچہ آستارا سے آردیبل کے لیے نکلے تو ایک
ٹرک نظر آیا جس پہ سید الشہدا امام حسین لکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی امام حسین کی
تصویر بھی بنی ہوءی تھی۔ اسی طرح حضرت علی کی تصاویر بھی جا بجا نظر آءیں۔
Labels: Ardabil, Astara, Azerbaijan, Chonsa mango, Iran, Lankaran, Tabriz