Thursday, September 19, 2013

 

شاہ زیب خان قتل، قصاص، اور سفر کا حال

ستمبر چودہ، دو ہزار تیرہ 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم 
کالم شمار ایک سو پچپن


شاہ زیب خان قتل، قصاص، اور ونودظور

یوں تو پاکستان میں ہر روز دسیوں اور کبھی سیکنڑوں لوگ قتل ہوتے ہیں مگر کبھی کوءی قتل لوگوں کے ذہنوں پہ سوار ہوجاتا ہے اور لوگ قتل کے اس مقدمے میں انصاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قتل پچھلے سال شاہ زیب خان نامی نوجوان کا ہوا اوراس بات کے شواہد مل گءے کہ شاہ زیب کو شاہ رخ جتوءی اور اس کے مسلح ساتھیوں نے قتل کیا تھا۔ قتل کے اس واقعے کے بعد شاہ رخ ملک سے فرار ہوگیا مگر اخبارات میں اور سوشل میڈیا پہ چلنے والی عوامی مہم کے زور پہ سندھ پولیس شاہ رخ کو دبءی سے گرفتار کر کے واپس پاکستان لے آءی۔ شاہ رخ پہ مقدمہ چلا اور اسے سزاءے موت ہوءی۔ مگر اب سننے میں آرہا ہے کہ شاہ رخ کی رہاءی قصاص اور دیت [وہ رقم جسے لے کر مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کریں] کے شرعی قوانین کے تحت ہونے والی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر سن کر وہ لوگ بہت طیش میں ہیں جو سوشل میڈیا پہ شاہ زیب قتل کے سلسلے میں انصاف کی مہم چلا رہے تھے۔ وہ لوگ جو مختلف ساءن لے کر کراچی کی سڑکوں کے کنارے دنوں کھڑے رہے اب کف افسوس مل رہے ہیں کہ ناحق انہوں نے اپنا وقت ضاءع کیا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں امیر کے لیے ہر طرح کی چھوٹ ہے؛ صرف غریب پہ تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ مگر معترضین وہ بات نہیں کہہ رہے جو ان کے دل میں ہے ۔ اور وہ یہ کہ ہم مذہب کے نام پہ خرافات برداشت کرتے کرتے تھک چکے ہیں؛ کہ ہمیں یہ نام نہاد 'شرعی قوانین' قبول نہیں جو شاید چودہ سو سال پہلے عرب کے ریگستان میں تو چلتے ہوں مگر جن کا ہمارے نءے دور سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ کہ جو قوانین 'شریعت محمدی' کے نام پہ لاگو کیے جا رہے ہیں، ان کا اسلام کی اصل ترقی پسند روح سے کوءی تعلق نہیں اور یہ دراصل صرف شریعت ملاءی ہیں۔ قصاص اور دیت کا ہی قانون لے لیں۔ اس قانون کا تعلق اس زمانے سے ہے جب لوگ قباءل میں بٹے ہوءے تھے۔ ہر شخص اپنے قبیلے کا ایک اہم رکن تھا۔ اس رکن کا ختم ہوجانا پورے قبیلے کا نقصان تھا مگر اس نقصان کی صورت میں قبیلہ یہ فیصلہ کرسکتا تھا کہ وہ کس شرط پہ یعنی کتنی رقم لے کر اس قتل کو معاف کردے گا۔ آج ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ ایک بہت بڑی سماجی اور معاشی اکاءی ہے۔ اس معاشرے کا ہر فرد پورے معاشرے کی ملکیت ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی مقتول کے گھر والے مخصوص دیت پہ قاتل کو معاف کردیں؟ فی زمانہ ہر قتل کی معافی قاتل کو پورے معاشرے سے مانگنا ہوگی۔ اگر دیت دے کر ہی قتل معاف کروانا ہے تو اس دیت کے حق دار وہ لوگ بھی ہیں جو سوشل میڈیا پہ انصاف کی مہم چلاتے ہیں یا وہ جو شاہ زیب قتل کیس میں رات دن سڑک کے کنارے کیمپ لگاءے بیٹھے رہے۔
سفر نامہ جاری۔ جب ہم سفر پہ نکلتے ہیں تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ بس آگے سے آگے چلتے چلے جاءیں۔ یریوان میں رہتے ہوءے بھی ایسا ہی خیال تھا۔ دل تھا کہ وہاں سے آگے کاراباغ جاءیں کہ کاراباغ دلچسپ جگہ ہے۔ کاراباغ وہ علاقہ ہے جو اس وقت حیاستان [آرمینستان] کے قبضے میں ہے مگر آذرباءیجان کا دعوی ہے کہ کاراباغ اس کا علاقہ ہے۔ جب کہ کاراباغ اپنے طور پہ اپنے آپ کو حیاستان اور آذرباءیجان سے الگ ملک سمجھتا ہے۔ مگر کاراباغ میں بے انتہا دلچسپی ہونے کے باوجود واضح تھا کہ ہمارے پاس حیاستان میں مزید جنوب میں جانے کے لیے وقت نہیں ہے اور اگر حیاستان میں ایک دو دن کی مہلت ہے تو یہ وقت حیاستان کے شمال میں گرجستان [جورجیا] کی سرحد کے قریب صرف کرنا ہوگا۔ چنانچہ انتخاب ہوا ونود ظور کا۔
ونودظور نامی شہر کی خاص بات نہ صرف اس کی تاریخی اہمیت ہے بلکہ اس سے قریب دو قدیم خانقاہیں سناہین اور ہاغپات ہیں۔ ہم یریوان میں اپنے ہوٹل سے نکل کر پیدل چلے اور کچھ فاصلے پہ ایک ٹیکسی کو ٹہرا لیا۔ ٹیکسی والا ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ بات کرتے کرتے اس کا سانس پھول جاتا تھا اور ہمیں خیال ہوا کہ وہ بلند فشار خون کا مریض ہوگا۔ اس نے بتایا کہ وہ نیویارک میں رہ کر آیا تھا جہاں وہ گھروں میں مرمت کا کام کرتا تھا۔ وہاں اس کا باس ایک ہندوستانی تھا۔ اس ٹیکسی والے کو امریکہ میں رہنا بہت پسند آیا تھا مگر خاندان کے زیادہ ترلوگ حیاستان میں تھے اس لیے اسے واپس اپنے ملک آنا پڑا۔ سوویت یونین میں شامل دوسری ریاستوں کی طرح سوویت اتحاد ٹوٹنے پہ حیاستان کو بھی اپنا معاشی نظام یکایک بدلنا پڑا۔ عوام جو اس بات کے عادی ہوچکے تھے کہ ریاست ان کی مکمل ذمہ داری قبول کرتی ہے، ان کے لیے روزگار بھی فراہم کرے گی اور رہاءش کا انتظام بھی کرے گی، اچانک منڈی کی معیشت میں دھکیل دیے گءے۔ وہ معیشت جس میں جو جس قدر مضبوط اور وساءل سے مالامال ہے اسی قدر تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں یریوان میں جتنے بھی فقیر نظر آءے سب سن رسیدہ تھے۔ یقینا ان سب کی منفرد کہانیاں ہوں گی۔ کہ کس طرح ساری عمر انہوں نے ریاست کی ملازمت کی اور یہ خیال کیا کہ ریٹاءرمنٹ کے بعد ریاست ہی ان کی دیکھ بھال کرے گی۔ مگر پھر اشتراکیت کا دور ختم ہوگیا اور ان بوڑھے، کمزور لوگوں کو سرمایہ داری کے نظام میں پٹخ دیا گیا۔ ریاست نے بوڑھاپے میں ان کی کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا اور اب یہ لوگ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔
بس اڈے پہ ونودظور جانے کے لیے ایک وین اسی وقت روانہ ہوءی جب ہم وہاں پہنچے۔ دوسری وین کچھ دیر میں آءی اور رفتہ رفتہ مسافروں سے بھرتی گءی۔ بس اڈے پہ ہماری بات چیت ایک ایسی عورت سے ہو گءی جو تھی تو مقامی مگر فارسی بولتی تھی۔ وہ ان مسافروں کے لیے رہاءش کا انتظام کرتی تھی جو ایران سے آتے تھے۔ بہت دنوں بعد ہمیں تبریز میں سڑک کے کنارے ایسے ساءن لگے نظر آءے تھے جو لوگوں کو گرجستان میں چھٹیاں منانے کی دعوت دے رہے تھے۔
 وہ ایک گرم دن تھا مگر وین کے چلنے پہ باہر سے آنے والی ہوا نے سفر کو کسی قدر خوشگوار بنا دیا۔ وین میں ڈراءیور سمیت مختلف لوگوں کے سیل فون کچھ کچھ دیر بعد بجتے رہے۔ اپنے مداحوں کی تعداد میں وہ نوجوان سب سے آگے تھا جو ڈراءیور کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ ہر دفعہ فون آنے پہ وہ مدعی سے زور زور سے باتیں کرتا اور اس گفتگو میں کءی بار لفظ پاسپورٹ آتا۔
ونودظور کے راستے میں وین بس ایک ہی جگہ رکی۔ وہاں سڑک کے ساتھ ایک عمارت کے ساءے میں ایک نابینا فقیر بیٹھا تھا جس نے ایک بوسیدہ سوٹ کیس سے ہارمونیم نکال کر اسے کچھ دیر بجایا اور پھر ہارمونیم کو احتیاط سے واپس سوٹ کیس میں رکھ دیا۔
ونودظور میں وین نے ہمیں جہاں اتارا وہاں سے ہوٹل آرگشتی کا فاصلہ مشکل سے آدھا میل تھا۔ ہوٹل آرگشتی میں ہمیں ایک کمرہ دکھایا گیا۔ ہم نے کمرے کے چھوٹے ہونے کی شکایت کی تو ہمیں سب سے اوپری منزل پہ ایک دوسرا کمرہ دکھایا گیا مگر اس کا کرایہ پہلے کمرے کے کراءے سے کہیں زیادہ بتایا گیا۔ ہم نے مینیجر سے کہا کہ ہمیں یہ دوسرا کمرہ پسند تو آیا ہے مگر اس کے دام ہم وہی دیں گے جو ہمیں پہلے کمرے کے بتاءے گءے تھے۔ مینیجر نے ہم سے مہلت مانگی کہ وہ ہوٹل کے مالک کو فون کر کے پوچھے گا کہ آیا بڑا کمرہ اس نرخ پہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کہیں فون ملایا گیا، مختصر بات ہوءی اور پھر ہمیں فیصلہ سنا دیا گیا کہ ہمارے مطلوبہ نرخ پہ کمرہ ہمیں دیا جاسکتا ہے۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہوٹل شہر کے ناظم کی ملکیت تھا۔ یعنی وہی پرانا قصہ کہ جدید معاشرے میں دولت، اثرو رسوخ، اور شہرت جلد یا بدیر ایک نقطے پہ مرتکز ہوجاتے ہیں۔




APC and talks with Taliban; Karachi operation; Syria from WBT TV on Vimeo.

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?