Tuesday, December 30, 2014

 

پاکستان کی سمت کی جنگ؛ سماجی معاہدہ





دسمبر اٹھاءیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکیس


پاکستان میں لوگوں کو 'اسلام' کی چھڑی کی مار ماری جاتی ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کے خلاف بات کی جو زور زور سے اسلام کا نام استعمال کررہا ہے تو اس شخص سے مخالفت کو اسلام کی مخالفت سمجھا جاءے گا۔ لوگ مولویوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں سے ڈر کر رہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے جیسے بہت سے لوگوں کو اس وقت حیرت ہوءی جب پاکستان میں شاید پہلی بار کسی مسجد کے باہر مسجد کے مولوی کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ اس بات کا عین امکان ہے کہ بہت سے مولوی پشاور اسکول سمیت طالبان کے تمام حملوں کے متعلق ایسے ہی خیالات رکھتے ہوں جیسے خیالات لال مسجد کے ملاعبدالعزیز برقعہ پوش رکھتے ہیں مگر عبدالعزیز کی شامت یہ آءی کہ ٹی وی پہ نظر آنے کے شوق میں انہوں نے دل کی بات ٹی وی پہ کہہ دی۔ پشاور اسکول حملے کے بعد لوگ طالبان اور ان کے حمایتیوں سے سخت نالاں ہیں چنانچہ لوگوں کا غصہ عبدالعزیز پہ نکلا اور ان کی مسجد کے باہر مظاہرہ شروع ہوگیا۔
یہ بات سب پہ واضح ہے کہ اس وقت پاکستان کی سمت کی جنگ جاری ہے۔ جناح کی رحلت کے فورا بعد پاکستان کی سمت بدلنا شروع ہوءی اور پاکستان بتدریج مولوی کے اسلام کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ پاکستان اس دلدل میں کتنا اندر ہے؟ کیا اس وقت بھی وہ ملک اس دلدل سے باہر آسکتا ہے؟ کیا یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا مذہب، لوگوں کا ایمان لوگوں کا ذاتی معاملہ ہواور ریاست ان معاملات میں اپنی ٹانگ نہ اڑاءے؟ تماشہ آپ بھی دیکھ رہےہیں اور ہم بھی۔
ہم خیال لوگوں کی جو بستی کراچی سے باہر بننے جارہی ہے اس کے لیے تعلیمی ویڈیو بنانے کا کام جاری ہے۔ ایک ویڈیو معاشرے میں نظم وضبط پہ بن رہا ہے۔
کسی بھی شخص کے لیے جس نے دنیا میں تھوڑا بہت بھی سفر کیا ہو یہ مشاہدہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ جو معاشرے جس قدر زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ ہیں ان میں اتنا ہی زیادہ نظم و ضبط ہے۔
دراصل صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کی آبادی میں زوردار اضافہ ہوا ہے اور اتنے زیادہ لوگوں سے نمٹنے کے لیے نظم و ضبط ضروری ہے۔
جب بہت سارے لوگ ایک ہی  جیسی ضرورت رکھتے ہوں تو اس مجمعے سے کیسےنمٹا جاءے؟
سب سے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ کسی طریقے کا اہتمام نہ کیا جاءے۔ مجمع لگانے والے سب آپس میں نمٹیں۔ یہ بات واضح ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ نتیجہ وہی ہوگا جو غیر مہذب جگہوں پہ نظر آتا ہے یعنی چھینا جھپٹی اور دھینگا مشتی۔ جو سب سے زیادہ طاقتور ہے وہ سب کو مار پیٹ کر ایک طرف کرے گا اور آگے بڑھ کر اپنا حصہ لے لے گا۔ کمزور پیچھے رہ جاءیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ طریقہ غیر مہذب کیوں ہے؟ یہ طریقہ غیرمہذب اس لیے ہے کیونکہ اس طریقے میں جنگل کا قانون کارفرما ہے اور انسان ایک عرصہ پہلے جنگل کے قانون سے نکل آیا ہے۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں جہاں ہمارے ساتھ انصاف ہو۔ انصاف۔ یہ ایک اچھا لفظ ہے۔ تو پھر جب بہت سے لوگ ایک ضرورت کے تحت جمع ہوں تو ان سے نمٹنے کے سلسلے میں انصاف کیسے ہو؟ انصاف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے سلسلے میں کوءی ترتیب استعمال کی جاءے۔ مثلا پہلے آءو، پہلے پاءو کا نظام اچھا ہے اور اس میں انصاف بھی نظر آتا ہے۔ اب یہ کیسے معلوم ہو کہ پہلے کون آیا تھا؟ اس کی ترکیب یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے آگے آنے والا سب سے آگے ہو، اور اس کے بعد آنے والے اس کے پیچھے نفس در نفس کھڑے ہوتے جاءیں۔ اسی عمل کو قطار بنانا کہتے ہیں۔ قطار بھی مہذب اور غیر مہذب انداز سے بناءی جاسکتی ہے۔ ایک قطار ایسی بھی ہوسکتی ہے جس میں کچھ لوگ قطار میں سیدھے کھڑے ہوں اور بہت سے اس قطار کے داءیں باءیں کھڑے ہوں۔ لوگوں کا ایسا مجمع قطار کی شکل سے دور وہی جھمگٹے والی صورت ہے۔ اس میں یہی احتمال ہے کہ یہ واضح نہ ہوگا کہ کون بعد میں آیا ہے اور کس کے پیچھے ہے اور لوگ داءیں باءیں سے قطار توڑ کر اس مجمع میں شامل ہوتے جاءیں گے۔ مہذب قطار وہ ہے جو سیدھی ہو اور بات باکل واضح ہو کہ کس ترتیب سے کس کی باری پہلے آءے گی اور اس کے بعد کس کی۔ اس مہذب قطار میں لوگ بھی ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پہ کھڑے ہوتے ہیں، اپنے آگے والے سے بالکل چپک کر نہیں۔ اگر جگہ تنگ ہو اور قطار کو سیدھی لکیر میں بہت آگے تک نہ بڑھایا جاسکے تو قطار کو تہہ کردیا جاتا ہے اور لوگ تہہ در تہہ قطار میں آگے کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ قطار کی ایک بہتر مہذب شکل وہ ہوتی ہے جس میں بوڑھے، نادار، اور دوسرے کمزور افراد کا خیال کیا جاءے اور ان کو قطار میں اپنی باری سے سوا آگے آنے کا موقع دیا جاءے۔

[انڈونیشیا سے سنگاپور جانے والا اءیر ایشیا کا ایک جہاز اس وقت غاءب ہے۔ یہ تصویر اءیر ایشیا کی ایک پرواز کی ہے جس سے ہنوءی سے بینکاک  کا سفر کیا گیا تھا۔ حال میں کوالالمپور سے جکارتا اور پھر بالی سے کوالالمپور کا سفر بھی اءیر ایشیا سے کیا گیا مگر ان پروازوں کی کوءی تصویر میرے پاس نہیں ہے۔]


Pakistan, Islam, Maulana Abdul Aziz, Red Mosque, Lal Masjid, Islamabad, Protests, Separation between faith and state, Taliban, Air Asia QZ8501, Surabaya, Singapore, Hanoi, Bangkok, Malaysian Airlines, Malaysia, Elmustee, Discipline in dealing with crowds, crowd control, Elmustee Orientation Videos,  

Labels: , , , , , , , , ,


Tuesday, December 23, 2014

 

وہ خون میں لتھڑے چھوٹے لاشے



دسمبر اکیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بیس


وہ خون میں لتھڑے چھوٹے لاشے

 

صبح کا معمول یہ ہے کہ آنکھ کھلنے پہ منہ پہ چند چھینٹے مارنے کے بعد تین چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ پانی پینے کے بعد اپنے ذاتی غلام یعنی کمپیوٹر کا بٹن دباتا ہوں۔ کمپیوٹر کے چوکس ہو جانے پہ سب سے پہلے ایک ورڈ مسل کھولتا ہوں۔ یہ مسل روز کی اہم نگارشات لکھنے کے کام آتی ہے۔ ہر روز کی الگ مسل ہے مگر ہر روز کی مسل کا تعلق پچھلے روز کی مسل سے ہوتا ہے کہ پچھلے روز کی مسل کا نام تبدیل کر کے ہی نءی تاریخ کے حساب سے اس کا نیا نام دیا جاتا ہے۔ اس مسل میں سب سے اوپر جو جملہ لکھا ہے وہ یہ ہے۔"صبح ہوءی۔ آنکھ کھلی۔ میں نے شکر ادا کیا کہ مجھے زندگی کا ایک اور دن مل گیا۔ اب یہ بھاری ذمہ داری مجھ پہ ہے کہ اس دن کو بہترین طور پہ جیوں اور اس سے زندگی کس کر کشید کروں۔" اس جملے کو لکھنے کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ میں زندگی کو اپنا حق نہیں سمجھتا اور ہرعطا کیا جانے والا لمحہ آنکھوں سے چوم کر جیتا ہوں۔ زندگی سے وابستہ موت کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ کبھی کسی متوفی کا پیارا جانے والے کی موت پہ زیادہ بین کرے تو دل میں آتا ہے کہ اسے بتاءوں کہ 'تم بھی اپنی موت سے کچھ دور نہیں ہو۔' اپنے آس پاس لوگوں سے کہتا رہا ہوں کہ کسی کی رحلت پہ آہ و زاری کرنے کے بجاءے مرحوم کی زندگی کا جشن منایا جاءے؛ یاد کیا جاءے کہ جانے والے نے اپنی زندگی کس طرح گزاری۔ یوں جیسے کسی بلے باز کے آءوٹ ہونے پہ اس کے لیے تالیاں بجاءی جاتی ہیں کہ وہ جب تک کھیلا، کتنا اچھا کھیلا۔ مگر موت کی حقیقت کو اتنی اچھی طرح تسلیم کرنے کے باوجود کسی بچے کی موت پہ ضرور افسردہ ہوتا ہوں۔ اور جب ایسا ہو کہ چند گمراہ ملاعین کسی اسکول میں گھس کر معصوم بچوں کو قتل کریں تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔
پشاور آرمی اسکول میں ایک سو بتیس بچوں کے قتل کا واقعہ دنیا بھر کے لوگوں کی آنکھوں کو اشکبار کرگیا۔ قوم و مذہب سے بلند ہوکر ساری دنیا میں لوگوں نے اس واقعے کا غم منایا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس گھناءونی واردات کی ذمہ داری قبول کی مگر ہمارے ہی درمیان ایسے لوگ ہیں جو ہماری آنکھوں پہ پردہ ڈالنے کے درپے ہیں۔ ان لوگوں میں داءیں اور باءیں بازو کے لوگ، دونوں ہی شامل ہیں۔
باءیں بازو کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے اسکول پہ حملہ کیا ان لوگوں کو خود پاکستانی فوج ہی نے تو بنایا ہے۔؛ پاکستانی فوج کواب وہی سانپ ڈس رہے ہیں جنہیں فوج نے پالا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں جاری سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے مجاہدین کو پاکستان میں تربیت دی گءی تھی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان غیرفوجیوں کی عسکری تربیت سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہی تھی، مگر وہ بات اب پرانی ہوچکی ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج ان شدت پسندوں سے محاذ آرا ہے۔ پاکستانی فوج کے جوان اس جنگ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ یہ بیس، تیس سال کے لڑکے اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے دے رہے ہیں تا کہ پاکستان کے عام لوگ جو یقینا نہتے ہیں شدت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ ان حالات میں پاکستانی فوج کے جوانوں کو ہماری اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ ان جوانوں کو ماضی یاد دلانا، اور پوری فوج کا مذاق اڑانا نہ تو عقل مندی ہے اور نہ ہی پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے دوستی۔
راءے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے داءیں بازو کے لوگ اور بھی آگے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی کارواءیوں کے پیچھے خفیہ بیرونی ہاتھ ہے۔ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے ان شدت پسندوں کی عسکری مدد کررہے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر ایسا ہو بھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خفیہ ہاتھ کو تلاش کرنے کی کوشش میں عیاں چہرے کو نظرانداز کردیا جاءے؟ ممکن ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجوءوں کی مدد بھارت کے خفیہ ادارے کچھ اس طرح کررہے ہوں کہ طالبان بھی اس مدد کی حقیقت کو نہ سمجھ رہے ہوں مگر ایسا ہونے کے باوجود ہمارے لیے زیادہ موثر کام یہ ہے کہ پاکستان کی جغرافیاءی حدود کے اندر ہمارے اپنے لوگ جو ہمارے فوجیوں سے لڑ رہے ہیں، ہم ان سے نمٹیں  نہ کہ ملک سے باہر نکل کر اس ہاتھ کو کاٹنے کی کوشش کریں جو شاید ہمارے اپنے متحرب لوگوں کی مدد کررہا ہے۔
داءیں بازو سے تعلق رکھنے والے دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ پاکستانی فوج شدت پسندوں سے لڑاءی میں ان شدت پسندوں کے پورے پورے خاندانوں کا صفایا کررہی ہے اور مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں، اور اسی لیے شدت پسند بھی فوجیوں کے بچوں کو مارنے کا حق رکھتے ہیں۔ اول تو ایسا کوءی ثبوت موجود نہیں ہے کہ پاکستانی فوج شدت پسندوں کے بیوی بچوں کو دانستہ یا نادانستہ مار رہی ہے۔ دوءم یہ کہ شدت پسندوں پہ جنگی کارواءی اس لیے ہورہی ہے کیونکہ وہ خود لڑنا چاہتے ہیں۔ ان شدت پسندوں کو بارہا موقع دیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار رکھ دیں مگر وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ جنونی، ہتھیار کے زور پہ طالبانی اسلام پورے پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی عوام اس طالبانی نظام کے خلاف ہے اور اسی لیے ہماری ان لوگوں سے کھلی جنگ ہے۔ اور اس کھلی جنگ میں غلطی اور ناپسندیدہ نقصان کا ہمیشہ امکان رہے گا۔


Labels: , ,


Friday, December 19, 2014

 

گٹمو کی بندش اور ملکیت کا تصور









دسمبر تیرہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انیس


گٹمو کی بندش اور ملکیت کا تصور


سانتا کلارا، کیوبا۔ چے گوویرا کی یادگار پہ اس روز کم ہی لوگ تھے۔ داخلے سے پہلے مجھے سمجھایا گیا کہ اندر جا کر نہایت خاموشی سے ہر چیز کو دیکھتے ہوءے آہستہ آہستہ چلنا ہے اور دوسری طرف سے باہر نکل جانا ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں چے کی یاد میں جلنے والے ابدی شعلے کے پاس پہنچ کر ایک لمحے کو ٹہرا۔ چے نے اشتراکی دنیا کا جو خواب بالخصوص لاطینی امریکہ کے لیے دیکھا تھا وہ سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ چکنا چور ہوچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چے کی یاد میں جلنے والا یہ شعلہ کتنی دیر قاءم رہے گا۔ میں سینتاکلارا میں جنوب مشرق کی طرف دیکھتا ہوا یہ سمجھتا تھا کہ اگر میں اس رخ پہ مستقل چلتا رہوں تو امریکہ کی بدنام زمانہ جیل گٹمو پہنچ جاءوں گا۔ گٹمو، جزیرہ کیوبا کا وہ چھوٹا سا حصہ ہے جو طاقت کے زور پہ آج بھی امریکہ کے قابو میں ہے۔ اب نءی خبر یہ ہے کہ گٹمو جیل کو بند کیا جارہاہے۔ گٹمو کے قیدیوں کو ادھرادھر روانہ کیا جارہا ہے۔ چند دن پہلے پانچ دوسرے قیدیوں سمیت شام سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک قیدی کو جنوبی امریکہ کے ملک یوروگواءے میں بسایا گیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان قیدیوں کو دنیا میں ادھر ادھر بسانے کی کوشش کیوں ہورہی ہے۔ خود امریکہ انہیں کیوں پناہ کیوں نہیں دے دیتا؟ شاید اس لیے کیونکہ ان لوگوں کو جمہوریت کی پناہ سے دور رکھنا مقصود ہے۔ اگر یہ قیدی اس پناہ میں آگءے تو ان لوگوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاءیں گے جن لوگوں نے ان قیدیوں کو بغیر کسی مقدمے کے اتنے سالوں جیل میں رکھا۔
بات ہورہی ہے دنیا میں بے چینی اور اشتراکیت کی تو کچھ ذکر ملکیت کے تصور کا ہوجاءے۔ یہ مواد ایک ایسے ویڈیو میں کام آءے گا جو ہماری بستی کے لوگوں کی عمومی معلومات کے لیے بناءی جاءے گی۔
انسان کی بنیادی حاجات انفرادی ہیں مگر یہ حاجات جن ذراءع سے پوری کی جاتی ہیں ان کو ذاتی ملکیت کے پنجرے میں بند کرنا مشکل کام ہے۔ اس بات کو کھانے کی مثال سے سمجھیے۔ آپ جو کھانا کھاتے ہیں وہ یقینا صرف آپ کے پیٹ میں جاتا ہے۔ مگر یہ کھانا جن ذراءع سے پیدا ہوتا ہے، یعنی زمین، ہوا، پانی، وہ تمام چیزیں آپ کے دنیا میں آنے سے پہلے بھی وجود میں تھیں اور آپ کے یہاں سے رخصت ہونے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ گویا حاجات پوری کرنے والی اشیا کے ذراءع پہ انفرادی ملکیت کا اگر کوءی دعوی ہو بھی تو وہ بہت مختصر مدت کا ہوتا ہے اور وہ مدت زیادہ سے زیادہ ایک انسانی زندگی کی طوالت ہوسکتی ہے۔ زمین، ہوا، پانی، روشنی، یہ سب یقینا مشترکہ انسانی سرماءے ہیں۔ ان مشترکہ انسانی خزانوں کے ثمرات دنیا کے تمام انسانوں کے تصرف میں آتے ہیں۔
ہوا کی مثال لیجیے۔ انسان جب سانس لیتا ہے تو اس ہوا میں انسان کے سب سے کام کی چیز آکسیجن گیس ہوتی ہے۔ انسان آکسیجن استعمال کرتا ہے۔ انسانی استعمال کے بعد آکسیجن کاربن ڈاءی آکساءڈ نامی گیس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان آکسیجن لیتا ہے اور کاربن ڈاءی آکساءڈ خارج کرتا ہے۔ جب کہ درخت اس عمل کا بالکل الٹ کرتے ہیں یعنی درخت کاربن ڈاءی آکساءڈ لیتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ درخت جو آکسیجن خارج کرتے ہیں وہ دنیا میں ٘موجود ہوا میں مل جاتی ہے۔ اسی لیے دنیا میں کہیں بھی جنگلات کا صفایا ہورہا ہو، درخت کاٹے جارہے ہوں، تو آپ اس مسءلے کو بالکل اپنا ذاتی مسءلہ تصور کیجیے کہ دراصل جنگلات کی صفءی سے ایک چھوٹی سطح پہ آپ کی اپنی سانس بند کی جارہی ہے۔
ہر شخص دوسرے لوگوں کے درمیان ایک سماجی معاہدے کے تحت رہتا ہے۔ بہت جگہ یہ سماجی معاہدہ لکھاءی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور کءی جگہ محض اس معاہدے کا ادراک ذہنوں میں ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی بھی ایسے ہی ایک سماجی معاہدے کا حصہ ہے جو مشترکہ انسانی سرماءے سے متعلق ہے۔ اگر ایک شخص دوسروں کی موجودگی میں ایک بند جگہ، مثلا بس میں، ٹرین کے ڈبے میں، یا ایک دفتر میں سگریٹ نوشی کررہا ہے تو وہ شخص دراصل اس ہوا کو آلودہ اور خراب کررہا ہے جو وہاں موجود دوسرے لوگوں کے کام آنی ہے۔
یہی حال پانی کا بھی ہے۔ پانی کے تمام ذخاءر بنی نوع انسان کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ اگر ایک شخص یا لوگوں کا ایک گروہ پانی کے کسی ذخیرے میں آلودگی پھیلاتا ہے یا اس کو کسی اور طرح سے خراب کرتا ہے تو دراصل اس عمل سے دوسرے لوگوں کے ساتھ زیادتی  ہو رہی ہے۔
اشیا کے استعمال میں ایک صورت مختصر دورانیے کے استعمال کی ہوتی ہے۔ [واضح رہے کہ انسان کے استعال کی ہر شے ہی مختصر دورانیے کی ہے کیونکہ انسانی زندگی خود بہت مختصر ہے مگر یہاں بات اس سے بھی چھوٹے دورانیے کی ہورہی ہے۔] مثلا جب آپ ایک ٹیکسی میں سوار ہوتے ہیں تو آپ ایک ان کہے سماجی معاہدے سے ٹیکسی والے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور وہ سماجی معاہدہ یہ ہے کہ آپ ٹیکسی کی نشست کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے دوران محض بیٹھنے کے لیے استعمال کریں گے۔ یعنی کسی مخصوص شے کا عمومی استعمال جو ایک ان کہے باہمی معاہدے کا حصہ ہے۔ مثلا اگر آپ کسی ٹیکسی والے کو روک کر بتاءیں کہ آپ کو ناظم آباد جانا ہے مگر وہاں جانے کے دوران آپ ٹیکسی کی نشست کو ایک بلیڈ سے چیریں گے تو وہ ٹیکسی والا آپ کو ہرگز اپنی گاڑی میں نہیں بٹھاءے گا۔ اسی طرح اگر آپ لاءبریری سے ایک کتاب یہ کہہ کر حاصل کریں کہ آپ کتاب کو پڑھنے کے علاوہ اس میں جگہ جگہ نشانات لگاءیں گے، اس کے صفحات بھی پھاڑ دیں گے تو یقینا لاءبریری آپ کو کتاب دینے سے انکار کردے گی۔
کسی بھی ملک میں رہنے والے لوگوں کا مشترکہ سرمایہ عموما ایک حکومت کے زیر انتظام ہوتا ہے۔ اس مشترکہ سرماءے میں دریا، جھیلیں، پہاڑ، اور دوسرے قدرتی ذراءع شامل ہوتے ہیں۔ اسی مشترکہ سرماءے میں وہ چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جو ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے خرچے سے بناءی جاتی ہیں، مثلا، سڑکیں، پل، روشنی کے کھمبے، وغیرہ۔ اس مشترکہ سرماءے کے اخراجات کسی نہ کسی طور سے شہری پورے کرتے ہیں، اور عموما یہ شکل ایک ٹیکس کی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مشترکہ سرمایہ ہر شہری کا ہوتا ہے مگر پورے کا پورا کسی ایک شہری کا نہیں ہوتا۔ اگر ایک شخص غصے میں آکر اپنے محلے میں موجود بجلی کے کھمبے کو توڑتا ہے تو وہ یقینا ایک ایسی چیز کو نقصان پہنچا رہا ہے جو صرف اس کی نہیں ہے بلکہ اس کی سب کے ساتھ شراکت میں ہے۔



Labels: , , , ,


Friday, December 12, 2014

 

جشن تاشی ظہیر





دسمبر سات،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اٹھارہ


جشن تاشی ظہیر
 
جمعہ دسمبر پانچ، سان فرانسسکو بے ایریا کے معروف شاعر تاشی ظہیر کے اعزاز میں ایک پرتکلف تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبوں میں تاشی ظہیر صاحب کی اعلی خدمات کو سراہا گیا۔ اس تقریب کا انعقاد خالد رانا صاحب کی قیادت میں تاشی ظہیر کے دوستوں نے کیا تھا۔ محفل کی نظامت کے فراءض ارشد رشید صاحب نے انجام دیے۔
خالد رانا، عبدالستار غزالی، جعفر شاہ، نگیش اوادھانی، اور جی ایس فلک نے اپنی تقاریر میں تاشی ظہیر کی ادبی خدمات کا ذکر کیا اور اردو اکیڈمی شمالی امریکہ کے جھنڈے تلے ماہانہ ادبی نشست باقاعدگی سے منعقد کرانے پہ ان کے کام کوخراج تحسین پیش کیا۔
اس تقریب میں بہت سے ایسے لوگ بھی شریک تھے جنہوں نے کسی نہ کسی موقع پہ تاشی ظہیر صاحب کے ساتھ دفتری کام کیا تھا۔ ڈینا لالس، کوریو کماچو، اور عمران جعفر نے کاروباری معاملات میں تاشی ظہیر کی پروفشنل خدمات کا اعتراف کیا۔
محمد ناظر خان، سمن تنیجا، روبینہ قریشی، اور نیلوفر خان نے اپنی تقاریر میں تاشی ظہیر کی کمیونٹی خدمات کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح ان لوگوں نےتاشی ظہیرصاحب کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار پایا۔
اس موقع پہ تاشی ظہیر کے بڑے صاحبزادے عمار ظہیر اور بیگم ناہید ظہیر نے بھی مختصر کلمات ادا کیے۔
تقاریر کے اختتام پہ فرح یاسمین شیخ نے کتھک رقص پیش کیا۔ ان کے ساتھ ایک طبلہ نواز اور سرود پہ بین کونین تھے۔
رقص کے بعد ایک موسیقی پروگرام کا آغاز ہوا جس میں الماس شبوانی، عطیہ حءی، طلعت قدیر خان، نگیش اوادھانی، ٹینا مان، اور سید ثروت نے تاشی ظہیر کی شاعری گا کر سناءی۔ کی بورڈ پہ علی شہاب الدین اور طبلے پہ اشنیل سنگھ نے گانے والوں کا ساتھ دیا۔ ان ہی میں سے چند مغنیوں نے دوسرے معروف گانے بھی پیش کیے اور یوں مدھر سروں کی یہ محفل رات دو بجے کے بعد اختتام پذیر ہوءی۔
فدوی بھی تاشی ظہیر کی صحبت سے بہرہ مند ہوا ہے۔ میں تاشی ظہیر کو بہت غور سے دیکھوں تو مجھے ان آنکھوں میں بہت دور ایک ایسا لڑکا نظر آجاتا ہے جو ملتان میں صابر فلور ملز کے باہر پریشان کھڑا ہے۔ اس پریشانی میں جو ایک سولہ سالہ لڑکے کو باپ کا سایہ سر سے اٹھنے پہ ہوسکتی ہے۔ اس ناگہانی آفت نے اس لڑکے کو وقت سے پہلے بلوغت میں دھکیل دیا۔
حسرت نے جو شعر زنداں کی مشقت کے بارے میں لکھا تھا صابر دہلوی صاحب اس شعر کی زندہ مثال تھے۔ صابر دہلوی مشق سخن کے ساتھ اصل چکی کی مشقت کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ صابر فلور ملز کی چکی بجلی سے چلتی تھی۔ یہاں چکی کی مشقت میں گندم اور دوسرا اناج خریدنا، کاریگروں کی مدد سے اسے پیسنا، آٹے کو بوریوں میں بند کرنا اور اسے گاہکوں کو بیچنا اور اس پورے کاروبار کا حساب کتاب چلانا شامل تھے۔ ان کاروباری مصروفیات کے دوران بھی اشعار یقینا آتے رہتے ہوں گے جو فرصت ملنے پہ کاغذ پہ اتارے جاتے ہوں گے۔ صابر دہلوی کے نامور ہم عصر، شاعری کے میدان میں صابر دہلوی کا مقام پہچانتے تھے؛ اسی لیے اعلی مقام شعرا ملتان آنے پہ صابر دہلوی سے ضرور ملتے۔ 
تاشی ظہیر کا بچپن آٹے کی چکی کے کاروبار، صابر دہلوی کی شاعری، اور گھر آنے والے نامور سخنوران اردو کی صحبت سے مل کر بنا ہے۔ صابر دہلوی کی وفات سے جہاں ایک طرف گھر میں ہمہ وقت موجود ایک بڑا شاعر گیا وہیں اس رحلت کے ساتھ ان لوگوں کا آنا جانا بھی کم ہوا جو اس شاعر سے ملنے آتے تھے۔ اب ایک سولہ سال کا لڑکا تھا، چکی کا کاروبار، اور گھر چلانے کی ذمہ داریاں۔ وقت گزرا، لڑکا جوان ہوا، اس کی شادی ہوءی، بچے ہوءے؛ ایک طرح کی ذمہ داری دوسری طرح کی ذمہ داری میں ڈھلتی گءی مگر بچپن میں جو ادبی ماحول میسر آیا تھا اس نے طبیعت میں ایسا شعری ذوق پیدا کردیا جو مستقل تخلیق کاری پہ اکساتا رہا۔ اس جوار بھاٹے کے زور سے جو من کے اندر پک رہا تھا، پاکستان سے امریکہ تک، کام کاج کے درمیان شعر مستقل اترتے رہے۔ ہر لکھنے والا کسی نہ کسی درجے کا پیغمبر ہوتا ہے کہ تخلیق کار کا ہر اچھوتا خیال ایک وحی ہی تو ہوتی ہے۔
تاشی ظہیر اچھے شاعر ہونے کے ساتھ بہت بڑے انسان ہیں۔ وہ اردو اکیڈمی شمالی امریکہ کے، جسے خانقاہ تاشیہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، سجادہ نشین ہیں۔ اور یہ کوءی معمولی سجادہ نشین نہیں ہے۔ یہ سجادہ نشین داءود کی صورت ہے جو بیک وقت ایک نہیں دو جالوتوں سے لڑ رہا ہے۔ یہ دو جالوت دھرم اور جاتی کے عفریت ہیں۔ [یہاں شاعرانہ رعایت سے نیشنلزم کا ترجمہ 'جاتی' کے طور پہ کیا گیا ہے۔] یہ مذہب اور قوم پرستی کے دیو ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے اچھے، ان دو عفریتوں کے زور سے ان کے بتاءے ہوءے راستے پہ سر جھکا کر چلتے رہتے ہیں۔ ہوا کچھ ایسی ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگ دھرم اور جاتی کے جس کنویں میں محض اتفاق سے جنم لیتے ہیں، نہ صرف اسی کنویں کو دنیا کا سب سے شاندار کنواں سمجھتے ہیں بلکہ اس سمجھ کی بنیاد پہ دوسرے لوگوں سے لڑنے مارنے پہ تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ انسان کے طور پہ اپنی شناخت نہیں جانتے اور شناخت کے جو پیراہن مذہب اور ملک کے روپ میں انہیں دیے گءے ہیں، ان ہی کو اپنی اصل پہچان سمجھتے ہیں۔  ایسے میں یہ داءود دھرم اور جاتی کے ان جالوتوں سے مستقل لڑرہا ہے اور خانقاہ تاشیہ کے دروازے بلا تفریق ہر مذہب، ہر قوم، ہر زبان، ہر علاقے کے شخص کے لیے ہر وقت کھلے ہیں۔
تاشی ظہیر شاعر ہونے کے ساتھ ادب نواز ہیں۔ ایک ایسا وسیع القلب سخن پرور جو شعرا اور ادبا کے کام کی تعریف کرنے کے لیے ان کی موت کا انتظار نہیں کرتا۔
شان الحق حقی سے نیلم احمد بشیر تک، تاشی ظہیر نے ادب کے کھلاڑیوں کو ان کی زندگی میں سراہا ہے۔ ضروری تھا کہ جو اعلی ظرف شخص دوسروں کو ان کی زندگی میں عزت دے رہا ہے، خود اسے بھی اس کی زندگی، بلکہ جوانی میں عزت دی جاءے۔ جمعہ، دسمبر پانچ کو تاشی ظہیر کے اعزاز میں ایک برمحل محفل سجانے پہ خالد رانا صاحب اور تاشی ظہیر صاحب کے دوسرے ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔



Labels: ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?