Tuesday, December 23, 2014

 

وہ خون میں لتھڑے چھوٹے لاشے



دسمبر اکیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بیس


وہ خون میں لتھڑے چھوٹے لاشے

 

صبح کا معمول یہ ہے کہ آنکھ کھلنے پہ منہ پہ چند چھینٹے مارنے کے بعد تین چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ پانی پینے کے بعد اپنے ذاتی غلام یعنی کمپیوٹر کا بٹن دباتا ہوں۔ کمپیوٹر کے چوکس ہو جانے پہ سب سے پہلے ایک ورڈ مسل کھولتا ہوں۔ یہ مسل روز کی اہم نگارشات لکھنے کے کام آتی ہے۔ ہر روز کی الگ مسل ہے مگر ہر روز کی مسل کا تعلق پچھلے روز کی مسل سے ہوتا ہے کہ پچھلے روز کی مسل کا نام تبدیل کر کے ہی نءی تاریخ کے حساب سے اس کا نیا نام دیا جاتا ہے۔ اس مسل میں سب سے اوپر جو جملہ لکھا ہے وہ یہ ہے۔"صبح ہوءی۔ آنکھ کھلی۔ میں نے شکر ادا کیا کہ مجھے زندگی کا ایک اور دن مل گیا۔ اب یہ بھاری ذمہ داری مجھ پہ ہے کہ اس دن کو بہترین طور پہ جیوں اور اس سے زندگی کس کر کشید کروں۔" اس جملے کو لکھنے کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ میں زندگی کو اپنا حق نہیں سمجھتا اور ہرعطا کیا جانے والا لمحہ آنکھوں سے چوم کر جیتا ہوں۔ زندگی سے وابستہ موت کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ کبھی کسی متوفی کا پیارا جانے والے کی موت پہ زیادہ بین کرے تو دل میں آتا ہے کہ اسے بتاءوں کہ 'تم بھی اپنی موت سے کچھ دور نہیں ہو۔' اپنے آس پاس لوگوں سے کہتا رہا ہوں کہ کسی کی رحلت پہ آہ و زاری کرنے کے بجاءے مرحوم کی زندگی کا جشن منایا جاءے؛ یاد کیا جاءے کہ جانے والے نے اپنی زندگی کس طرح گزاری۔ یوں جیسے کسی بلے باز کے آءوٹ ہونے پہ اس کے لیے تالیاں بجاءی جاتی ہیں کہ وہ جب تک کھیلا، کتنا اچھا کھیلا۔ مگر موت کی حقیقت کو اتنی اچھی طرح تسلیم کرنے کے باوجود کسی بچے کی موت پہ ضرور افسردہ ہوتا ہوں۔ اور جب ایسا ہو کہ چند گمراہ ملاعین کسی اسکول میں گھس کر معصوم بچوں کو قتل کریں تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔
پشاور آرمی اسکول میں ایک سو بتیس بچوں کے قتل کا واقعہ دنیا بھر کے لوگوں کی آنکھوں کو اشکبار کرگیا۔ قوم و مذہب سے بلند ہوکر ساری دنیا میں لوگوں نے اس واقعے کا غم منایا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس گھناءونی واردات کی ذمہ داری قبول کی مگر ہمارے ہی درمیان ایسے لوگ ہیں جو ہماری آنکھوں پہ پردہ ڈالنے کے درپے ہیں۔ ان لوگوں میں داءیں اور باءیں بازو کے لوگ، دونوں ہی شامل ہیں۔
باءیں بازو کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے اسکول پہ حملہ کیا ان لوگوں کو خود پاکستانی فوج ہی نے تو بنایا ہے۔؛ پاکستانی فوج کواب وہی سانپ ڈس رہے ہیں جنہیں فوج نے پالا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں جاری سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے مجاہدین کو پاکستان میں تربیت دی گءی تھی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان غیرفوجیوں کی عسکری تربیت سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہی تھی، مگر وہ بات اب پرانی ہوچکی ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج ان شدت پسندوں سے محاذ آرا ہے۔ پاکستانی فوج کے جوان اس جنگ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ یہ بیس، تیس سال کے لڑکے اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے دے رہے ہیں تا کہ پاکستان کے عام لوگ جو یقینا نہتے ہیں شدت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ ان حالات میں پاکستانی فوج کے جوانوں کو ہماری اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ ان جوانوں کو ماضی یاد دلانا، اور پوری فوج کا مذاق اڑانا نہ تو عقل مندی ہے اور نہ ہی پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے دوستی۔
راءے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے داءیں بازو کے لوگ اور بھی آگے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی کارواءیوں کے پیچھے خفیہ بیرونی ہاتھ ہے۔ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے ان شدت پسندوں کی عسکری مدد کررہے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر ایسا ہو بھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خفیہ ہاتھ کو تلاش کرنے کی کوشش میں عیاں چہرے کو نظرانداز کردیا جاءے؟ ممکن ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجوءوں کی مدد بھارت کے خفیہ ادارے کچھ اس طرح کررہے ہوں کہ طالبان بھی اس مدد کی حقیقت کو نہ سمجھ رہے ہوں مگر ایسا ہونے کے باوجود ہمارے لیے زیادہ موثر کام یہ ہے کہ پاکستان کی جغرافیاءی حدود کے اندر ہمارے اپنے لوگ جو ہمارے فوجیوں سے لڑ رہے ہیں، ہم ان سے نمٹیں  نہ کہ ملک سے باہر نکل کر اس ہاتھ کو کاٹنے کی کوشش کریں جو شاید ہمارے اپنے متحرب لوگوں کی مدد کررہا ہے۔
داءیں بازو سے تعلق رکھنے والے دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ پاکستانی فوج شدت پسندوں سے لڑاءی میں ان شدت پسندوں کے پورے پورے خاندانوں کا صفایا کررہی ہے اور مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں، اور اسی لیے شدت پسند بھی فوجیوں کے بچوں کو مارنے کا حق رکھتے ہیں۔ اول تو ایسا کوءی ثبوت موجود نہیں ہے کہ پاکستانی فوج شدت پسندوں کے بیوی بچوں کو دانستہ یا نادانستہ مار رہی ہے۔ دوءم یہ کہ شدت پسندوں پہ جنگی کارواءی اس لیے ہورہی ہے کیونکہ وہ خود لڑنا چاہتے ہیں۔ ان شدت پسندوں کو بارہا موقع دیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار رکھ دیں مگر وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ جنونی، ہتھیار کے زور پہ طالبانی اسلام پورے پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی عوام اس طالبانی نظام کے خلاف ہے اور اسی لیے ہماری ان لوگوں سے کھلی جنگ ہے۔ اور اس کھلی جنگ میں غلطی اور ناپسندیدہ نقصان کا ہمیشہ امکان رہے گا۔


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?