Friday, December 12, 2014

 

جشن تاشی ظہیر





دسمبر سات،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اٹھارہ


جشن تاشی ظہیر
 
جمعہ دسمبر پانچ، سان فرانسسکو بے ایریا کے معروف شاعر تاشی ظہیر کے اعزاز میں ایک پرتکلف تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبوں میں تاشی ظہیر صاحب کی اعلی خدمات کو سراہا گیا۔ اس تقریب کا انعقاد خالد رانا صاحب کی قیادت میں تاشی ظہیر کے دوستوں نے کیا تھا۔ محفل کی نظامت کے فراءض ارشد رشید صاحب نے انجام دیے۔
خالد رانا، عبدالستار غزالی، جعفر شاہ، نگیش اوادھانی، اور جی ایس فلک نے اپنی تقاریر میں تاشی ظہیر کی ادبی خدمات کا ذکر کیا اور اردو اکیڈمی شمالی امریکہ کے جھنڈے تلے ماہانہ ادبی نشست باقاعدگی سے منعقد کرانے پہ ان کے کام کوخراج تحسین پیش کیا۔
اس تقریب میں بہت سے ایسے لوگ بھی شریک تھے جنہوں نے کسی نہ کسی موقع پہ تاشی ظہیر صاحب کے ساتھ دفتری کام کیا تھا۔ ڈینا لالس، کوریو کماچو، اور عمران جعفر نے کاروباری معاملات میں تاشی ظہیر کی پروفشنل خدمات کا اعتراف کیا۔
محمد ناظر خان، سمن تنیجا، روبینہ قریشی، اور نیلوفر خان نے اپنی تقاریر میں تاشی ظہیر کی کمیونٹی خدمات کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح ان لوگوں نےتاشی ظہیرصاحب کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار پایا۔
اس موقع پہ تاشی ظہیر کے بڑے صاحبزادے عمار ظہیر اور بیگم ناہید ظہیر نے بھی مختصر کلمات ادا کیے۔
تقاریر کے اختتام پہ فرح یاسمین شیخ نے کتھک رقص پیش کیا۔ ان کے ساتھ ایک طبلہ نواز اور سرود پہ بین کونین تھے۔
رقص کے بعد ایک موسیقی پروگرام کا آغاز ہوا جس میں الماس شبوانی، عطیہ حءی، طلعت قدیر خان، نگیش اوادھانی، ٹینا مان، اور سید ثروت نے تاشی ظہیر کی شاعری گا کر سناءی۔ کی بورڈ پہ علی شہاب الدین اور طبلے پہ اشنیل سنگھ نے گانے والوں کا ساتھ دیا۔ ان ہی میں سے چند مغنیوں نے دوسرے معروف گانے بھی پیش کیے اور یوں مدھر سروں کی یہ محفل رات دو بجے کے بعد اختتام پذیر ہوءی۔
فدوی بھی تاشی ظہیر کی صحبت سے بہرہ مند ہوا ہے۔ میں تاشی ظہیر کو بہت غور سے دیکھوں تو مجھے ان آنکھوں میں بہت دور ایک ایسا لڑکا نظر آجاتا ہے جو ملتان میں صابر فلور ملز کے باہر پریشان کھڑا ہے۔ اس پریشانی میں جو ایک سولہ سالہ لڑکے کو باپ کا سایہ سر سے اٹھنے پہ ہوسکتی ہے۔ اس ناگہانی آفت نے اس لڑکے کو وقت سے پہلے بلوغت میں دھکیل دیا۔
حسرت نے جو شعر زنداں کی مشقت کے بارے میں لکھا تھا صابر دہلوی صاحب اس شعر کی زندہ مثال تھے۔ صابر دہلوی مشق سخن کے ساتھ اصل چکی کی مشقت کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ صابر فلور ملز کی چکی بجلی سے چلتی تھی۔ یہاں چکی کی مشقت میں گندم اور دوسرا اناج خریدنا، کاریگروں کی مدد سے اسے پیسنا، آٹے کو بوریوں میں بند کرنا اور اسے گاہکوں کو بیچنا اور اس پورے کاروبار کا حساب کتاب چلانا شامل تھے۔ ان کاروباری مصروفیات کے دوران بھی اشعار یقینا آتے رہتے ہوں گے جو فرصت ملنے پہ کاغذ پہ اتارے جاتے ہوں گے۔ صابر دہلوی کے نامور ہم عصر، شاعری کے میدان میں صابر دہلوی کا مقام پہچانتے تھے؛ اسی لیے اعلی مقام شعرا ملتان آنے پہ صابر دہلوی سے ضرور ملتے۔ 
تاشی ظہیر کا بچپن آٹے کی چکی کے کاروبار، صابر دہلوی کی شاعری، اور گھر آنے والے نامور سخنوران اردو کی صحبت سے مل کر بنا ہے۔ صابر دہلوی کی وفات سے جہاں ایک طرف گھر میں ہمہ وقت موجود ایک بڑا شاعر گیا وہیں اس رحلت کے ساتھ ان لوگوں کا آنا جانا بھی کم ہوا جو اس شاعر سے ملنے آتے تھے۔ اب ایک سولہ سال کا لڑکا تھا، چکی کا کاروبار، اور گھر چلانے کی ذمہ داریاں۔ وقت گزرا، لڑکا جوان ہوا، اس کی شادی ہوءی، بچے ہوءے؛ ایک طرح کی ذمہ داری دوسری طرح کی ذمہ داری میں ڈھلتی گءی مگر بچپن میں جو ادبی ماحول میسر آیا تھا اس نے طبیعت میں ایسا شعری ذوق پیدا کردیا جو مستقل تخلیق کاری پہ اکساتا رہا۔ اس جوار بھاٹے کے زور سے جو من کے اندر پک رہا تھا، پاکستان سے امریکہ تک، کام کاج کے درمیان شعر مستقل اترتے رہے۔ ہر لکھنے والا کسی نہ کسی درجے کا پیغمبر ہوتا ہے کہ تخلیق کار کا ہر اچھوتا خیال ایک وحی ہی تو ہوتی ہے۔
تاشی ظہیر اچھے شاعر ہونے کے ساتھ بہت بڑے انسان ہیں۔ وہ اردو اکیڈمی شمالی امریکہ کے، جسے خانقاہ تاشیہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، سجادہ نشین ہیں۔ اور یہ کوءی معمولی سجادہ نشین نہیں ہے۔ یہ سجادہ نشین داءود کی صورت ہے جو بیک وقت ایک نہیں دو جالوتوں سے لڑ رہا ہے۔ یہ دو جالوت دھرم اور جاتی کے عفریت ہیں۔ [یہاں شاعرانہ رعایت سے نیشنلزم کا ترجمہ 'جاتی' کے طور پہ کیا گیا ہے۔] یہ مذہب اور قوم پرستی کے دیو ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے اچھے، ان دو عفریتوں کے زور سے ان کے بتاءے ہوءے راستے پہ سر جھکا کر چلتے رہتے ہیں۔ ہوا کچھ ایسی ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگ دھرم اور جاتی کے جس کنویں میں محض اتفاق سے جنم لیتے ہیں، نہ صرف اسی کنویں کو دنیا کا سب سے شاندار کنواں سمجھتے ہیں بلکہ اس سمجھ کی بنیاد پہ دوسرے لوگوں سے لڑنے مارنے پہ تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ انسان کے طور پہ اپنی شناخت نہیں جانتے اور شناخت کے جو پیراہن مذہب اور ملک کے روپ میں انہیں دیے گءے ہیں، ان ہی کو اپنی اصل پہچان سمجھتے ہیں۔  ایسے میں یہ داءود دھرم اور جاتی کے ان جالوتوں سے مستقل لڑرہا ہے اور خانقاہ تاشیہ کے دروازے بلا تفریق ہر مذہب، ہر قوم، ہر زبان، ہر علاقے کے شخص کے لیے ہر وقت کھلے ہیں۔
تاشی ظہیر شاعر ہونے کے ساتھ ادب نواز ہیں۔ ایک ایسا وسیع القلب سخن پرور جو شعرا اور ادبا کے کام کی تعریف کرنے کے لیے ان کی موت کا انتظار نہیں کرتا۔
شان الحق حقی سے نیلم احمد بشیر تک، تاشی ظہیر نے ادب کے کھلاڑیوں کو ان کی زندگی میں سراہا ہے۔ ضروری تھا کہ جو اعلی ظرف شخص دوسروں کو ان کی زندگی میں عزت دے رہا ہے، خود اسے بھی اس کی زندگی، بلکہ جوانی میں عزت دی جاءے۔ جمعہ، دسمبر پانچ کو تاشی ظہیر کے اعزاز میں ایک برمحل محفل سجانے پہ خالد رانا صاحب اور تاشی ظہیر صاحب کے دوسرے ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔



Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?