Friday, December 19, 2014
گٹمو کی بندش اور ملکیت کا تصور
دسمبر تیرہ،
دو ہزار چودہ
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو انیس
گٹمو کی بندش اور ملکیت کا تصور
سانتا کلارا، کیوبا۔ چے گوویرا کی یادگار پہ اس
روز کم ہی لوگ تھے۔ داخلے سے پہلے مجھے سمجھایا گیا کہ اندر جا کر نہایت خاموشی سے
ہر چیز کو دیکھتے ہوءے آہستہ آہستہ چلنا ہے اور دوسری طرف سے باہر نکل جانا ہے۔
میں نے ایسا ہی کیا۔ میں چے کی یاد میں جلنے والے ابدی شعلے کے پاس پہنچ کر ایک
لمحے کو ٹہرا۔ چے نے اشتراکی دنیا کا جو خواب بالخصوص لاطینی امریکہ کے لیے دیکھا
تھا وہ سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ چکنا چور ہوچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چے کی یاد میں
جلنے والا یہ شعلہ کتنی دیر قاءم رہے گا۔ میں سینتاکلارا میں جنوب مشرق کی طرف
دیکھتا ہوا یہ سمجھتا تھا کہ اگر میں اس رخ پہ مستقل چلتا رہوں تو امریکہ کی بدنام
زمانہ جیل گٹمو پہنچ جاءوں گا۔ گٹمو، جزیرہ کیوبا کا وہ چھوٹا سا حصہ ہے جو طاقت
کے زور پہ آج بھی امریکہ کے قابو میں ہے۔ اب نءی خبر یہ ہے کہ گٹمو جیل کو بند کیا
جارہاہے۔ گٹمو کے قیدیوں کو ادھرادھر روانہ کیا جارہا ہے۔ چند دن پہلے پانچ دوسرے
قیدیوں سمیت شام سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک قیدی کو جنوبی امریکہ کے ملک
یوروگواءے میں بسایا گیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان قیدیوں کو دنیا میں ادھر ادھر
بسانے کی کوشش کیوں ہورہی ہے۔ خود امریکہ انہیں کیوں پناہ کیوں نہیں دے دیتا؟ شاید
اس لیے کیونکہ ان لوگوں کو جمہوریت کی پناہ سے دور رکھنا مقصود ہے۔ اگر یہ قیدی اس
پناہ میں آگءے تو ان لوگوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاءیں گے جن لوگوں نے ان
قیدیوں کو بغیر کسی مقدمے کے اتنے سالوں جیل میں رکھا۔
بات ہورہی ہے دنیا میں بے چینی اور اشتراکیت کی
تو کچھ ذکر ملکیت کے تصور کا ہوجاءے۔ یہ مواد ایک ایسے ویڈیو میں کام آءے گا جو
ہماری بستی کے لوگوں کی عمومی معلومات کے لیے بناءی جاءے گی۔
انسان کی بنیادی حاجات انفرادی ہیں مگر یہ حاجات
جن ذراءع سے پوری کی جاتی ہیں ان کو ذاتی ملکیت کے پنجرے میں بند کرنا مشکل کام ہے۔
اس بات کو کھانے کی مثال سے سمجھیے۔ آپ جو کھانا کھاتے ہیں وہ یقینا صرف آپ کے پیٹ
میں جاتا ہے۔ مگر یہ کھانا جن ذراءع سے پیدا ہوتا ہے، یعنی زمین، ہوا، پانی، وہ
تمام چیزیں آپ کے دنیا میں آنے سے پہلے بھی وجود میں تھیں اور آپ کے یہاں سے رخصت
ہونے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ گویا حاجات پوری کرنے والی اشیا کے ذراءع پہ
انفرادی ملکیت کا اگر کوءی دعوی ہو بھی تو وہ بہت مختصر مدت کا ہوتا ہے اور وہ مدت
زیادہ سے زیادہ ایک انسانی زندگی کی طوالت ہوسکتی ہے۔ زمین، ہوا، پانی، روشنی، یہ
سب یقینا مشترکہ انسانی سرماءے ہیں۔ ان مشترکہ انسانی خزانوں کے ثمرات دنیا کے
تمام انسانوں کے تصرف میں آتے ہیں۔
ہوا کی مثال لیجیے۔ انسان جب سانس لیتا ہے تو اس
ہوا میں انسان کے سب سے کام کی چیز آکسیجن گیس ہوتی ہے۔ انسان آکسیجن استعمال کرتا
ہے۔ انسانی استعمال کے بعد آکسیجن کاربن ڈاءی آکساءڈ نامی گیس میں تبدیل ہوجاتی
ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان آکسیجن لیتا ہے اور کاربن ڈاءی آکساءڈ خارج کرتا
ہے۔ جب کہ درخت اس عمل کا بالکل الٹ کرتے ہیں یعنی درخت کاربن ڈاءی آکساءڈ لیتے
ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ درخت جو آکسیجن خارج کرتے ہیں وہ دنیا میں ٘موجود
ہوا میں مل جاتی ہے۔ اسی لیے دنیا میں کہیں بھی جنگلات کا صفایا ہورہا ہو، درخت
کاٹے جارہے ہوں، تو آپ اس مسءلے کو بالکل اپنا ذاتی مسءلہ تصور کیجیے کہ دراصل
جنگلات کی صفءی سے ایک چھوٹی سطح پہ آپ کی اپنی سانس بند کی جارہی ہے۔
ہر شخص دوسرے لوگوں کے درمیان ایک سماجی معاہدے کے
تحت رہتا ہے۔ بہت جگہ یہ سماجی معاہدہ لکھاءی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور کءی جگہ
محض اس معاہدے کا ادراک ذہنوں میں ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی بھی ایسے ہی ایک سماجی
معاہدے کا حصہ ہے جو مشترکہ انسانی سرماءے سے متعلق ہے۔ اگر ایک شخص دوسروں کی
موجودگی میں ایک بند جگہ، مثلا بس میں، ٹرین کے ڈبے میں، یا ایک دفتر میں سگریٹ
نوشی کررہا ہے تو وہ شخص دراصل اس ہوا کو آلودہ اور خراب کررہا ہے جو وہاں موجود
دوسرے لوگوں کے کام آنی ہے۔
یہی حال پانی کا بھی ہے۔ پانی کے تمام ذخاءر بنی
نوع انسان کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ اگر ایک شخص یا لوگوں کا ایک گروہ پانی کے کسی
ذخیرے میں آلودگی پھیلاتا ہے یا اس کو کسی اور طرح سے خراب کرتا ہے تو دراصل اس
عمل سے دوسرے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی
ہے۔
اشیا کے استعمال میں ایک صورت مختصر دورانیے کے
استعمال کی ہوتی ہے۔ [واضح رہے کہ انسان کے استعال کی ہر شے ہی مختصر دورانیے کی
ہے کیونکہ انسانی زندگی خود بہت مختصر ہے مگر یہاں بات اس سے بھی چھوٹے دورانیے کی
ہورہی ہے۔] مثلا جب آپ ایک ٹیکسی میں سوار ہوتے ہیں تو آپ ایک ان کہے سماجی معاہدے
سے ٹیکسی والے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور وہ سماجی معاہدہ یہ ہے کہ آپ ٹیکسی کی
نشست کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے دوران محض بیٹھنے کے لیے استعمال کریں گے۔ یعنی
کسی مخصوص شے کا عمومی استعمال جو ایک ان کہے باہمی معاہدے کا حصہ ہے۔ مثلا اگر آپ
کسی ٹیکسی والے کو روک کر بتاءیں کہ آپ کو ناظم آباد جانا ہے مگر وہاں جانے کے
دوران آپ ٹیکسی کی نشست کو ایک بلیڈ سے چیریں گے تو وہ ٹیکسی والا آپ کو ہرگز اپنی
گاڑی میں نہیں بٹھاءے گا۔ اسی طرح اگر آپ لاءبریری سے ایک کتاب یہ کہہ کر حاصل
کریں کہ آپ کتاب کو پڑھنے کے علاوہ اس میں جگہ جگہ نشانات لگاءیں گے، اس کے صفحات
بھی پھاڑ دیں گے تو یقینا لاءبریری آپ کو کتاب دینے سے انکار کردے گی۔
کسی بھی ملک میں رہنے والے لوگوں کا مشترکہ
سرمایہ عموما ایک حکومت کے زیر انتظام ہوتا ہے۔ اس مشترکہ سرماءے میں دریا،
جھیلیں، پہاڑ، اور دوسرے قدرتی ذراءع شامل ہوتے ہیں۔ اسی مشترکہ سرماءے میں وہ
چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جو ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے خرچے سے بناءی جاتی ہیں،
مثلا، سڑکیں، پل، روشنی کے کھمبے، وغیرہ۔ اس مشترکہ سرماءے کے اخراجات کسی نہ کسی
طور سے شہری پورے کرتے ہیں، اور عموما یہ شکل ایک ٹیکس کی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ
مشترکہ سرمایہ ہر شہری کا ہوتا ہے مگر پورے کا پورا کسی ایک شہری کا نہیں ہوتا۔
اگر ایک شخص غصے میں آکر اپنے محلے میں موجود بجلی کے کھمبے کو توڑتا ہے تو وہ
یقینا ایک ایسی چیز کو نقصان پہنچا رہا ہے جو صرف اس کی نہیں ہے بلکہ اس کی سب کے
ساتھ شراکت میں ہے۔
Labels: Che Guevara, Cuba, Gitmo, Private Property, Santa Clara