Monday, July 04, 2011

 

سعودی عرب اور دبءی کے دوروں پہ چند خیالات


جولاءی چار، دو ہزار گیارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چالیس


سعودی عرب اور دبءی کے دوروں پہ چند خیالات


ہم ایک اچھے دور میں پیدا ہوءے ہیں۔ وہ سارے لوگ جو اپنی اپنی جگہ معاشرے میں بہت قوی مقام پہ نہیں ہیں آج ایک ایسے اچھے دور میں زندہ ہیں اور انہیں اپنی خوش قسمتی پہ فخر کرنا چاہیے۔ ماضی میں کمزور کی زندگی ذلت کی زندگی تھی۔ دنیا بھر کے انسان چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں کن بنیادی انسانی حقوق کے حقدار ہیں، اس بارے میں کوءی اتفاق راءے نہ تھا۔ طاقتور کمزور کو جس طرح چاہے دبا لے، اس بارے میں مکمل آزادی تھی۔ آج بھی دنیا میں بہت سی جگہوں پہ اسی طرح کا نظام راءج ہے مگر ان جگہوں پہ اس طرح کےغیر منصف نظام کے وجود کو ایک مہذب معاشرے، قانون کی حکمرانی سے منسلک فلسفے کی طرف سے شدید خطرہ ہے۔
ماضی میں جہاں ایک جگہ کے طاقتور شخص یا اشخاص کو آزادی تھی کہ وہ اپنے سے کمزور لوگوں سے جس طرح چاہے سلوک کریں وہیں یہ معاملہ من حیث الگروہ قوموں کے ساتھ بھی تھا۔ طاقتور قوم کمزور قوم کو جس طرح چاہے دبا لے، محکوم کو جس طرح چاہے غلام بنا لے، شکست خوردہ لوگوں کی عورتوں کو جس طرح چاہے اپنے حرم کا حصہ بنا لے، اس سلسلے میں مکمل آزادی تھی اور اپنی فتح کا اظہار مفتوح کی تذلیل کے ساتھ کرنے میں کسی قسم کی نفسیاتی خلش کا سوال بھی نہ پیدا ہوتا تھا۔
تبدیلی دنیا کا ایک ناقابل انحراف اصول ہے۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ کمزور کے دن بدلتے ہیں اور طاقت اس کے ہاتھ آجاتی ہے۔ طاقتور کبھی کھیل کے اصول نہیں بدلنا چاہتا کیونکہ وہ تو جیت رہا ہوتا ہے۔ کھیل کے اصول بدلنے کی خواہش، دنیا کو منصف بنانے کی خواہش تو کمزور کے دل میں ہوتی ہے۔ ماضی میں بہت دفعہ ایسا ہوا کہ جب کمزور نے طاقتور کو اکھاڑ کر اعلی منصب پہ قبضہ کر لیا تو اس نے دنیا کو منصف بنانے کی خواہش ترک کر دی اور وہی طور طریقے اپنا لیے جو اس سے پہلے طاقتور لوگوں کے تھے۔ مگر پھر ایسا بھی ہوا کہ کءی جگہ نءے حکام نے اپنے اوپر پڑنے والا کڑا وقت یاد رکھا، پرانے طریقے چھوڑے اور معاشرے کو قانون اور انصاف کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ ہم خوش قسمتی سے آج ایک ایسی ہی دنیا میں رہتے ہیں جہاں پچھلے دو ہزار سالوں میں کءی ایسے انقلابات آءے جن سے جنم لینے والے خیالات نے دنیا کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے فلسفے کی طرف مبذول کیا۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے نمو پہ تواناءی کے ذخاءر کی تلاش زور پکڑ گءی۔ کوءلے کی شکل میں موجود کروڑہا سال پرانے مدفون جنگلات کی کان کنی تو ایک عرصے سے ہورہی تھی، زیر زمین تیل اور گیس کے ذخاءر بھی انسان کی دسترس میں آگءے۔ مشین کی مدد سے تواناءی کے ایسے ذخاءر دریافت کیے گءے جن سے مزید مشینیں چل سکیں اور مزید کان کنی کی جا سکے۔ بیسویں صدی کے اواءل میں مشرق وسطی میں تیل کے ذخاءر دریافت ہونا شروع ہوءے۔ اس وقت تک دنیا میں اتنی تہذیب آچکی تھی کہ طاقتور کی طرف سے کھلی لوٹ مار ممکن نہ تھی۔ یورپی ممالک اور امریکہ یہ نہ کر پاءے کہ جہاں جہاں تیل کے ذخاءر دریافت ہوءے تھے وہاں مقامی لوگوں کو مار پیٹ کر ایک طرف کرتے اور ان خزانوں پہ قبضہ کر لیتے۔ اس متروک حکمت عملی کے بجاءے نوآبادیاتی نظام کا وہ طریقہ واردات استعمال کیا گیا جس میں علاقے کے طاقتور کو اپنے فاءدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ طریقہ کہ علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کو اپنے ساتھ ملایا جاءے، اپنا الو سیدھا کیا جاءے، اور بدمعاش جس طرح چاہے مقامی آبادی کے ساتھ سلوک کرے اسے ایسا کرنے دیا جاءے۔ یہ وہ تاریخی پس منظر ہے جس کی روشنی میں پاکستان کی موجودہ مذہبی شدت پسندی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ساٹھ اور ستر کی دہاءی میں جب مشرق وسطی میں عرب شیخوں نے نوحصول دولت کی مدد سے اپنے علاقوں کو سنوارنے کا کام شروع کیا تو انہیں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے پہ مزدوروں اور ہنر مند لوگوں کی ضرورت پڑی۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک سے لوگ جوق در جوق مشرق وسطی پہنچنے لگے۔ ترقیاتی منصوبوں کا خیال اور خاکہ پیش کرنے والے یورپی اور امریکی منصوبہ ساز تھے، رقم شیخ کی تھی، اور محنت پاکستان و ہندوستان سمیت بہت سے غریب ممالک کے مزدوروں کی تھی۔ جیسے جیسے مشرق وسطی کے ان ممالک کی سڑکیں بنتی گءیں اور وہاں اونچی اونچی روشن عمارتیں کھڑی ہوتی گءیں یہ ممالک اپنی مادی ترقی میں بظاہر ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرح ہوتے گءے۔ ہمارے لوگوں کے اگلے جتھے جب اسی اور نوے کی دہاءیوں میں وہاں گءے تو انہوں نے سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دوسرے ممالک میں یہ چکاچوند مناظر دیکھے کہ وہاں صاف ستھری اور چوڑی سڑکیں ہیں، فلک بوس عمارتیں ہیں، شیخ اور مقامی آبادی سے نیچے قانون کی حکمرانی ہے، کھانے پینے کی فراوانی ہے اور اس کے ساتھ متووں کی ایک فوج ہے جو نماز کے وقت صلاة صلاة کہہ کر دکانیں بند کرواتی ہے اور عورتوں کو چھڑیاں مار کر نقاب گرانے کو کہتی ہے۔ اور ہمہ وقت دستیاب بجلی اور پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں اور جمعے کی نماز کے بعد قاتلوں کے سر قلم کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک سے جانے والے بہت سے لوگوں کو اور خاص طور سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے مغربی دنیا نہیں دیکھی تھی مشرق وسطی میں مغربی دنیا کی یہ سطحءی اور ادھوری نقل بہت پسند آءی۔ ان لوگوں کو خیال ہوا کہ کہ یہ ہے قابل تقلید "اسلام"۔ یہ خیال ہوا کہ جزیرہ نما عرب میں جو فرسودہ خیالات "اسلام" کے نام پہ لوگوں پہ ٹھونسے جا رہے ہیں ان کا اور جدیدیت کا آپس میں کوءی ٹکراءو نہیں ہے۔ مغربی ممالک کی یہ خرابی تھی کہ انہوں نے ایک گھٹیا نظام کو جسے مشرق وسطی کے اصحاب اثر " اسلام" کا نام دیتے تھے قاءم رہنے دیا اور نءی دولت کی مدد سے اس کمتر اور دقیانوسی نظام کے اوپر جدیدیت کا چمکدار ملمع چڑھ گیا، اور بہت سے بھولے لوگوں کو"اسلامی نظام" کا یہ مکمل پیکج بھا گیا۔ یہ نسخہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہوا۔ عقل حیران ہے کہ ہم اب اس جال سے کیسے نکلیں گے ۔

Labels:


 

کچھ حال شمالی کوریا کے دورے کا


جون پچیس، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار انتالیس


کچھ حال شمالی کوریا کے دورے کا




میں کبھی کسی سے تذکرہ کروں کہ مجھے شمالی کوریا جا کر بے حد مزا آیا تھا تو میرے سامعین میری طرف تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ شک کرتے ہیں کہ کہیں میں ایسا کٹر اشتراکی تو نہیں جو ایک اشتراکی نظام میں رہنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ میرے بزرگ سرپرست اور پاکستان کے مشہور وکیل عابد حسن منٹو فخر سے اپنے آپ کو اشتراکی اور مارکسسٹ کہتے ہیں مگر اشتراکیت ہو، ملاءیت ہو یا کینزیاتی سرمایہ داری نظام، میں کبھی کسی آءیڈیالوجی کو بلا تنقید دل و جان سے قبول نہ کر پایا۔ مجھے شمالی کوریا جا کر اس لیے مزا آیا تھا کیونکہ ایک خاص قسم کا معاشی و سیاسی نظام جو سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ میرے خیال میں میرے مشاہدے سے ہمیشہ کے لیے کھو گیا تھا، وہ نظام مجھے شمالی کوریا میں مجھے دیکھنے کو مل گیا۔
سرمایہ داری نظام سے مخالف ایک متبادل معاشی نظام کو دیکھنے کی خواہش دراصل میرے بچپن کے چند تجربات سے جڑی ہوءی ہے۔ میں جب بہت چھوٹا تھا تو کسی رشتہ دار نے مجھے دنیا کا سیاسی نظام اس مختصر بیان سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ "بیٹا، بات دراصل یہ ہے کہ دنیا میں دو ہی عالمی طاقتیں ہیں۔ ایک امریکہ اور دوسرا سوویت یونین۔ یہ دو عالمی طاقتیں اپنے حساب سے دنیا کے دوسرے ممالک کو چلاتی رہتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک تو اس عالمی بساط پہ محض شطرنج کے پیادوں کی طرح ہیں۔ ہماری حیثیت ہی کیا ہے؟ یہ دو طاقتیں جوچاہیں ہمارے ساتھ سلوک کریں۔" اس اجمال سے میرے ذہن میں سوویت یونین کا ایک بہت مظبوط تصور ابھرا گو کہ مجھے نظر آتا تھا کہ امریکہ سے آگہی حاصل کرنا آسان تھا جب کہ سوویت یونین کے معاملات میں کچھ راز و نیاز نظر آتا تھا۔ مثلا امریکی فلمیں اور ٹی وی پروگرام باآسانی پاکستان میں دستیاب تھے جب کہ سوویت یونین کی طرف سے اس قسم کی کوءی ثقافتی یلغار نہ تھی۔ میں نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا تو میرا داخلہ ڈی جے کالج میں ہوگیا۔ ڈی جے کالج جاتے ہوءے بس ایمپریس مارکیٹ سے گزرتی تھی۔ میں ہمیشہ بس کی کھڑکی سے لگ کر بیٹھتا تھا اور چلتی بس کے باہر ہوتا ہوا تماشہ غور سے دیکھتا تھا۔ جب بس ایمپریس مارکیٹ سے گزرتی تو مجھے ان ٹھیلوں پہ جو لنڈے کے کپڑے بیچتے تھے سفید فام لوگ مول تول کرتے نظر آتے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی پہلی اسٹیل مل روس کے تعاون سے بن رہی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ لنڈے کے کپڑے خریدنے والے وہ لوگ روسی ہیں جو اسٹیل مل بنانے کے لیے پاکستان آءے ہوءے ہیں اور چھٹی کا وقت نکال کر ایمرپیس مارکیٹ آتے ہیں اور امریکہ سے آنے والی جینز اور دوسرے کپڑے ہنسی خوشی خریدتے ہیں۔ اس مشاہدے سے میرے دل میں سوویت یونین کی مضبوطی سے متعلق خیال کو کچھ دھچکا لگا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ کس قسم کی عالمی طاقت ہے جس کے شہری اپنے ہم پلہ دوسری عالمی طاقت کے شہریوں کے اترے ہوءے کپڑے پہنتے ہیں۔ دو سال کا کالج ختم ہوا تو ایک طویل چھٹیاں شروع ہوگءیں۔ اس وقت تک مجھے اتنی انگریزی آگءی تھی کہ میں انگریزی کی کتابیں پڑھ لیتا تھا۔ ان طویل چھٹیوں میں جہاں میں نے اور بہت سی کتابیں پڑھیں وہیں جیمز ہیڈلے چیز کے ناول بھی پڑھے۔ ان ناولوں میں مشرقی یورپ اور بالخصوص مشرقی المانیہ (جرمنی) کا تذکرہ عجیب الفاظ میں ہوتا تھا۔ ان ناولوں کا ایک کردار جب مغربی برلن سے مشرقی برلن جاتا تھا تو اشتراکی نظام پہ بہت ناک بھوں چڑھاتا تھا۔ اس کردار کو مشرقی یورپ میں بہت سی خرابیاں نظر آتیں۔ اسے وہاں کی نوکرشاہی نہ بھاتی۔ وہ اپنی گاڑی کو نہایت صاف ستھرا رکھنا چاہتا تھا۔ مگر یہ صفاءی اور نفاست اسے مشرقی یورپ میں میسر نہ آتی۔
میری روح میں جہاں نوردی کا جو شوق جنون کی حد تک حلول ہے وہ بہت سے محسنین کی صحبت کا تحفہ ہے۔ میں نے آوارہ گردی کی اسی خواہش میں سوچا تھا کہ ایک دن سوویت یونین ضرور جاءوں گا۔ اس لیے نہیں کیونکہ میں سوویت یونین کو اشتراکیت کا منبع اور نگاہ خیرہ کرنے والا ہیرا سمجھتا تھا بلکہ اس لیے کہ میں سوویت یونین جا کر سرمایہ داری نظام کے متبادل ایک نظام کے سب سے وسیع تجربے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ مگرسوویت یونین میں اشتراکیت کا وہ تجربہ جھوٹ پہ چل رہا تھا۔ مزدوروں، کسانوں، اور دوسرے محنت کشوں کے نام پہ لایا جانے والا انقلاب ان جفا کشوں کو ان کا جاءز حصہ دینے سے قاصر رہا تھا اور انقلاب کے علم بردار وہی اشرافیہ بن چکے تھے جس اشرافیہ سے جان چھڑانے کا وعدہ کر کے انہوں نے محنت کشوں کو اپنے ساتھ ملایا تھا اور انقلاب کے لیے اکسایا تھا۔ سوویت یونین ایک جھوٹ تھا اور یہ جھوٹ بہت دیر نہ چل پایا۔ میں ابھی زیر تعلیم ہی تھا کہ سوویت یونین ٹوٹا اور کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ دنیا کا سیاسی نقشہ یکا یک بدلا اور اشتراکیت کے تجربات کرنے والے کءی ممالک اشتراکیت کے سحر سے اور ایک جھوٹ سے باہر آگءے۔ پورے مشرقی یورپ کی کایا پلٹ ہوگءی۔ دو ایسے ممالک جو معاشی نظریات کی بنیاد پہ دو لخت ہوءے تھے پھر مل گءے۔ مشرقی المانیہ مغربی المانیہ سے ملا اور شمالی یمن جنوبی یمن سے۔ دنیا میں اشتراکی جوھڑ تیزی سے خشک ہو رہے تھے۔
سیاحت میں میرا پہلا اشتراکی ملک کیوبا تھا۔ اس وقت تک میں ملک شام جا چکا تھا جو ایک زمانے میں سوویت یونین کا زبردست حلیف تھا۔ شام کے مقابلے میں کیوبا اشتراکی تجربے سے متعلق میرے ذہنی خاکے سے قریب تر معلوم دیا مگر یہاں بھی وہ راز و نیاز والی بات نہیں ملی جو سوویت یونین کے بارے میں سننے میں آتی تھی۔ تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں صرف ایک ملک بچا ہے جہاں صحیح معنوں میں اشتراکی تجربہ اس حساب سے عمل پذیر ہے جس حساب سے پچاس کی دہاءی میں دنیا کے بہت سے کونوں میں یہ تجربہ شروع ہوا تھا۔ تب ہی میں نے ارادہ کیا کہ میں شمالی کوریا جاءوں اور جس قدر جلد ممکن ہو وہاں پہنچ جاءوں، اس سے پہلے کہ یہ خالص اشتراکی ملک سوویت یونین کی طرح ختم ہوجاءے۔ اور یوں سنہ ۲۰۰۷ میں شمالی کوریا جا کر میری آتما کو سکون آگیا۔ جیسا سنا تھا اس ملک کو ویسا ہی پایا۔ ہم لوگ ایک گروپ کی صورت میں پیویانگ پہنچے تھے۔ اس سفر کے لیے ہمیں شمالی کوریا کی حکومتی سیاحتی ایجنسی سے اجازت لینی پڑی تھی۔ ہمارا پورا سفر شمالی کوریا کی حکومت ہی نے تیار کیا تھا۔ کس دن کس وقت کونسا سیاحتی مقام ہمیں دکھایا جاءے گا، یہ سب انہوں ہی نے طے کیا تھا۔ ہمارے گروپ کے ساتھ دو مترجمین ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ وہ صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے ہمارے ہوٹل پہ موجود ہوتے اور رات ہمارے سونے پہ ہی روانہ ہوتے تھے۔ ہم پہ پابندی تھی کہ ہم شمالی کوریا کے عام لوگوں سے نہیں مل سکتے تھے۔ اور نہ ہی ہم اپنے مترجمین کی اجازت کے بغیر کسی مقام یا کسی شخص کی تصویر کھینچ سکتے تھے۔ ہم پہ لازم تھا کہ ہم کم ال سنگ کے ہر مجسمے کو دیکھ کر اس کے سامنے جھک کر کورنش بجا لاءیں۔ اس دورے کے پہلے روز جب ایک مجسمے پہ مترجم نے ہم سے جھکنے کو کہا تو ہم نے بہانہ کیا کہ ہم مجسمے کو دیکھ کر پہلے ہی جھک چکے ہیں۔ مترجم نے کہا کہ ایسے نہیں، ہم باجماعت جھکیں گے۔ پھر گروپ کے سارے لوگوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا گیا۔ جب مترجم نے اطمینان کر لیا کہ تمام لوگ ایک سیدھی لکیر میں مجسمے کے سامنے کھڑے ہیں اور آداب بجا لانے کے لیے تیار ہیں تو حکم آیا، جھکو۔ ہم سب باجماعت مجسمے کے سامنے جھکے اور پھر بات آگے بڑھی۔
ہفتہ بھر شمالی کوریا میں گزارنے کے بعد وہاں سے نکل کر میں نے اپنے اس تجربے کے بارے میں بہت سوچا۔ مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ نہ جانے شمالی کوریا کے شہری کس دباءو کے تحت زندگی گزارتے ہوں گے۔ ان کی آزادی کس طرح سلب ہے کہ وہ حکام اعلی کو بتاءے بغیر ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جا سکتے۔ ایک ایسا ملک جہاں سارا زور ایک ہوے کو قاءم رکھنے پہ ہے۔ کہ ملک کو کسی طرح اچھی سے اچھی روشنی میں پیش کیا جاءے۔ ملک کی عزت پہ حرف نہ آءے۔ کہ اگر کوءی براءی ہے تو اسے چھپا لیا جاءے۔ ظاہر کہ شمالی کوریا کا یہ نظام بہت عرصہ نہ چل پاءے گا۔ مگر اس کے ساتھ مجھے شمالی کوریا میں یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ بقیہ دنیا جس طرح ایک رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے، شمالی کوریا اس علت سے آزاد ہے۔ اب دنیا کے کسی بھی بڑے شہر چلے جاءیے آپ کو وہاں کثیرالاقوامی کمپنیوں کے ایک طرح کے ساءن اور ایک طرح کی چیزیں نظر آءیں گی۔ مگر شمالی کوریا میں ایسا نہیں ہے۔ پورا ملک یوں لگتا ہے کہ جیسے سنہ پچاس میں ٹہر گیا تھا اور اب اسی جگہ جما کھڑا ہے۔ اور یوں شمالی کوریا ہم جیسے تنوع کے طلب گاروں کے لیے ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔

Labels:


 

بے چاری ہما


جون بیس، دو ہزار گیارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار اڑتیس


بے چاری ہما



رکن کانگریس انتھونی وینر نے بالاخر استعفی دے دیا۔ وینر کی ایسی فحش تصاویر منظر عام پہ آءیں تھیں جو وینر نے خود اتاری تھیں۔ وینر پہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنی یہ تصاویر مختلف خواتین کو الیکٹرانک ڈاک کے ذریعے روانہ کیں۔ وینر کی ان برہنہ تصاویر کے سامنے آنے پہ سب سے پہلے تو وینر نے جھوٹ بولا کہ ان تصاویر کی اشاعت ان کا نہیں کسی اور کا کام ہے۔ کسی نے یقینا ان کا ٹوءٹر کھاتہ چوری کیا ہوگا اور پھر اس کھاتے سے ان خواتین کو یہ تصاویر روانہ کی ہوں گی۔ گویا پہلے مرحلے میں وینر نے اتنا قبول کیا کہ فحش تصاویر ان کی اپنی تھیں جو انہوں نے خود اتاری تھیں مگر وہ ان تصاویر کو کسی کو بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ کوءی دل جلا آیا جس نے ان کا الیکٹرانک کھاتہ چوری کیا اور پھر ان کے پی ڈی اے میں موجود یہ تصاویر چند خواتین کو ارسال کر دیں۔ ہفتہ دس دن اسی تفتیش میں گزر گءے کہ وہ کون چور تھا جس نے وینر کا کھاتہ چوری کر کے یہ کام کیا۔ مگر رفتہ رفتہ یہ بات واضح ہو گءی کہ کسی نے وینر کا کھاتہ چوری نہیں کیا تھا۔ وینر نے اپنی فحش تصاویر کی اشاعت کا کام خود ہی کیا تھا۔
امریکی عوام اپنے منتخب نماءندوں سے اعلی توقعات رکھتی ہے۔ مگر وینر کی ان حرکتوں کے باوجود لوگ وینر کو معاف کرنے کے لیے تیار تھے اگر وینر نے یہ ساری حرکتیں اپنے دفتری اوقات کے باہر ، دفتر سے باہر، اپنے ذاتی فون اور دوسرے آلات کو استعمال کرتے ہوءے کی ہوتیں۔ مگر ایسا نہ تھا۔ وینر نے سرکاری جگہ کا استعمال اور سرکاری فون کا استعمال کرتے ہوءے یہ کام کیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ وینر نے اپنے لوگوں کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا تھا۔
وینر کا جنسی اسکینڈل امریکی سیاست کا نہ تو پہلے جنسی اسکینڈل تھا اور نہ ہی آخری ہوگا۔ قریبا ماہ بھر پہلے کیلی فورنیا کے گورنر یہ اعتراف کر چکے تھے کہ ان کے جنسی تعلقات اپنی ایک ملازمہ کے ساتھ رہے تھے اور ان تعلقات کے نتیجے میں ایک لڑکا پیدا ہوا جو اب دس سال کا ہو چکا ہے۔
پھر اس سے پہلے ناءب صدر کے لیے انتخاب لڑنے والے امیدوار جان ایڈورڈز کے جنسی اسکینڈل منظر ٰعام پہ آچکے تھے۔ آرنلڈ شوارٹزنیگر کے اعتراف سے کچھ ہی پہلے امریکی فوج کے ایک دستے نے اسامہ بن لادن کو مارا تھا اور خبر آءی تھی کہ ہلاکت سے پہلے اسامہ اپنی تین بیویوں کے ساتھ ایبٹ آباد کے اس گھر میں رہا کرتا تھا۔
وینر کے اسکینڈل کی اشاعت پہ میرے دل میں خیال آیا کہ ایک پوسٹر ہو جس پہ وہ سارے امریکی سیاست داں منہ لٹکاءے دکھاءے جاءیں جو کسی نہ کسی جنسی اسکینڈل میں ملوث رہے اور اسکینڈل کے سامنے آنے پہ عوام کے سامنے رسوا ہوءے۔ اسی پوسٹر پہ لٹکے ہوءے منہ والے ان لوگوں کی تصاویر کے نیچے اسامہ بن لادن کی مسکراتی ہوءی ایک تصویر مع اس کی تین بیویوں کے ساتھ ہو۔
یہ بات تو خیر مذاق کی تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ پے در پے سامنے آنے والے ان اسکینڈلوں کی روشنی میں موجودہ دور کے اخلاقی معیاروں کو ازسر نو جانچنے کی ضرورت ہے۔
انسان کی بنیادی جبلت میں جہاں زندہ رہنے کی خواہش نہایت قوی ہے وہیں اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی خواہش بھی شدید قوت رکھتی ہے۔ انسان کی زندگی کے مقصد سے متعلق سوال پوچھا جاءے تو یہ سوال کسی قدر فلسفیانہ معلوم دیتا ہے مگر اور قسم کے حیاتی نمونوں میں زندگی کا مقصد صرف اور صرف ایک نظر آتا ہے اور وہ ہے زندگی کو قاءم رکھنا یعنی اپنی جان بچانا اور پھر زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے زندگی کے سفر کو آگے بڑھانا۔ جانوروں کا مشاہدہ کیجیے تو آپ کو اکثر صورتوں میں ایک نر کءی ماداءوں کے ساتھ گھومتا پھرتا نظر آءے گا۔ انسان بھی ایک ایسا ہی جانور ہے۔ کثیرالازداجی کی جبلت رکھنے والے اس جانور کو یک ازدواجی کے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کوشش مستقل ناکام ہو رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جب نیویارک کے گورنر ایلیٹ اسپٹزر کا جنسی اسکینڈل سامنے آیا تو ایک دوست نے حیرت کا اظہار کیا کہ اتنے مصروف لوگ ان کاموں کے لیے وقت کیسے نکال لیتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا تھا کہ مرد چاہے کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو اس کے پاس ایک یا ایک سے زاءد عورتوں کے لیے وقت نکالنا کوءی مشکل بات نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کی بنیادی حیوانی جبلت ہے۔ (نو میٹر ہاءو بزی اے مین از، ہی کین آلویز فاءنڈ ٹاءم فار این افءیر)۔
وینر کے اقرار پہ جب لوگوں نے زور دیا کہ وینر رکنیت کانگریس سے مستعفی ہوں
تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیوی سے مشورہ کر کے یہ کام کریں گے۔ واضح رہے کہ وینر کی پاکستانی نژاد بیوی ہما عابدین جو کہ ہلری کلنٹن کی معاون ہیں اس وقت ملک سے باہر تھیں۔ عقل یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ ایک شخص اپنی بیوی سے یہ بات کیسے کہے گا کہ، "بیگم، میں نے اپنی چند فحش تصاویر مختلف خواتین کو روانہ کیں تھیں۔ کیا اس بات پہ مجھے استعفی دے دینا چاہیے؟" کیا یہ شخص اپنی بیوی سے یہ توقع رکھے گا کہ وہ نیک خاتون سر جھکا کر کہے گی، "سرتاج، آپ اتنی سی بات پہ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ آپ چنداں فکر نہ کریں اور استعفی دینے کا خیال دل سے نکال دیں۔ جب بل کلنٹن نے سارے مزے اٹھانے کے بعد بھی استعفی نہ دیا تو آپ نے تو محض فحش تصاویر ہی چند خواتین کو ارسال کیں تھیں۔ اور آپ کو کیا خبر تھی کہ جن لوگوں کو یہ تصاویر ارسال کی جارہی ہیں وہ نوجوان لڑکیاں ہیں؟ وہ لمبی لمبی داڑھیوں والے مرد بھی تو ہو سکتے تھے۔"
مذاق برطرف، میں سوچتا ہوں کہ نہ جانے ہما عابدین اس وقت کیا سوچ رہی ہوگی؟ کیا ہما، جو اس وقت حاملہ ہے، اپنے شوہر سے سخت ناراض ہے اور وینر کی ان حرکتوں پہ اس سے علیحدگی چاہتی ہے؟ کاش کہ ایسا نہ ہو۔ بہتر یہ ہوگا کہ ہما، وینر سے معافی طلب کرے اور اپنے شوہر کی معافی کے جواب میں اسے معاف کر دے۔ امید ہے کہ وینر کے اسکینڈل پہ ہما نے اپنی باس ہلری سے مشورہ کیا ہوگا۔ اور ہلری نے اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں ہما کو سمجھایا ہوگا کہ، "یہ مرد ذات ہے بہت خبیث۔ لیکن اگر تمہیں کسی نہ کسی مرد کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہے تو بہتر ہے کہ اسی کے ساتھ نباہ کرتی رہو جس کے ساتھ تم نے کچھ وقت گزارا ہے۔ وینر کو چھوڑ کر اگر تم کسی اور مرد کے پاس جاءو گی تو اس مرد کو وینر سے بہت زیادہ مختلف نہ پاءو گی۔"

Labels:


 

حکمرانی کس کی؟ طاقت کی یا قانون کی؟



جون تیرہ، دو ہزار گیارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار سینتیس

حکمرانی کس کی؟ طاقت کی یا قانون کی؟




بہت سے لوگ جو پاکستان میں انقلاب کی راہ دیکھ رہے ہیں سرفراز شاہ نامی نوجوان کی کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد امید رکھتے تھے کہ سرفراز شاہ پاکستان کا محمد بو عزیزی ثابت ہوگا۔ کہ سرفراز شاہ کے قتل سے ایک انقلاب بپا ہوگا جو آنا فانا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور عام پاکستانی کے دن یکسر پھر جاءیں گے۔ انقلاب کا یہ خواب یقینا شرمندہ تعبیر نہ ہوگا مگر سرفراز شاہ کی بے بس موت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرفراز شاہ کی ہلاکت کے بعد اس واقعے کی ویڈیو ذرا سی دیر میں انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گءی۔ میں اکثر ذمہ دار صحافت کا راگ الاپتا رہتا ہوں مگر میڈیا سے اس واقعے کی بے مہار تشہیر کے سلسلے میں دو متضاد راءے رکھتا ہوں۔ ایک طرف تو میں الیکٹرانک میڈیا سے ناراض ہوں کہ انہوں نے اس قدر پرتشدد اور گھناءونی ویڈیو بار بار ٹی وی پہ دکھا کر، اور اس ویڈیو کی انٹرنیٹ پہ عام تشہیر کر کے اچھا نہیں کیا۔ بہت سے نفسیاتی تجزیوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لوگوں کو پرتشدد ویڈیو دکھانا کوءی احسن عمل نہیں ہے کیونکہ ایسے ویڈیو دیکھ کرعام لوگ اور بالخصوص کم سن جوان کرخت دل ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں ہونے والے دیگر مظالم کو آسانی سے قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہو جاتے ہیں۔ پرتشدد واقعات چشم دید یا میڈیا کے توسط سے دیکھنے سے کسی شخص کی انسانیت ایک قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے اور وہ شخص ذہنی طور پہ قبول کر لیتا ہے کہ دنیا ایسی ہی جگہ ہے جہاں تشدد عام ہے اور ایسے واقعات پہ زیادہ ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نہ خود ایسا انسان بننا چاہتا ہوں اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگ ایسے سنگ دل بن جاءیں۔ مگر اس کے ساتھ جب میں دیکھتا ہوں کہ سرفراز شاہ کی ہلاکت کی ویڈیو نے کس طرح لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو دل کسی قدر مطمءن ہوتا ہے۔ دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص ایک بہت ظالم جگہ ہے۔ پاکستان میں ہر طرح کا ظلم ہمہ وقت رواں ہے۔ قانون صرف غریب اور کمزور پہ لاگو ہوتا ہے۔ وہاں دراصل طاقت ہی اصل قانون ہے۔ مگر پاکستان کے شہری علاقوں میں بسنے والے بہت سے متوسط اور متمول طبقات کے لوگ پاکستان کی اس اصل حقیقت سے یکسر لا علم ہیں۔ سرفراز شاہ کی ہلاکت نے ایک کمینی حقیقت کو ہر پاکستانی کے سامنے یوں لا کھڑا کیا ہے کہ اب اس کا اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یہ ویڈیو عام لوگوں کو عمل کے لیے اکسا رہی ہے۔ ان کو جھنجھوڑ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ بتاءو، اب کیا کرو گے۔ کیا اب بھی آنکھیں بند رکھو گے اور خیال کرو گے کہ بس ملک یوں ہی چلتا رہے گا، یا ملک میں ایک منصف معاشرے کے قیام کے لیے ہاتھ ضرور بٹاءو گے؟
رینجرز کے جن اہلکاروں نے سرفراز شاہ کو گولیاں ماریں ان کا کہنا تھا کہ سرفراز شاہ ایک راہ زن تھا جو کسی شخص کا دستی فون چھین کر بھاگا تھا۔ رینجرز اہلکاروں کے اس بیان کی روشنی میں کچھ لوگوں کا خیال ہوا کہ سرفراز شاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ٹھیک ہی ہوا۔ لوگوں کی ایسی کجی سوچ ایک کچے ذہن کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک ایسا ذہن جس نے کبھی یہ نہ سوچا ہو کہ معاشرے میں قانون کی بالادستی کی اہمیت کیا معنی رکھتی ہے، اور یہ نہ جانا ہو کہ ماوراءے عدالت "انصاف" دراصل ایک گدلا عمل ہے جس میں عمل کا منصف ہونا یا نہ ہونا کبھی ثابت نہ ہوپاءے گا۔
سرفراز شاہ کی ہلاکت کے سسلسلے میں بہت سے لوگوں کا اس ماوراءے عدالت کارواءی پہ مطمءن ہوجانا بھی دراصل نفسیاتی طور پہ عالمی فکری تحریکوں سے متاثر ہونے کی ایک شکل ہے۔ کہ آپ نے اور میں نے دیکھا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے امریکہ کے صدر نے ایک مفرور ملزم، اسامہ بن لادن، پہ شب خون مار کر اسے ہلاک کرنے کے عمل پہ اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ "انصاف ہو گیا۔" موسیقی ہو یا ٹیکنالوجی، فیشن ہو یا ساءنس، پچھلی کءی دہاءیوں سے امریکہ تمام تحریکوں میں دنیا کا بے تاج بادشاہ مانا جاتا ہے اور یہاں سے اٹھنے والی فکری لہریں جلد یا بدیر پوری دنیا کو اپنی جکڑ میں لے لیتی ہیں۔ جب ایسے اہم ملک کا صدر ایک ماوراءے عدالت کارواءی پہ یوں سینہ ٹھونک کر کہے کہ "انصاف ہوگیا" تو ایسی احمقانہ سوچ کا دنیا کے چپے چپے میں پھیل جانا کوءی حیرت کی بات نہیں۔

Labels:


 

دیوار کھوکھلی ہو رہی ہے



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چھتیس

دیوار کھوکھلی ہو رہی ہے

ملکوں اور قوموں کی ساری طاقت اپنے اندر کی طاقت سے ہوتی ہے جو عسکری طاقت سے کہیں زیادہ قوی شے ہوتی ہے۔ اس طاقت کا منبہ انصاف ہوتا ہے۔ جو معاشرے منصف ہوتے ہیں، جہاں کام قانون کے تحت ہو رہے ہوتے ہیں، اور لوگوں کو انصاف ہوتا نظر آتا ہے وہاں لوگ مطمءن ہوتے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ محنت سے کام کریں گے اور قانون کے حساب سے چلیں گے تو انہیں کوءی تکلیف نہیں ہوگی۔ عوام کو اپنی حکومت سے کوءی گہری اور بنیادی شکایت نہیں ہوتی۔ عوام اپنے آپ کو ریاست کا جز سمجھتے ہیں اور ریاست کی بقا میں اپنی بقا دیکھتے ہیں۔ اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ کسی ایسے مضبوط ملک پہ کوءی باہر سے آکر حملہ کرے اور اس پہ قبضہ کر کے عوام کو غلام بنا لے۔ اس کے مقابلے میں تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ عظیم الشان تہاذیب، وسیع و عریض رقبے کا محاکمہ کرتے ممالک پہلے اندر سے کمزور ہوءے اور پھر کسی بیرونی طاقت نے گرتی ہوءی دیوار کو آخری دھکا دینے کا کام کر دیا۔ ہم نے اپنی زندگی میں سوویت یونین جیسے بڑے ملک کو ذلیل و خوار ہو کر ٹوٹتا بکھرتا دیکھا ہے۔ سوویت یونین افغانستان میں اپنی ہار کی وجہ سے نہیں ٹوٹا بلکہ اس لیے ٹوٹا کیونکہ وہ اندر سے کھوکھلا تھا۔ افغانستان کی جنگ تو محض گرتی ہوءی دیوار کے لیے آخری دھکا ثابت ہوءی۔ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے سوویت یونین سنہ ۸۹ میں ٹوٹ گیا۔ اگر افغانستان کی جنگ نہ ہوتی تو شاید سوویت یونین کچھ سال اور چل جاتا، مگر وہ ملک جس قسم کے تضادات اور ناانصافیوں کا حامل تھا اس کا بہت عرصے چلنا ممکن نہ تھا۔ افغانستان پہ امریکی قبضے کی واجبی وجہ امریکی افواج کا تیس ہزار فٹ کی بلندی سے بم گرانا تھا، اصل وجہ زمین پہ شمالی اتحاد کی موجودگی تھی۔ اور خود ہمارے ملک کی تاریخ دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش ہندوستان کی فوجی کارواءی کی وجہ سے نہیں بنا۔ بلکہ ہندوستان کی فوجی کارواءی تو محض کھوکھلی دیوار کو آخری دھکے کے مترادف تھی۔ دیوار کو تو ہم نے خود کھوکھلا کیا تھا۔
آج پاکستان کے وجود کو ایک بار پھر جو خطرہ ہے وہ اندرونی عناصر سے ہے۔ اگر پاکستانی طالبان یا ان سے منسلک گروہ پاکستانی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں تو وہ ہمارے ہی لوگ ہیں اور بہت سی وجوہات کی وجہ سے پاکستان سے اتنے نالاں ہیں کہ وہ پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں اور رہا سہا نظام تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ باہر کے دشمن کو سنبھالنا پھر بھی آسان ہوتا ہے مگر اندر کا آدمی دشمن بن جاءے تو اسے سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔ اندر کے دشمن سے لڑنے کے لیے بہت سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پی این ایس مہران پہ حملے کے بعد ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان بندرگاہ پہ موجود تیل کے ٹینکوں، اور بجلی گھروں وغیرہ کو بھی نشانہ بنانے کا اردہ رکھتے ہیں۔ اگر طالبان کسی حد تک بھی بربادی کے ان ارادوں میں کامیاب ہو گءے تو اس غریب ملک کا کیا بنے گا؟ وہاں تو پہلے ہی بجلی کی شدید قلت ہے اور پورا نظام شکستہ ہے۔ اگر مرکزی نظام بالکل ہی ٹوٹ گیا تو مسلح گروہ اپنے اپنے علاقوں پہ قابض ہو جاءیں گے اور پاکستان صومالیہ جیسی ایک ریاست بن جاءے گا۔
ایک جملے میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہاں امریکہ شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور پاکستان میں موجود شدت پسند امریکہ کا بال بیکا نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنا غصہ پاکستان پہ نکال رہے ہیں۔ سنہ ۲۰۰۱ میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو جس جنگ میں دھکیل دیا تھا، سنہ ۲۰۰۸ میں جمہوری حکومت کے آنے کے بعد اس جنگ سے باہر نکل آنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ شدت پسندی سے جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ یہ جنگ پاکستان کو خود اپنے طور پہ لڑنی ہے، بغیر کسی بیرونی مدد کے۔ اس جنگ کو اکیلے لڑنے ہی میں پاکستان کی بقا کا راستہ پوشیدہ ہے ورنہ اس ملک کی شکست و ریخت دیوار پہ لکھی نظر آ رہی ہے۔

 

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عام پاکستانی



مءی تءیس، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار پینتیس




دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عام پاکستانی



جس وقت یہ کالم لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہاں کیلی فورنیا میں اتوار کی رات تھی اور کراچی میں پیر کی صبح ۔ پی این ایس مہران پہ دہشت گردوں کا حملہ جاری تھا۔ ایک خبر کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے فون کر رواءٹرز کو بتایا تھا کہ ان کے گروہ نے یہ حملہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے انتقام میں کیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ دہشت گردوں کے پاس تین دن کا کھانے پینے کا سامان اور طویل لڑاءی کے لیے اسلحہ موجود تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب یہ معرکہ ختم ہوچکا ہے۔ مگر اس دلیر حملے نے بہت سے رازوں پہ سے پردے اٹھا دیے ہیں اور دنیا بھر میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو فکر کا نیا سامان مہیا کر دیا ہے۔ پی این ایس مہران پہ حملے کی خبر سن کر سب سے پہلا خیال یہ آیا تھا کہ حملہ آور بلوچ قوم پرست ہو سکتے ہیں۔ مگر جب معلوم ہوا کہ حملہ آور نقصان کر کے فرار نہیں ہونا چاہتے بلکہ وہیں رک کر مقابلہ کر رہے ہیں اور اس طرح اپنی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں تو واضح ہو گیا کہ یہ لوگ یقینا گمراہ مسلمان ہیں۔ ایک پاگل عیساءی، یا پاگل ہندو، یا پاگل یہودی، یا پاگل قوم پرست اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے اتنا بیتاب نہیں ہوتا، جتنا بے چین ایک پاگل مسلمان ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اس حملے کی توجیہہ جان کر لوگوں کے یہ شکوک و شبہات ختم ہوگءے ہوں گے کہ مءی دو کا واقعہ محض جھوٹ تھا۔
فوجی کسی ملک کا بھی ہو کبھی اپنی ذہانت و چالاکی کے لیے مشہور نہیں رہا۔ امریکہ کے ان نیوی سیل کمانڈوز کو ہی لے لیجیے جنہوں نے آٹھ ماہ تک اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد کے ٹھکانے پہ حملہ کرنے کی مشق کی اور ساتھ ہی یہ مشق بھی کہ کس طرح ہیلی کاپٹروں سے اتر کر پشتو میں چلا چلا کر محلے والوں کو بتانا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ ان بے وقوف کمانڈوز کو نہ تو کسی نے بتایا اور نہ ہی ان کی اپنی کھوپڑی چلی کہ انٹرنیٹ کی مدد سے معلوم کر لیتے کہ ایبٹ آباد میں پشتو نہیں ہندکو بولی جاتی ہے۔ تو اگر چار چھ دہشت گرد نہایت سہولت سے پی این ایس مہران میں داخل ہو گءے اور اس فوجی اڈے کی حفاظت پہ معمور فوجیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوءی تو اس قدر تعجب کی بات نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حملہ آوروں نے جس طرح راکٹوں کی مدد سے اوراین جاسوسی طیارہ تباہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملہ آوروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فوجی اڈے میں داخل ہو کر کہاں جانا ہے اور کس کھڑے طیارے کو تباہ کر کے زیادہ سے زیادہ نقصان کرنا ہے۔ مگر میں اس جاسوسی طیارے کی تباہی کے واقعے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اگر آپ رات کے اندھیرے میں کسی فوجی اڈے میں نقصان کرنے کی نیت سے داخل ہوں تو آپ اس جگہ جاءیں گے جو سب سے زیادہ نمایاں ہوگی۔ اور پی این ایس مہران میں ایک چالیس فٹ اونچے طیارے سے زیادہ نمایاں عسکری اہمیت کی شے کیا ہوسکتی تھی؟
مگر پاکستانی فوجی تنصیبات پہ دہشت گردوں کے پے درپے حملوں سے پاکستانی فوج کی کمزوری دنیا پہ عیاں ہو گءی ہے۔ پاکستان اور پاکستانی فوج کے دشمن یقینا ان واقعات کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں اپنے مذموم عزاءم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شہ مل رہی ہوگی۔ پاکستانی فوج کی اس پرکھ کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستانی کے جوہری اثاثے کیا واقعی محفوظ ہیں یا دہشت گرد حساس فوجی مقامات پہ حملہ کر کے ان جوہری اثاثوں کو بھی اپنے قبضے میں کر سکتے ہیں۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر نو گیارہ کے واقعے کے وقت پاکستان میں ایک جمہوری حکومت ہوتی تو کیا ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف تو مطلق العنان حکمراں تھے، انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا حواری بنانے کے سلسلے میں بہت سے لوگوں سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اگر پرویز مشرف کی جگہ اس وقت ایک جمہوری حکومت ہوتی تو شاید اس جنگ میں کودنے کے بارے میں زیادہ غورو خوض کیا جاتا۔ کیا اس بات کا امکان تھا کہ ایسی پاکستانی حکومت مذہبی جماعتوں کے زور میں آکر امریکہ کی جنگ لڑنے سے معذوری کا اظہار کر دیتی؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ کیا مذہبی شدت پسندی سے لڑاءی ہمیشہ کے لیے ٹل جاتی یا اعتدال کا مقابلہ انتہا پسندی سے کبھی نہ کبھی ہونا ہی تھا اور یہ لڑاءی جتنی زیادہ دیر ٹلتی انتہا پسندی اس قدر زیادہ طاقتور ہوتی جاتی؟ اس لیے بہتر ہی ہوا کہ یہ لڑاءی شروع ہوگءی؟ مگر امکانات کی یہ پہیلیاں محض ذہنی معرکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اپنے آپ سے برسرپیکار ہے اور پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ لگتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے "القاعدہ" اور "طالبان" پہ حملے جاری رہیں گے اور ان حملوں کے انتقام میں شدت پسندوں کی طرف سے جوابی حملے پاکستان کے خلاف کیے جاءیں گے۔ اس صورت میں پاکستان میں رہنے والے عام لوگ کیا کریں؟ ہاتھیوں کی اس احمقانہ لڑاءی میں چیونٹیاں اپنی حفاظت کا انتظام کیسے کریں؟ اس نہایت مشکل سوال کا ایک آسان جواب ہے جس پہ عمل درآمد مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ مملکت پاکستان مرکزی نظام حکومت کی جس بتدریج کمزوری اور بالاخر ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان میں رہنے والے لوگ اسے دل سے قبول کر کے اپنی جان بچانے کا انتظام کریں۔ اپنے اپنے علاقے کا انتظام سنبھال لیں۔ اس مفروضے کے ساتھ کام کریں کہ مرکزی نظام حکومت کا سایہ آپ کے سروں سے اٹھ چکا ہے اور اب آپ کو اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی حفاظت، اپنی معیشت، اپنی ضروریات کا انتظام کرنا ہے۔

Labels:


 

پاکستان میں فوج-حکومت معاملہ



مءی سولہ، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چونتیس



پاکستان میں فوج-حکومت معاملہ



جس قدر محیرالعقل ستمبر گیارہ، دوہزار ایک کا واقعہ تھا، اتنا ہی عجیب و غریب مءی دو، دوہزار گیارہ کا واقعہ تھا۔ ایبٹ آباد کا واقعہ دو ہفتے سے زیادہ پرانا ہو چکا ہے مگر اس واقعے پہ اب تک زوردار بحث جاری ہے۔ امریکہ میں بالخصوص اور مغربی دنیا میں بالعموم عام لوگوں کو یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ آیا پاکستانی فوج کے علم میں یہ بات تھی کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے ایک گھر میں پانچ سال سے رہ رہا ہے۔ کیا ایبٹ آباد میں بن لادن کی رہاءش پاکستانی فوج یا کم از کم پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں کی اعانت ہی سے ممکن ہو پاءی؟ اس سوال کے مقابلے میں پاکستان میں رہنے والے لوگوں اور بیرون ملک رہاءش پذیر پاکستانیوں کو یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے کہ آیا دو مءی کے روز واقعی پاکستانی فوج کو امریکی حملے کے متعلق اس وقت خبر ملی جب ہیلی کاپٹروں کا امریکی دستہ پاکستانی سرحد پار کر چکا تھا، یا پھر دو مءی کا امریکی حملہ پاکستانی فوج کی مدد سے ممکن ہوا۔ اگر پہلی بات درست ہے اور واقعی پاکستانی فوج اتنی بے خبر ہے کہ کوءی ہمارے ملک کے اندر داخل ہو کر ایک ملٹری اکیڈمی کے بغل میں فوجی کارواءی کر کے چلا جاءے اور پاکستانی فوج کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستانی عوام کو اپنی فوج کی کارکردگی پہ شدید غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام چھ لاکھ پاکستانی فوجیوں کے اسی طرح کے مالک ہیں جیسے ایک گھر میں رہنے والے لوگ گھر کے چوکیدار کے مالک ہوتے ہیں۔ کسی شخص کو گھر کی چوکیداری کے لیے صرف ایک مقصد کے لیے رکھا جاتا ہے اور وہ یہ کہ چوکیدار دل لگا کر گھر کی حفاظت کرے اور کسی چور اچکے کو اس بات کا موقع نہ فراہم کرے کہ وہ گھر میں گھس کر صفاءی کر جاءے۔ اگر کبھی یوں ہو کہ چوکیدار کی موجودگی کے دوران چور گھر میں گھس کر اپنا کام کر جاءیں تو سب سے پہلے تو گھر کے مالکان کا دھیان اس طرف جاتا ہے کہ کہیں چوکیدار چوروں سے تو نہیں ملا ہوا تھا۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور چوکیدار واقعی نشہ کر کے سور رہا تھا تو چوکیدار کو نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ ایک نااہل ملازم کو بھلا کون برداشت کرتا ہے؟
ایبٹ آباد کے واقعے میں ایک دوسری صورت یہ ہے کہ امریکی حملہ پاکستانی فوج کی مرضی سے ہوا اور پاکستانی فوج صرف دنیا کو دکھانے کے لیے کہہ رہی ہے کہ اسے کاکول کے برابر میں ہونے والی اس فوجی کارواءی کے بارے میں بالکل پتہ نہ چل پایا۔ کیا پاکستان کی سیاسی حکومت بھی اس دکھاوے میں شامل ہے یا پھر پاکستانی فوج کے امریکہ سے بالا بالا ایسے تعلقات ہیں کہ امریکی حکام، پاکستان کی سیاسی حکومت کو ساتھ ملاءے بغیر صرف پاکستانی فوج کے ساتھ معاملہ کر کے اپنا کام چلا لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ کوءی بہت اچھی صورتحال نہیں ہے کیونکہ پاکستانی عوام اور اس کی نماءندہ سیاسی حکومت فوج کی مالک ہے۔ مالک کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملازم کس کے ساتھ مل کر کیا کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور فوج کے درمیان مالک اور ملازم کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پے درپے آنے والی کمزور اور نااہل سیاسی قیادت نے پاکستانی فوج کو ایسے مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پاکستان کا صحیح مالک تصور کرے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان کا وزیر دفاع کون ہے۔ البتہ پاکستانی فوج کے سربراہ کا نام سب لوگ جانتے ہیں۔ صاف واضح ہے کہ کون کتنا طاقتور ہے۔
اب تک یوں ہی تھا مگر اب بات ایسے نہیں چل سکتی۔ سچی جمہوریت میں حکومت جمہور کو جوابدہ ہوتی ہے اور فوج حکومت کو۔ معاملات کو اسی طرح شفاف رکھنے میں احتساب کا راستہ اوپر سے نیچے تک کھلا رہتا ہے۔ معاملات کو اسی طرح شفاف چلانے میں ہم سب کی بہتری ہے۔

Labels:


 

بن لادن کا اسلحہ



مءی نو، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تینتیس


بن لادن کا اسلحہ


دنیا کے اکثر ممالک میں لوگوں کا اعتبار اپنے اوپر حکومت کرنے والوں پہ کم ہو گیا ہے۔ حکام کچھ بتاءیں تو اس پہ شک ہی کیا جاتا ہے کہ نہ جانے اصل بات کیا ہے۔ ایسے میں صحافیوں کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ بال کی کھال نکالیں اور تمام معاملات کھول کھول کر لوگوں کے سامنے رکھیں۔ اور جب ایک خبر کو کءی صحافی ایک ہی طرح سے بیان کریں تو پھر اس خبر پہ یقین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اتوار، اول مءی کی رات جب امریکی حکام نے خبر دی کہ ایک امریکی فوجی دستے نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پہ ہلہ بول کر اسامہ بن لادن کو مار دیا ہے تو بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی اس خبر کی صداقت کے متعلق شک میں گرفتار تھا۔ شک کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک یہ خبر صرف امریکی وزارت دفاع کی طرف سے آرہی تھی۔ مجھے اس بارے میں شک نہ تھا کہ امریکی فوج نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پہ حملہ کیا ہوگا کیونکہ شمالی پاکستان میں امریکی فوجیں ایک عرصے سے لوگوں اور گھروں پہ حملے کر رہی ہیں۔ میرا شک صرف اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے متعلق تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ نہ جانے امریکی فوجیوں نے کس لمبے، داڑھی والے آدمی کو جان سے مار دیا اور خود اپنے سینے پہ تمغہ سجا لیا کہ ہم نے اسامہ بن لادن کو مار ڈالا ہے۔ مگر جب پاکستانی میڈیا نے اس خبر کی تصدیق کی تو میں مطمءن ہوگیا۔ مجھے تعجب اس بات پہ ہوتا ہے کہ آج اس واقعہ کو ہفتہ بھر سے زاءد گزرنے کے بعد بھی مجھے ایسے لوگ ملتے ہیں جو سر ہلا کر کہتے ہیں، " بالکل جھوٹ۔ سفید جھوٹ۔ سراسر جھوٹ ہے یہ سب کچھ۔"۔ شکی مزاج ایسے ہی ایک شخص سے میں نے استفسار کیا کہ ان کی نظروں میں کیا کچھ جھوٹ ہے۔ کیا پاکستان میں ایبٹ آباد نامی ایک شہر ہے؟ کہنے لگے کہ جی ہاں ہے۔ کیا ایبٹ آباد میں واقع ایک گھر پہ مءی ایک اور دو کی درمیانی شب ایک حملہ ہوا تھا؟کہنے لگے کہ جی ہاں، ہوا تھا کیونکہ ٹی وی پہ وہ گھر دکھایا جا رہا ہے اور محلے میں رہنے والے لوگ بھی تصدیق کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہیں کہ اس گھر پہ ڈرون سے نہیں بلکہ ہیلی کاپٹر سے حملہ ہوا تھا؟ میں نے خود ہی ان کی توجہ اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کی طرف دلاءی جسے حملہ آور چھوڑ گءے تھے۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا کہ ہاں حملہ ہیلی کاپٹر سے ہوا تھا۔ کیونکہ امریکی حکام خود کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہیلی کاپٹروں سے اپنے فوجی ایبٹ آباد کے اس گھر پہ حملے کے لیے بھجواءے تو جاءے وقوع پہ ایک تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کی موجودگی اور امریکی حکام کے بیان کے بعد اس بارے میں شک کرنا بے معنی ہے کہ امریکی فوجیوں ہی نے اس گھر پہ حملہ کیا تھا۔ تو یہاں تک تو آپ کو یقین ہے کہ یہ سچ ہے، میں نے اپنے اطمینان کے لیے ان سے پوچھا۔ انہوں نے کسی قدر ناگواری سے اثبات میں سر ہلایا۔ تو اب شک صرف اس بارے میں رہ گیا کہ اس گھر میں مارا جانے والا ایک شخص اسامہ بن لادن تھا جس کی لاش امریکی فوجی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گءے۔ پاکستانی میڈیا سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایبٹ آباد کے اس گھر میں دھماکے کی آواز سننے کے بعد پاکستانی سیکیورٹی حکام وہاں پہنچے اور انہوں نے مذکورہ گھر کے زخمیوں اور دوسرے لوگوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور اس بارے میں بھی شک نہیں کرنا چاہیے کہ اس گھر سے حراست میں لیے جانے والے لوگوں میں سے ایک أمل الصداح نامی عورت ہے جو اسامہ بن لادن کی بیوی بیان کی جاتی ہے۔ اگر ہم نے مغربی اور پاکستانی میڈیا کی خبروں سے یہاں تک کے تمام معاملات کو سچ جان لیا ہے تو اس بارے میں شک کرنا فضول ہے کہ اس گھر میں اسامہ بن لادن مارا گیا تھا۔
البتہ اس خبر سے متعلق امریکی حکام نے جو تفصیلات بیان کی تھیں اور جس طرح نیوی سیلز کمانڈوز کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا تھا اس بارے میں بلا شبہ شک کیا جا سکتا ہے۔ کہ اگر مغربی ذراءع کی یہ خبریں صحیح ہیں کہ ایک جاسوس ڈرون ایک طویل عرصے سے خفیہ طور پہ ایبٹ آباد کے اس گھر کی ویڈیو بنا رہا تھا اور سی آءی اے نے ایبٹ آباد کے اس علاقے میں ایک گھر کراءے پہ لے لیا تھا جہاں رہنے والے مخبر اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پہ نظر رکھے ہوءے تھے اور اس گھر پہ آنے جانے والے لوگوں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ تو پھر اتنی تحقیق کے بعد چالیس مسلح لوگوں کا ہیلی کاپٹر سے ایک گھر پہ حملہ آور ہونا شجاعت کا کوءی ایسا کارنامہ نہیں ہے۔ ایبٹ آباد کے اس گھر پہ حملہ کرنے والے فوجیوں کو وہاں رہنے والے لوگوں کی تعداد کا علم تھا، ان کو معلوم تھا کہ مکینوں کے پاس کوءی بڑے ہتھیار نہیں ہیں، اور یہ یقین تھا کہ مکین اپنے دفاع میں بے ضرر مزاحمت کے علاوہ کچھ نہ کر پاءیں گے۔ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پہ حملہ بظاہر ہالی وڈ کی کسی جاسوسی فلم کا ایک سنسی خیز سین نظر آتا ہے جس میں چند ہیرو انتہاءی خطرناک لوگوں کے ٹھکانے پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بچتے بچتے اپنا مشن پورا کرتے ہیں، مگر ایسا تھا نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذکورہ فوجی آپریشن سے زیادہ سہل کمانڈو ایکشن کی صورت مشکل ہی سے پیدا ہو پاءے گی۔
اب مجھے تجسس صرف یہ ہے کہ اس گھر سے کس قسم کا اسلحہ پکڑا گیا۔ دنیا کا سب سے خطرناک مجرم قرار دیا جانے والا شخص اپنے ساتھ کس قسم کے خطرناک ہتھیار رکھتا تھا؟ کیا اسامہ بن لادن کے وہ آتشیں ہتھیار امریکی کمانڈو اپنے ساتھ لے آءے ہیں یا پاکستانی حکام نے ان ہتھیاروں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے؟ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ان حقاءق پہ سے پردے اٹھاءیں گے۔

Labels:


 

لاد چلا لادن


مءی دو، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار بتیس



لاد چلا لادن




دنیا میں تہاذیب کے عروج و زوال تاریخ کا حصہ رہے ہیں مگر پندرہویں صدی کے بعد یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بسے یورپیوں کا جو عروج شروع ہوا ہے اس عروج کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس بے مثال عروج کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آج سے پہلے دنیا نامی یہ سیارہ اس طور سے باہم منسلک نہ تھا جیسا آج ہے۔ آج کی دنیا کی مواصلات پہ مغربی دنیا کا بھرپور قبضہ ہے۔ وہ ایک شوشہ چھوڑتے ہیں اور پوری دنیا کے خبر رساں ادارے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ صحافت کا معیار یہ ہوگیا ہے کہ کسی بھی بات کو بغیر تصدیق مگر حوالے کے ساتھ نقل کردینا کافی ہے۔ ضیاالحق کے دور میں پاکستان ٹی وی کا نو بجے کا خبرنامہ جس صحافت کا مظاہرہ کرتا تھا وہ صحافت آج ہر جگہ نظر آتی ہے۔ "انہوں نے یہ کہا،" "باخبر ذراءع کا کہنا ہے،" کی گردان مستقل سننے میں آتی ہے۔ کل سے پوری دنیا میں شور ہے کہ امریکی فوج کے ایک چھوٹے سے دستے نے ایبٹ آباد میں واقع اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پہ حملہ کر کے بن لادن کو مار دیا اور اس کی لاش اس جگہ سے اٹھا کر لے گءے۔ لاش کو بعد میں سپرد سمندر کر دیا گیا۔ اس خبر کو مغربی ذراءع تک امریکی فوج نے پہنچایا ہے۔ بس صحافت میں اتنی تکلیف کافی ہے۔ اب اخبارات اور ٹی وی سمیت سارے مغربی ذراءع مستقل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ بن لادن کو مار ڈالا گیا۔ میں نے کچھ دیر پہلے روزنامہ جنگ اور روزنامہ ڈان کا انٹرنیٹ ایڈیشن پڑھا ہے۔ یہ دونوں اخبارات بھی بن لادن کی ہلاکت کی خبروں سے بھرے ہیں۔ مگر یہ ساری خبریں مغربی ذراءع سے حاصل کی گءی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ روزنامہ جنگ میں اس واقعہ سے متعلق تینوں تصاویر بھی مغربی ذراءع سے حاصل شدہ ہیں۔ ارے کچھ شرم کرو! ایبٹ آباد تو پاکستان کا حصہ ہے۔ اگر تمھارے اخبارکے رپورٹر ایبٹ آباد میں نہیں بھی ہیں تو اسلام آباد سے ایک شخص ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ایبٹ آباد پہنچ سکتا ہے۔ شبینہ واقعے کےعینی شاہدین کے انٹرویو کیے جا سکتے ہیں۔ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ مکان کس شخص کے نام ہے، اور مالک مکان کا تعلق کس جگہ سے ہے۔ پڑوسیوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ مکان میں کون لوگ رہتے تھے اور کس طرح کے لوگوں کا وہاں آنا جانا تھا۔ اسی ضمن میں ایک خبر ہے کہ عسکری مقابلے میں ہلاک ہونے والے چند لوگوں کے علاوہ بارہ لوگوں کو زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ گرفتارشدگان کہاں ہیں؟ کیا آزاد اور ذمہ دار خبر رساں ایجنسیاں ان لوگوں تک رساءی حاصل کر سکتی ہیں؟ غرض کہ اس واقعے کے ایبٹ آباد میں ہونے کی وجہ سے پاکستانی خبررساں اداروں کے لیے بہت سے راستے کھلے ہیں اور پاکستان میں مقامی طور پہ حاصل کی گءی معلومات کی اہمیت نقل ٹپو صحافت سے حاصل کی گءی معلومات سے کہیں زیادہ ہوگی۔
مغرب جہاں ایک ہی بات کو سو طرف سے پانچ ہزار دفعہ بیان کرنے میں کمال رکھتا ہے وہیں اپنی پیٹھ خود ٹھونکنے میں بھی کسی قسم کی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ سننے میں آرہا ہے کہ اسامہ بن لادن کو مارنے سے بالاخر انصاف حاصل ہوگیا۔ واقعی؟ انصاف تو اس وقت ہوتا جب بن لادن کو زندہ پکڑ لیا جاتا۔ مبینہ طور پہ اس کے سر پہ گولی مارنے کے بجاءے بن لادن کی ٹانگ پہ گولی ماری جاتی یا اس پہ بے ہوش کرنے والی گیس کا چھڑکاءو کر دیا جاتا۔ بن لادن کو زندہ پکڑنے کے بعد اس پہ باقاعدہ مقدمہ چلایا جاتا اور جرم ثابت ہونے پہ قرار واقعی سزا دی جاتی۔ پھر ہوتا انصاف۔
دل کہہ رہا ہے کہ ایک بار پھر جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ بن لادن کی نہ پہلے کوءی اہمیت تھی نہ آج ہے۔ القاعدہ کا ہوا جھوٹا ہے۔ ہاں بہت سے گمراہ لوگ ضرور ہیں جو نفرت سے بھرے ہیں اور امریکہ سے بغض رکھتے ہیں۔ مگر القاعدہ کوءی ایسی منظم بین الاقوامی تنظیم نہیں ہے جو سازش کرنے والوں کو ایک اچھا سا کانفرینس روم مہیا کرے، جہاں ہر مندوب کے سامنے معدنی پانی کی چھوٹی سی بوتل رکھی ہو، جہاں کافی غور و فکر کے بعد گہری سازش تیار کی جاءے۔ بن لادن ایک بے وقوف شخص تھا جو شاید بہت پہلے کہیں بےنام و نشان مر چکا ہے۔ موجودہ بن لادن کہانی کے پیچھے امریکی عسکری اور سیاسی قیادت کے کیا عزاءم ہیں، یہ وقت کے ساتھ ہی معلوم ہوگا مگر سر دست یہ خیال ہوتا ہے کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" جیسے بڑے فضول خرچے کو لپیٹنے کی تیاری ہے۔ حماقت کی یہ جنگ نو گیارہ کے دھماکہ دار واقعے سے شروع ہوءی تھی اور اسے ایسے ہی کسی واقعے پہ ختم کرنا ضروری تھا۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس جنگ کے احمقانہ حصے کا اختتام ہے۔ آءندہ یہ جنگ ڈرون حملوں سمیت خودکار طریقوں سے لڑی جاءے گی۔ اس طرح امریکی فوجی صنعت بھی چلتی رہے گی اور امریکی جانی نقصان بھی نہ ہوگا۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?