Monday, July 04, 2011

 

حکمرانی کس کی؟ طاقت کی یا قانون کی؟



جون تیرہ، دو ہزار گیارہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار سینتیس

حکمرانی کس کی؟ طاقت کی یا قانون کی؟




بہت سے لوگ جو پاکستان میں انقلاب کی راہ دیکھ رہے ہیں سرفراز شاہ نامی نوجوان کی کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد امید رکھتے تھے کہ سرفراز شاہ پاکستان کا محمد بو عزیزی ثابت ہوگا۔ کہ سرفراز شاہ کے قتل سے ایک انقلاب بپا ہوگا جو آنا فانا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور عام پاکستانی کے دن یکسر پھر جاءیں گے۔ انقلاب کا یہ خواب یقینا شرمندہ تعبیر نہ ہوگا مگر سرفراز شاہ کی بے بس موت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرفراز شاہ کی ہلاکت کے بعد اس واقعے کی ویڈیو ذرا سی دیر میں انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گءی۔ میں اکثر ذمہ دار صحافت کا راگ الاپتا رہتا ہوں مگر میڈیا سے اس واقعے کی بے مہار تشہیر کے سلسلے میں دو متضاد راءے رکھتا ہوں۔ ایک طرف تو میں الیکٹرانک میڈیا سے ناراض ہوں کہ انہوں نے اس قدر پرتشدد اور گھناءونی ویڈیو بار بار ٹی وی پہ دکھا کر، اور اس ویڈیو کی انٹرنیٹ پہ عام تشہیر کر کے اچھا نہیں کیا۔ بہت سے نفسیاتی تجزیوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لوگوں کو پرتشدد ویڈیو دکھانا کوءی احسن عمل نہیں ہے کیونکہ ایسے ویڈیو دیکھ کرعام لوگ اور بالخصوص کم سن جوان کرخت دل ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں ہونے والے دیگر مظالم کو آسانی سے قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہو جاتے ہیں۔ پرتشدد واقعات چشم دید یا میڈیا کے توسط سے دیکھنے سے کسی شخص کی انسانیت ایک قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے اور وہ شخص ذہنی طور پہ قبول کر لیتا ہے کہ دنیا ایسی ہی جگہ ہے جہاں تشدد عام ہے اور ایسے واقعات پہ زیادہ ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نہ خود ایسا انسان بننا چاہتا ہوں اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگ ایسے سنگ دل بن جاءیں۔ مگر اس کے ساتھ جب میں دیکھتا ہوں کہ سرفراز شاہ کی ہلاکت کی ویڈیو نے کس طرح لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو دل کسی قدر مطمءن ہوتا ہے۔ دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص ایک بہت ظالم جگہ ہے۔ پاکستان میں ہر طرح کا ظلم ہمہ وقت رواں ہے۔ قانون صرف غریب اور کمزور پہ لاگو ہوتا ہے۔ وہاں دراصل طاقت ہی اصل قانون ہے۔ مگر پاکستان کے شہری علاقوں میں بسنے والے بہت سے متوسط اور متمول طبقات کے لوگ پاکستان کی اس اصل حقیقت سے یکسر لا علم ہیں۔ سرفراز شاہ کی ہلاکت نے ایک کمینی حقیقت کو ہر پاکستانی کے سامنے یوں لا کھڑا کیا ہے کہ اب اس کا اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یہ ویڈیو عام لوگوں کو عمل کے لیے اکسا رہی ہے۔ ان کو جھنجھوڑ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ بتاءو، اب کیا کرو گے۔ کیا اب بھی آنکھیں بند رکھو گے اور خیال کرو گے کہ بس ملک یوں ہی چلتا رہے گا، یا ملک میں ایک منصف معاشرے کے قیام کے لیے ہاتھ ضرور بٹاءو گے؟
رینجرز کے جن اہلکاروں نے سرفراز شاہ کو گولیاں ماریں ان کا کہنا تھا کہ سرفراز شاہ ایک راہ زن تھا جو کسی شخص کا دستی فون چھین کر بھاگا تھا۔ رینجرز اہلکاروں کے اس بیان کی روشنی میں کچھ لوگوں کا خیال ہوا کہ سرفراز شاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ٹھیک ہی ہوا۔ لوگوں کی ایسی کجی سوچ ایک کچے ذہن کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک ایسا ذہن جس نے کبھی یہ نہ سوچا ہو کہ معاشرے میں قانون کی بالادستی کی اہمیت کیا معنی رکھتی ہے، اور یہ نہ جانا ہو کہ ماوراءے عدالت "انصاف" دراصل ایک گدلا عمل ہے جس میں عمل کا منصف ہونا یا نہ ہونا کبھی ثابت نہ ہوپاءے گا۔
سرفراز شاہ کی ہلاکت کے سسلسلے میں بہت سے لوگوں کا اس ماوراءے عدالت کارواءی پہ مطمءن ہوجانا بھی دراصل نفسیاتی طور پہ عالمی فکری تحریکوں سے متاثر ہونے کی ایک شکل ہے۔ کہ آپ نے اور میں نے دیکھا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے امریکہ کے صدر نے ایک مفرور ملزم، اسامہ بن لادن، پہ شب خون مار کر اسے ہلاک کرنے کے عمل پہ اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ "انصاف ہو گیا۔" موسیقی ہو یا ٹیکنالوجی، فیشن ہو یا ساءنس، پچھلی کءی دہاءیوں سے امریکہ تمام تحریکوں میں دنیا کا بے تاج بادشاہ مانا جاتا ہے اور یہاں سے اٹھنے والی فکری لہریں جلد یا بدیر پوری دنیا کو اپنی جکڑ میں لے لیتی ہیں۔ جب ایسے اہم ملک کا صدر ایک ماوراءے عدالت کارواءی پہ یوں سینہ ٹھونک کر کہے کہ "انصاف ہوگیا" تو ایسی احمقانہ سوچ کا دنیا کے چپے چپے میں پھیل جانا کوءی حیرت کی بات نہیں۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?