Monday, July 04, 2011

 

لاد چلا لادن


مءی دو، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار بتیس



لاد چلا لادن




دنیا میں تہاذیب کے عروج و زوال تاریخ کا حصہ رہے ہیں مگر پندرہویں صدی کے بعد یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بسے یورپیوں کا جو عروج شروع ہوا ہے اس عروج کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس بے مثال عروج کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آج سے پہلے دنیا نامی یہ سیارہ اس طور سے باہم منسلک نہ تھا جیسا آج ہے۔ آج کی دنیا کی مواصلات پہ مغربی دنیا کا بھرپور قبضہ ہے۔ وہ ایک شوشہ چھوڑتے ہیں اور پوری دنیا کے خبر رساں ادارے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ صحافت کا معیار یہ ہوگیا ہے کہ کسی بھی بات کو بغیر تصدیق مگر حوالے کے ساتھ نقل کردینا کافی ہے۔ ضیاالحق کے دور میں پاکستان ٹی وی کا نو بجے کا خبرنامہ جس صحافت کا مظاہرہ کرتا تھا وہ صحافت آج ہر جگہ نظر آتی ہے۔ "انہوں نے یہ کہا،" "باخبر ذراءع کا کہنا ہے،" کی گردان مستقل سننے میں آتی ہے۔ کل سے پوری دنیا میں شور ہے کہ امریکی فوج کے ایک چھوٹے سے دستے نے ایبٹ آباد میں واقع اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پہ حملہ کر کے بن لادن کو مار دیا اور اس کی لاش اس جگہ سے اٹھا کر لے گءے۔ لاش کو بعد میں سپرد سمندر کر دیا گیا۔ اس خبر کو مغربی ذراءع تک امریکی فوج نے پہنچایا ہے۔ بس صحافت میں اتنی تکلیف کافی ہے۔ اب اخبارات اور ٹی وی سمیت سارے مغربی ذراءع مستقل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ بن لادن کو مار ڈالا گیا۔ میں نے کچھ دیر پہلے روزنامہ جنگ اور روزنامہ ڈان کا انٹرنیٹ ایڈیشن پڑھا ہے۔ یہ دونوں اخبارات بھی بن لادن کی ہلاکت کی خبروں سے بھرے ہیں۔ مگر یہ ساری خبریں مغربی ذراءع سے حاصل کی گءی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ روزنامہ جنگ میں اس واقعہ سے متعلق تینوں تصاویر بھی مغربی ذراءع سے حاصل شدہ ہیں۔ ارے کچھ شرم کرو! ایبٹ آباد تو پاکستان کا حصہ ہے۔ اگر تمھارے اخبارکے رپورٹر ایبٹ آباد میں نہیں بھی ہیں تو اسلام آباد سے ایک شخص ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ایبٹ آباد پہنچ سکتا ہے۔ شبینہ واقعے کےعینی شاہدین کے انٹرویو کیے جا سکتے ہیں۔ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ مکان کس شخص کے نام ہے، اور مالک مکان کا تعلق کس جگہ سے ہے۔ پڑوسیوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ مکان میں کون لوگ رہتے تھے اور کس طرح کے لوگوں کا وہاں آنا جانا تھا۔ اسی ضمن میں ایک خبر ہے کہ عسکری مقابلے میں ہلاک ہونے والے چند لوگوں کے علاوہ بارہ لوگوں کو زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ گرفتارشدگان کہاں ہیں؟ کیا آزاد اور ذمہ دار خبر رساں ایجنسیاں ان لوگوں تک رساءی حاصل کر سکتی ہیں؟ غرض کہ اس واقعے کے ایبٹ آباد میں ہونے کی وجہ سے پاکستانی خبررساں اداروں کے لیے بہت سے راستے کھلے ہیں اور پاکستان میں مقامی طور پہ حاصل کی گءی معلومات کی اہمیت نقل ٹپو صحافت سے حاصل کی گءی معلومات سے کہیں زیادہ ہوگی۔
مغرب جہاں ایک ہی بات کو سو طرف سے پانچ ہزار دفعہ بیان کرنے میں کمال رکھتا ہے وہیں اپنی پیٹھ خود ٹھونکنے میں بھی کسی قسم کی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ سننے میں آرہا ہے کہ اسامہ بن لادن کو مارنے سے بالاخر انصاف حاصل ہوگیا۔ واقعی؟ انصاف تو اس وقت ہوتا جب بن لادن کو زندہ پکڑ لیا جاتا۔ مبینہ طور پہ اس کے سر پہ گولی مارنے کے بجاءے بن لادن کی ٹانگ پہ گولی ماری جاتی یا اس پہ بے ہوش کرنے والی گیس کا چھڑکاءو کر دیا جاتا۔ بن لادن کو زندہ پکڑنے کے بعد اس پہ باقاعدہ مقدمہ چلایا جاتا اور جرم ثابت ہونے پہ قرار واقعی سزا دی جاتی۔ پھر ہوتا انصاف۔
دل کہہ رہا ہے کہ ایک بار پھر جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ بن لادن کی نہ پہلے کوءی اہمیت تھی نہ آج ہے۔ القاعدہ کا ہوا جھوٹا ہے۔ ہاں بہت سے گمراہ لوگ ضرور ہیں جو نفرت سے بھرے ہیں اور امریکہ سے بغض رکھتے ہیں۔ مگر القاعدہ کوءی ایسی منظم بین الاقوامی تنظیم نہیں ہے جو سازش کرنے والوں کو ایک اچھا سا کانفرینس روم مہیا کرے، جہاں ہر مندوب کے سامنے معدنی پانی کی چھوٹی سی بوتل رکھی ہو، جہاں کافی غور و فکر کے بعد گہری سازش تیار کی جاءے۔ بن لادن ایک بے وقوف شخص تھا جو شاید بہت پہلے کہیں بےنام و نشان مر چکا ہے۔ موجودہ بن لادن کہانی کے پیچھے امریکی عسکری اور سیاسی قیادت کے کیا عزاءم ہیں، یہ وقت کے ساتھ ہی معلوم ہوگا مگر سر دست یہ خیال ہوتا ہے کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" جیسے بڑے فضول خرچے کو لپیٹنے کی تیاری ہے۔ حماقت کی یہ جنگ نو گیارہ کے دھماکہ دار واقعے سے شروع ہوءی تھی اور اسے ایسے ہی کسی واقعے پہ ختم کرنا ضروری تھا۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس جنگ کے احمقانہ حصے کا اختتام ہے۔ آءندہ یہ جنگ ڈرون حملوں سمیت خودکار طریقوں سے لڑی جاءے گی۔ اس طرح امریکی فوجی صنعت بھی چلتی رہے گی اور امریکی جانی نقصان بھی نہ ہوگا۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?