Monday, July 04, 2011
بن لادن کا اسلحہ
مءی نو، دو ہزار گیارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار تینتیس
بن لادن کا اسلحہ
دنیا کے اکثر ممالک میں لوگوں کا اعتبار اپنے اوپر حکومت کرنے والوں پہ کم ہو گیا ہے۔ حکام کچھ بتاءیں تو اس پہ شک ہی کیا جاتا ہے کہ نہ جانے اصل بات کیا ہے۔ ایسے میں صحافیوں کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ بال کی کھال نکالیں اور تمام معاملات کھول کھول کر لوگوں کے سامنے رکھیں۔ اور جب ایک خبر کو کءی صحافی ایک ہی طرح سے بیان کریں تو پھر اس خبر پہ یقین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اتوار، اول مءی کی رات جب امریکی حکام نے خبر دی کہ ایک امریکی فوجی دستے نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پہ ہلہ بول کر اسامہ بن لادن کو مار دیا ہے تو بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی اس خبر کی صداقت کے متعلق شک میں گرفتار تھا۔ شک کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک یہ خبر صرف امریکی وزارت دفاع کی طرف سے آرہی تھی۔ مجھے اس بارے میں شک نہ تھا کہ امریکی فوج نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پہ حملہ کیا ہوگا کیونکہ شمالی پاکستان میں امریکی فوجیں ایک عرصے سے لوگوں اور گھروں پہ حملے کر رہی ہیں۔ میرا شک صرف اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے متعلق تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ نہ جانے امریکی فوجیوں نے کس لمبے، داڑھی والے آدمی کو جان سے مار دیا اور خود اپنے سینے پہ تمغہ سجا لیا کہ ہم نے اسامہ بن لادن کو مار ڈالا ہے۔ مگر جب پاکستانی میڈیا نے اس خبر کی تصدیق کی تو میں مطمءن ہوگیا۔ مجھے تعجب اس بات پہ ہوتا ہے کہ آج اس واقعہ کو ہفتہ بھر سے زاءد گزرنے کے بعد بھی مجھے ایسے لوگ ملتے ہیں جو سر ہلا کر کہتے ہیں، " بالکل جھوٹ۔ سفید جھوٹ۔ سراسر جھوٹ ہے یہ سب کچھ۔"۔ شکی مزاج ایسے ہی ایک شخص سے میں نے استفسار کیا کہ ان کی نظروں میں کیا کچھ جھوٹ ہے۔ کیا پاکستان میں ایبٹ آباد نامی ایک شہر ہے؟ کہنے لگے کہ جی ہاں ہے۔ کیا ایبٹ آباد میں واقع ایک گھر پہ مءی ایک اور دو کی درمیانی شب ایک حملہ ہوا تھا؟کہنے لگے کہ جی ہاں، ہوا تھا کیونکہ ٹی وی پہ وہ گھر دکھایا جا رہا ہے اور محلے میں رہنے والے لوگ بھی تصدیق کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہیں کہ اس گھر پہ ڈرون سے نہیں بلکہ ہیلی کاپٹر سے حملہ ہوا تھا؟ میں نے خود ہی ان کی توجہ اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کی طرف دلاءی جسے حملہ آور چھوڑ گءے تھے۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا کہ ہاں حملہ ہیلی کاپٹر سے ہوا تھا۔ کیونکہ امریکی حکام خود کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہیلی کاپٹروں سے اپنے فوجی ایبٹ آباد کے اس گھر پہ حملے کے لیے بھجواءے تو جاءے وقوع پہ ایک تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کی موجودگی اور امریکی حکام کے بیان کے بعد اس بارے میں شک کرنا بے معنی ہے کہ امریکی فوجیوں ہی نے اس گھر پہ حملہ کیا تھا۔ تو یہاں تک تو آپ کو یقین ہے کہ یہ سچ ہے، میں نے اپنے اطمینان کے لیے ان سے پوچھا۔ انہوں نے کسی قدر ناگواری سے اثبات میں سر ہلایا۔ تو اب شک صرف اس بارے میں رہ گیا کہ اس گھر میں مارا جانے والا ایک شخص اسامہ بن لادن تھا جس کی لاش امریکی فوجی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گءے۔ پاکستانی میڈیا سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایبٹ آباد کے اس گھر میں دھماکے کی آواز سننے کے بعد پاکستانی سیکیورٹی حکام وہاں پہنچے اور انہوں نے مذکورہ گھر کے زخمیوں اور دوسرے لوگوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور اس بارے میں بھی شک نہیں کرنا چاہیے کہ اس گھر سے حراست میں لیے جانے والے لوگوں میں سے ایک أمل الصداح نامی عورت ہے جو اسامہ بن لادن کی بیوی بیان کی جاتی ہے۔ اگر ہم نے مغربی اور پاکستانی میڈیا کی خبروں سے یہاں تک کے تمام معاملات کو سچ جان لیا ہے تو اس بارے میں شک کرنا فضول ہے کہ اس گھر میں اسامہ بن لادن مارا گیا تھا۔
البتہ اس خبر سے متعلق امریکی حکام نے جو تفصیلات بیان کی تھیں اور جس طرح نیوی سیلز کمانڈوز کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا تھا اس بارے میں بلا شبہ شک کیا جا سکتا ہے۔ کہ اگر مغربی ذراءع کی یہ خبریں صحیح ہیں کہ ایک جاسوس ڈرون ایک طویل عرصے سے خفیہ طور پہ ایبٹ آباد کے اس گھر کی ویڈیو بنا رہا تھا اور سی آءی اے نے ایبٹ آباد کے اس علاقے میں ایک گھر کراءے پہ لے لیا تھا جہاں رہنے والے مخبر اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پہ نظر رکھے ہوءے تھے اور اس گھر پہ آنے جانے والے لوگوں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ تو پھر اتنی تحقیق کے بعد چالیس مسلح لوگوں کا ہیلی کاپٹر سے ایک گھر پہ حملہ آور ہونا شجاعت کا کوءی ایسا کارنامہ نہیں ہے۔ ایبٹ آباد کے اس گھر پہ حملہ کرنے والے فوجیوں کو وہاں رہنے والے لوگوں کی تعداد کا علم تھا، ان کو معلوم تھا کہ مکینوں کے پاس کوءی بڑے ہتھیار نہیں ہیں، اور یہ یقین تھا کہ مکین اپنے دفاع میں بے ضرر مزاحمت کے علاوہ کچھ نہ کر پاءیں گے۔ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پہ حملہ بظاہر ہالی وڈ کی کسی جاسوسی فلم کا ایک سنسی خیز سین نظر آتا ہے جس میں چند ہیرو انتہاءی خطرناک لوگوں کے ٹھکانے پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بچتے بچتے اپنا مشن پورا کرتے ہیں، مگر ایسا تھا نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذکورہ فوجی آپریشن سے زیادہ سہل کمانڈو ایکشن کی صورت مشکل ہی سے پیدا ہو پاءے گی۔
اب مجھے تجسس صرف یہ ہے کہ اس گھر سے کس قسم کا اسلحہ پکڑا گیا۔ دنیا کا سب سے خطرناک مجرم قرار دیا جانے والا شخص اپنے ساتھ کس قسم کے خطرناک ہتھیار رکھتا تھا؟ کیا اسامہ بن لادن کے وہ آتشیں ہتھیار امریکی کمانڈو اپنے ساتھ لے آءے ہیں یا پاکستانی حکام نے ان ہتھیاروں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے؟ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ان حقاءق پہ سے پردے اٹھاءیں گے۔
Labels: बिन लादिन का अस्लिहा