Monday, July 04, 2011

 

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عام پاکستانی



مءی تءیس، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار پینتیس




دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عام پاکستانی



جس وقت یہ کالم لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہاں کیلی فورنیا میں اتوار کی رات تھی اور کراچی میں پیر کی صبح ۔ پی این ایس مہران پہ دہشت گردوں کا حملہ جاری تھا۔ ایک خبر کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے فون کر رواءٹرز کو بتایا تھا کہ ان کے گروہ نے یہ حملہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے انتقام میں کیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ دہشت گردوں کے پاس تین دن کا کھانے پینے کا سامان اور طویل لڑاءی کے لیے اسلحہ موجود تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب یہ معرکہ ختم ہوچکا ہے۔ مگر اس دلیر حملے نے بہت سے رازوں پہ سے پردے اٹھا دیے ہیں اور دنیا بھر میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو فکر کا نیا سامان مہیا کر دیا ہے۔ پی این ایس مہران پہ حملے کی خبر سن کر سب سے پہلا خیال یہ آیا تھا کہ حملہ آور بلوچ قوم پرست ہو سکتے ہیں۔ مگر جب معلوم ہوا کہ حملہ آور نقصان کر کے فرار نہیں ہونا چاہتے بلکہ وہیں رک کر مقابلہ کر رہے ہیں اور اس طرح اپنی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں تو واضح ہو گیا کہ یہ لوگ یقینا گمراہ مسلمان ہیں۔ ایک پاگل عیساءی، یا پاگل ہندو، یا پاگل یہودی، یا پاگل قوم پرست اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے اتنا بیتاب نہیں ہوتا، جتنا بے چین ایک پاگل مسلمان ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اس حملے کی توجیہہ جان کر لوگوں کے یہ شکوک و شبہات ختم ہوگءے ہوں گے کہ مءی دو کا واقعہ محض جھوٹ تھا۔
فوجی کسی ملک کا بھی ہو کبھی اپنی ذہانت و چالاکی کے لیے مشہور نہیں رہا۔ امریکہ کے ان نیوی سیل کمانڈوز کو ہی لے لیجیے جنہوں نے آٹھ ماہ تک اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد کے ٹھکانے پہ حملہ کرنے کی مشق کی اور ساتھ ہی یہ مشق بھی کہ کس طرح ہیلی کاپٹروں سے اتر کر پشتو میں چلا چلا کر محلے والوں کو بتانا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ ان بے وقوف کمانڈوز کو نہ تو کسی نے بتایا اور نہ ہی ان کی اپنی کھوپڑی چلی کہ انٹرنیٹ کی مدد سے معلوم کر لیتے کہ ایبٹ آباد میں پشتو نہیں ہندکو بولی جاتی ہے۔ تو اگر چار چھ دہشت گرد نہایت سہولت سے پی این ایس مہران میں داخل ہو گءے اور اس فوجی اڈے کی حفاظت پہ معمور فوجیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوءی تو اس قدر تعجب کی بات نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حملہ آوروں نے جس طرح راکٹوں کی مدد سے اوراین جاسوسی طیارہ تباہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملہ آوروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فوجی اڈے میں داخل ہو کر کہاں جانا ہے اور کس کھڑے طیارے کو تباہ کر کے زیادہ سے زیادہ نقصان کرنا ہے۔ مگر میں اس جاسوسی طیارے کی تباہی کے واقعے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اگر آپ رات کے اندھیرے میں کسی فوجی اڈے میں نقصان کرنے کی نیت سے داخل ہوں تو آپ اس جگہ جاءیں گے جو سب سے زیادہ نمایاں ہوگی۔ اور پی این ایس مہران میں ایک چالیس فٹ اونچے طیارے سے زیادہ نمایاں عسکری اہمیت کی شے کیا ہوسکتی تھی؟
مگر پاکستانی فوجی تنصیبات پہ دہشت گردوں کے پے درپے حملوں سے پاکستانی فوج کی کمزوری دنیا پہ عیاں ہو گءی ہے۔ پاکستان اور پاکستانی فوج کے دشمن یقینا ان واقعات کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں اپنے مذموم عزاءم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شہ مل رہی ہوگی۔ پاکستانی فوج کی اس پرکھ کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستانی کے جوہری اثاثے کیا واقعی محفوظ ہیں یا دہشت گرد حساس فوجی مقامات پہ حملہ کر کے ان جوہری اثاثوں کو بھی اپنے قبضے میں کر سکتے ہیں۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر نو گیارہ کے واقعے کے وقت پاکستان میں ایک جمہوری حکومت ہوتی تو کیا ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف تو مطلق العنان حکمراں تھے، انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا حواری بنانے کے سلسلے میں بہت سے لوگوں سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اگر پرویز مشرف کی جگہ اس وقت ایک جمہوری حکومت ہوتی تو شاید اس جنگ میں کودنے کے بارے میں زیادہ غورو خوض کیا جاتا۔ کیا اس بات کا امکان تھا کہ ایسی پاکستانی حکومت مذہبی جماعتوں کے زور میں آکر امریکہ کی جنگ لڑنے سے معذوری کا اظہار کر دیتی؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ کیا مذہبی شدت پسندی سے لڑاءی ہمیشہ کے لیے ٹل جاتی یا اعتدال کا مقابلہ انتہا پسندی سے کبھی نہ کبھی ہونا ہی تھا اور یہ لڑاءی جتنی زیادہ دیر ٹلتی انتہا پسندی اس قدر زیادہ طاقتور ہوتی جاتی؟ اس لیے بہتر ہی ہوا کہ یہ لڑاءی شروع ہوگءی؟ مگر امکانات کی یہ پہیلیاں محض ذہنی معرکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اپنے آپ سے برسرپیکار ہے اور پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ لگتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے "القاعدہ" اور "طالبان" پہ حملے جاری رہیں گے اور ان حملوں کے انتقام میں شدت پسندوں کی طرف سے جوابی حملے پاکستان کے خلاف کیے جاءیں گے۔ اس صورت میں پاکستان میں رہنے والے عام لوگ کیا کریں؟ ہاتھیوں کی اس احمقانہ لڑاءی میں چیونٹیاں اپنی حفاظت کا انتظام کیسے کریں؟ اس نہایت مشکل سوال کا ایک آسان جواب ہے جس پہ عمل درآمد مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ مملکت پاکستان مرکزی نظام حکومت کی جس بتدریج کمزوری اور بالاخر ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان میں رہنے والے لوگ اسے دل سے قبول کر کے اپنی جان بچانے کا انتظام کریں۔ اپنے اپنے علاقے کا انتظام سنبھال لیں۔ اس مفروضے کے ساتھ کام کریں کہ مرکزی نظام حکومت کا سایہ آپ کے سروں سے اٹھ چکا ہے اور اب آپ کو اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی حفاظت، اپنی معیشت، اپنی ضروریات کا انتظام کرنا ہے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?