Monday, July 04, 2011

 

پاکستان میں فوج-حکومت معاملہ



مءی سولہ، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چونتیس



پاکستان میں فوج-حکومت معاملہ



جس قدر محیرالعقل ستمبر گیارہ، دوہزار ایک کا واقعہ تھا، اتنا ہی عجیب و غریب مءی دو، دوہزار گیارہ کا واقعہ تھا۔ ایبٹ آباد کا واقعہ دو ہفتے سے زیادہ پرانا ہو چکا ہے مگر اس واقعے پہ اب تک زوردار بحث جاری ہے۔ امریکہ میں بالخصوص اور مغربی دنیا میں بالعموم عام لوگوں کو یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ آیا پاکستانی فوج کے علم میں یہ بات تھی کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے ایک گھر میں پانچ سال سے رہ رہا ہے۔ کیا ایبٹ آباد میں بن لادن کی رہاءش پاکستانی فوج یا کم از کم پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں کی اعانت ہی سے ممکن ہو پاءی؟ اس سوال کے مقابلے میں پاکستان میں رہنے والے لوگوں اور بیرون ملک رہاءش پذیر پاکستانیوں کو یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے کہ آیا دو مءی کے روز واقعی پاکستانی فوج کو امریکی حملے کے متعلق اس وقت خبر ملی جب ہیلی کاپٹروں کا امریکی دستہ پاکستانی سرحد پار کر چکا تھا، یا پھر دو مءی کا امریکی حملہ پاکستانی فوج کی مدد سے ممکن ہوا۔ اگر پہلی بات درست ہے اور واقعی پاکستانی فوج اتنی بے خبر ہے کہ کوءی ہمارے ملک کے اندر داخل ہو کر ایک ملٹری اکیڈمی کے بغل میں فوجی کارواءی کر کے چلا جاءے اور پاکستانی فوج کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستانی عوام کو اپنی فوج کی کارکردگی پہ شدید غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام چھ لاکھ پاکستانی فوجیوں کے اسی طرح کے مالک ہیں جیسے ایک گھر میں رہنے والے لوگ گھر کے چوکیدار کے مالک ہوتے ہیں۔ کسی شخص کو گھر کی چوکیداری کے لیے صرف ایک مقصد کے لیے رکھا جاتا ہے اور وہ یہ کہ چوکیدار دل لگا کر گھر کی حفاظت کرے اور کسی چور اچکے کو اس بات کا موقع نہ فراہم کرے کہ وہ گھر میں گھس کر صفاءی کر جاءے۔ اگر کبھی یوں ہو کہ چوکیدار کی موجودگی کے دوران چور گھر میں گھس کر اپنا کام کر جاءیں تو سب سے پہلے تو گھر کے مالکان کا دھیان اس طرف جاتا ہے کہ کہیں چوکیدار چوروں سے تو نہیں ملا ہوا تھا۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور چوکیدار واقعی نشہ کر کے سور رہا تھا تو چوکیدار کو نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ ایک نااہل ملازم کو بھلا کون برداشت کرتا ہے؟
ایبٹ آباد کے واقعے میں ایک دوسری صورت یہ ہے کہ امریکی حملہ پاکستانی فوج کی مرضی سے ہوا اور پاکستانی فوج صرف دنیا کو دکھانے کے لیے کہہ رہی ہے کہ اسے کاکول کے برابر میں ہونے والی اس فوجی کارواءی کے بارے میں بالکل پتہ نہ چل پایا۔ کیا پاکستان کی سیاسی حکومت بھی اس دکھاوے میں شامل ہے یا پھر پاکستانی فوج کے امریکہ سے بالا بالا ایسے تعلقات ہیں کہ امریکی حکام، پاکستان کی سیاسی حکومت کو ساتھ ملاءے بغیر صرف پاکستانی فوج کے ساتھ معاملہ کر کے اپنا کام چلا لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ کوءی بہت اچھی صورتحال نہیں ہے کیونکہ پاکستانی عوام اور اس کی نماءندہ سیاسی حکومت فوج کی مالک ہے۔ مالک کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملازم کس کے ساتھ مل کر کیا کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور فوج کے درمیان مالک اور ملازم کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پے درپے آنے والی کمزور اور نااہل سیاسی قیادت نے پاکستانی فوج کو ایسے مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پاکستان کا صحیح مالک تصور کرے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان کا وزیر دفاع کون ہے۔ البتہ پاکستانی فوج کے سربراہ کا نام سب لوگ جانتے ہیں۔ صاف واضح ہے کہ کون کتنا طاقتور ہے۔
اب تک یوں ہی تھا مگر اب بات ایسے نہیں چل سکتی۔ سچی جمہوریت میں حکومت جمہور کو جوابدہ ہوتی ہے اور فوج حکومت کو۔ معاملات کو اسی طرح شفاف رکھنے میں احتساب کا راستہ اوپر سے نیچے تک کھلا رہتا ہے۔ معاملات کو اسی طرح شفاف چلانے میں ہم سب کی بہتری ہے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?